"SAC" (space) message & send to 7575

مُدّت سے گریز پا جوہری معاہدہ

ویانا میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ طے کرنے کے لیے مذاکرات آخری مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں اور فریقین کوشاں ہیں کہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مفاد حاصل کیا جائے۔ 30 جون کی حتمی ڈیڈ لائن میں 7 جولائی تک ایک ہفتے کی توسیع کرنا پڑی۔ یہ تاریخ صدر اوباما کی طرف سے کانگریس میں حتمی سمجھوتے کی تفصیلات پیش کرنے کے لیے دستیاب وقت سے صرف دو دن پہلے کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی معاہدے پر دستخطوں اور امریکی پابندیاں اٹھانے سے پہلے تیس ایام کا 'ریویو پیریڈ‘ شروع ہونا تھا۔ اگر سمجھوتے کی تفصیلات 9 جولائی کے بعد پیش کی گئیں تو ریویو پیریڈ دوگنا ہو کر 60 ایام کا ہو جائے گا، جس سے انتظامیہ کے لیے سیاسی مسائل پیدا ہونے کے بھی اندیشے ہوں گے (اب نئی ڈیڈ لائن 10 جولائی مقرر ہوئی ہے) اگر نئی ڈیڈ لائن کی شرط پوری ہو گئی تو فریقین کی جانب سے معاہدے کی مختلف شقوں پر عملدرآمد کا عمل شروع ہو جائے گا۔ معاہدے پر کُلّی عملدرآمد سے پہلے ایڈجسٹمنٹ کے لیے وقت درکار ہو گا تاکہ شریک ممالک اس کے لیے بتدریج تیار ہو سکیں۔ گزشتہ ہفتے اوباما انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے معاہدے اور اس پر عملدرآمد کے درمیان ایک ''وقفے‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے کہا: ''ہم نے ایک مرحلہ وار لائحہ عمل مرتب کیا ہے تاکہ ایران رضاکارانہ طور پر وہ جوہری اقدامات کر سکے جن کی تصدیق بھی ہو گی‘‘۔ دوسرے لفظوں میں معاہدے پر عملدرآمد سوئچ آن، سوئچ آف پروسیس کے تحت نہیں ہو گا‘ بلکہ حتمی جامع سمجھوتہ مختلف مراحل کی شکل میں ہو گا۔ اس کے لیے ایک نَپا تُلا نظام الاوقات (ٹائم ٹیبل) ہو گا‘ جس کے تحت فریقین معاہدے کی رُو سے اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے چلے جائیں گے۔
اس مرحلہ وار عملدرآمد میں امریکہ، یورپی یونین اور سلامتی کونسل کی طرف سے پابندیاں اٹھانا بھی شامل ہو گا۔ یہی اس پورے معاملے کا ماحصل ہے۔ سخت سوداکاری کے اس نازک ترین مرحلے کے آخری لمحات میں رکاوٹوں کا آنا حیرت انگیز نہیں، پی 1+5 گروپ یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، روس جمع جرمنی کی خواہش ہے کہ ایران اپنی حساس جوہری سرگرمیاں اتنی محدود کر دے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کے قابل نہ رہے۔ 2006ء سے اب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایران کے خلاف متعدد قراردادیں منظور کر چکی ہے، لیکن جوہری توانائی کا عالمی ادارہ (آئی اے ای اے) ابھی تک اس امر کی تصدیق نہیں کر سکا کہ ایران کے خفیہ آپریشنز کی امکانی طور پر فوجی جہتیں ہیں یا نہیں۔
ایران کا کہنا ہے کہ اسے جوہری توانائی کے حصول کا حق حاصل ہے اور اس کا یہ بھی اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ دوسری جانب امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو شبہ ہے کہ اس کا جوہری پروگرام نیوکلیئر بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے ہی ہے۔ ان کے حکام کو خدشہ ہے کہ متفقہ معاہدے کے بعد بھی اس کے پانچ ہزار سنٹری فیوجز ناتانز میں افزودہ یورینیم کی سپننگ جاری رکھیں گے۔ ان حکام کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ اراک کا بڑا ری ایکٹر جو پلوٹونیم تیار کر سکتا ہے، آپریٹ کرتا رہے گا، اگرچہ محدود سطح پر۔ اسی طرح فورڈو میں یورینیم افزودہ کرنے کی سہولت جزوی طور پر نیوکلیئر ریسرچ اور میڈیکل آئسوٹوپس (Isotopes) کی تیاری میں بدل جائے گی۔
اب جبکہ ڈیڑھ برس پر محیط جوہری مذاکرات اپنی اختتامی منزل کی جانب بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں، ایران کے جوہری پروگرام کی ممکنہ فوجی جہت، پابندیاں اٹھانے کی ٹائمنگ اور ڈیل پر عملدرآمد کی مانیٹرنگ کے لیے ایرانی سائٹس تک رسائی جیسے سخت سوالات پر بات چیت ہو رہی ہے۔ اگر معاہدہ طے پا گیا تو ایران کو دس سال سے زائد عرصے کے لیے یورینیم کی افزودگی انتہائی محدود کرنا ہو گی تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ اسے ایک جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار انتہائی افزودہ یورینیم کی تیاری پر کم از کم ایک سال لگے گا، جس پر اس وقت دو سے تین مہینے صرف ہوتے ہیں۔ اس کے بدلے میں یورپی یونین اور امریکہ پابندیاں اٹھانا شروع کر دیں گے۔
پابندیاں اٹھانے سے پہلے جوہری تنصیبات تک بین الاقوامی معائنہ کاروں کو رسائی دینے کے لائحہ عمل کی ایران کی طرف سے قبولیت، معاہدے کو حتمی شکل دینے میں انتہائی اہم ہے۔ ایران کی جانب سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر بین الاقوامی پابندیاں اٹھائے جانے کی رفتار اور ایرانی اقدامات کی بین الاقوامی معائنہ کاروں کی تصدیق کی گہرائی اور وسعت اس وقت کے مذاکرات کا سب سے بڑا ایشو ہے۔ مغرب چاہتا ہے کہ ایران آئی اے ای اے کو اس کی ضرورت کے مطابق، جب اور جہاں درکار ہو، مکمل رسائی فراہم کرے تاکہ وہ اس کے جوہری وعدوں کی تکمیل اور صحت کی تصدیق کر سکے۔ ایران کو اپنی جوہری تنصیبات تک، وہ سائنسی ہوں یا فوجی، اس قدر رسائی دینے پر تحفظات ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ چیز اس کی خود مختاری اور قومی سلامتی میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔
ایران نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن ہے اور وہ چاہتا ہے کہ نیوکلