"SAC" (space) message & send to 7575

آئیے‘ اپنا مقدر خود تبدیل کریں!

دوست کی آمد پر احساسِ مسرت ہمارے مشرقی کلچر کا خاصہ ہے‘ لیکن جب آنے والا مہمان بھی خاص ہو‘ ہر آزمائش پر پورا اترنے والا اور سدا بہار ہو تو خوشی کا احساس ایک مخصوص تفاخر و ارتفاع سے فزوں تر ہو جاتا ہے۔ حال ہی میں اسی طرح کے ایک خاص دوست پاکستان تشریف لائے تھے۔ چین کے صدر شی چن پنگ اپنے پہلے دورے پر آئے تو انہوں نے پاکستان کو اپنے برادرانِ عزیز کا گھر قرار دیا۔ اپنی آمد سے قبل انہوں نے پاکستانی عوام کے لیے ایک پُرجوش پیغام بھیجا:
''جب میں جوان تھا‘ میں نے دونوں ملکوں کے مابین دوستی اور پاکستان کے بارے میں کئی متاثر کن باتیں سنیں۔ ان میں سے چند یہ تھیں: مجھے معلوم ہوا کہ پاکستانی عوام اپنے خوبصورت ملک کی تعمیر کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں‘ پاکستان نے چین کے بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے ایک فضائی راہداری (air corridor) کھولی ہے اور اقوام متحدہ میں قانونی رکنیت کی بحالی کے لیے چین کی مدد کی ہے۔ ان باتوں نے مجھ پر گہرا تاثر چھوڑا‘‘۔ صدر شی چن پنگ نے چین پاکستان مثالی تعلق کی حقیقی تصویر کشی کرتے ہوئے مزید کہا: ''گزشتہ برسوں کے دوران دونوں ملکوں کے رہنمائوں اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے عوام کی آبیاری کی بدولت چین پاکستان دوستی کا پھلتا پھولتا شجر بلند قامت اور تناور بن چکا ہے۔ دونوں ممالک کے حالات جو بھی رہے ہوں‘ یہ خطہ اور دنیا جتنی بھی تبدیل ہوئی ہو‘ ہمارے دو طرفہ تعلقات مستحکم اور مسلسل ترقی پذیر رہے ہیں۔ ہم نے بنیادی مفادات سے متعلق معاملات پر ہمیشہ ایک دوسرے کو سمجھا ‘ حمایت کی اور باہمی احترام کو ملحوظ خاطر رکھا‘‘۔
یقیناً یہ پیغام چین پاکستان دوستی کا حقیقی آئینہ دار ہے جو دونوں ملکوں کی آزادی کے وقت سے ان کے عوام کے قلوب و اذہان میں جاگزیں ہے۔ یکم اکتوبر 1949ء کو ''عوامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا اعلان ہونے کے فوراً بعد پاکستان غیر کمیونسٹ ممالک میں تیسرا اور پہلا مسلمان ملک تھا جس نے چین کی نئی حکومت کو تسلیم کیا۔ 1950ء میں اس نے بیجنگ میں اپنا سفارتی مشن کھول لیا۔ اس وقت سے چین کے ساتھ قریبی اور باہمی تعاون پر مبنی تعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور ہے۔ یہ تعلق دوطرفہ‘ علاقے اور بین الاقوامی سطحوں پر امن‘ استحکام اور خوشحالی کے لیے طویل مدتی شراکت داری ہے۔
اس تعلق کی منفرد خصوصیت دونوں ملکوں کے درمیان کامل اعتماد اور بھروسہ ہے جو ان کے عوام میں بے ساختہ خیرسگالی اور حمایت کے جذبات ابھارتا ہے۔ بلاتعجب‘ اس دوستی کی بنیاد وقتی مفادات اور مصلحتیں نہیں ہیں اور یہ شخصیتوں، حکومتوں یا اندرونی و بین الاقوامی حالات میں تبدیلیوں سے ماورا ہے۔ چین اور پاکستان دونوں اپنے بیرونی تعلقات میں پُرامن بقائے باہمی اور باہمی مفاد پر مبنی تعاون کے آفاقی اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ وہ جائز مقاصد کے لیے ایک دوسرے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے نقطۂ نظر سے مسئلہ کشمیر کے پُرامن تصفیے کے علاوہ اس کی آزادی اور جغرافیائی سلامتی جبکہ چین کے لیے تائیوان‘ حقوق انسانی‘ تبت اور سنکیانگ شامل ہیں۔
اعلیٰ سطح کے وفود کے باقاعدگی سے تبادلوں کی روایت اور حکومتی روابط انہیں معیشت‘ تجارت‘ سرمایہ کاری‘ تعلیم‘ دفاع‘ مواصلات‘ انفراسٹرکچر اور سکیورٹی سمیت باہمی مفاد کے تمام شعبوں میں فروغ پذیر تعاون کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ دوطرفہ سطح پر باہمی تعاون و حمایت‘ مشترکہ تصورات اور تزویراتی مفادات میں ہم آہنگی ان کے تعلق کو ایک خاص گہرائی عطا کرتی ہے۔ ان کی شراکت داری کی توانا تزویراتی جہت ان کے باہمی مفادات ہی نہیں ہمارے خطے کے استحکام اور سکیورٹی کو بھی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
نو برسوں میں کسی چینی سربراہ مملکت کے پہلے تاریخی دورے میں صدر شی چن پنگ نے پچاس سے زیادہ معاہدوں پر دستخط کیے‘ جن میں 28 ارب ڈالر مالیت کے تجارت اور سرمایہ کاری کے معاہدے بھی شامل ہیں اور یہ 46 ارب ڈالر سے تعمیر ہونے والی چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ ہیں۔ چینی سرمایہ کاری، پاکستان میں شاہراہوں‘ ریلوے‘ بجلی اور دوسرے منصوبوں پر خرچ ہو گی جس کی بدولت چینی شہر کاشغر سے جنوبی پاکستان کی گوادر بندرگاہ تک ٹریڈ روٹ معرضِ وجود میں آئے گا۔ توانائی کے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی جو 2018ء تک پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔ ان منصوبوں کی مالیاتی ضروریات کے ضمن میں کچھ چیزیں غیرواضح ہیں لیکن چینی ان کی بروقت تکمیل کے لیے پُرعزم ہیں۔
یقیناً اقتصادی تعاون اس کثیر جہتی تعلق کی اساس ہے۔ قراقرم ہائی وے کی بحالی سے قدیم شاہراہ ریشم کی نئی نئی مکمل ہونے والی گوادر بندرگاہ تک جدید تعمیر‘ انڈسٹریل پلانٹس‘ کارخانوں‘ الیکٹریکل اور مکینیکل کمپلیکس‘ پانی اور جوہری توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے یونٹوں کی تعمیر اسی حقیقت کا ثبوت ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے 2013ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد چین کے دو دوروں کے دوران چینی قیادت سے ان میگا پروجیکٹس کو اقتصادی راہداری سے منسلک کرنے کا وعدہ لیا اور چین کی بڑی تعمیراتی کمپنیوں کے علاوہ سرمایہ کاری اور مالیاتی اداروں کو بھی ان کی تکمیل پر آمادہ کیا۔
اب دونوں ملکوں کا بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اس مشترکہ وژن کو کتنی فعالیت اور اخلاص کے ساتھ حقیقت کا روپ دیتے ہیں۔ چینیوں نے تو ہمیشہ اپنے وعدے پورے کیے۔ ان کی مدد ہمیشہ بے غرض اور غیر مشروط رہی بلکہ اس میں چینیوں کی زندگیوں کی قربانی بھی شامل رہی۔ آج بھی ہزاروں چینی انجینئر اور ورکر مشکل ترین حالات میں پاکستانی عوام کے لیے سڑکیں‘ پُل‘ سرنگیں‘ ڈیم‘ سکول اور ہسپتال تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اقتصادی سرگرمی کے بنیادی عوامل میں پالیسیوں کے تسلسل‘ امن و امان کے قیام اور توانائی سمیت معاون انفراسٹرکچر کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے جو ہمارے ملک میں مفقود ہے۔ چین کے ساتھ ہمارے تعاون کے دو اہم پہلوئوں کی تاریخ مایوس کن ہے... تجارت کے فروغ اور گوادر پورٹ کی تعمیر کو تقریباً دس سال نظرانداز کیا جاتا رہا۔ نئے منصوبوں کی بروقت اور مناسب لاگت کے ساتھ مکمل کرنے میں ہماری استعداد و صلاحیت کی کم مائیگی ہمارے لیے چشم کشا ہونی چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس پالیسی یا ترجیحات کے تعین کا فریم ورک ہے‘ نہ ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے کا مربوط نظام‘ لہٰذا ان کے لیے مختص فنڈز استعمال ہی نہیں ہو پاتے۔ کئی منصوبے محض اس لیے ترک کرنا پڑے کہ ہماری حکومت کے متعلقہ اداروں کے مابین منظم رابطے کا فقدان ہے۔ ہمیں اس حالت کی بہت جلد اصلاح کرنی چاہیے۔
مربوطیت‘ تعمیرات‘ تجارت‘ اقتصادی و تکنیکی تعاون اور اقتصادی راہداری کا یہ پورا سلسلہ اقتصادی اور تجارتی ربط (دو طرفہ اور علاقائی) اور افغانستان کے لیے زبردست مفادات کا باعث بنے گا۔ یہ دونوں ملکوں کے لیے گیم چینجر ہے جس کا ایجنڈا اور مشترکہ وژن دونوں کے عوام کے بہتر مستقبل اور خطے کے امن اور خوشحالی کا ضامن ہو گا۔ چین کے نقطۂ نظر سے اس پر عملدرآمد کی بدولت اس کے شمال مغربی پسماندہ علاقے تیز رفتار ترقی کریں گے جو اس کی قومی خوشی کا سبب بنیں گے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس منصوبے سے اقتصادی خوشحالی اور استحکام کا پرانا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔
ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے، چینی ان منصوبوں میں ہماری اس لیے مدد کر رہے ہوں کہ وہ پاکستان کی خودمختاری‘ آزادی اور جغرافیائی سلامتی کے تحفظ کی خاطر حمایت کا بار بار عزم ظاہر کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو کر اپنی تقدیر کا فیصلہ دوسروں پر چھوڑ دیں۔ ہمیں اپنا مقدر تبدیل کرنے کے لیے لازمی طور پر ان منصوبوں پر عملدرآمد کرنے میں اپنا کردار خود ادا کرنا ہو گا ۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ایک ایسا خودمختار ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے جو مکمل طور پر نوکر شاہی اور قواعد و ضوابط کی رکاوٹوں سے پاک ہو۔ اس ادارے کا بجٹ‘ انتظامی امور اور سکیورٹی میکانزم بھی اپنا ہو۔ آئیے ہم اپنا مقدر خود تبدیل کریں جیسے چین نے اپنا مقدر خود تبدیل کیا، جیسے جنوبی کوریا، ملائشیا، سنگاپور اور انڈونیشیا نے بھی اپنا مقدر تبدیل کیا۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں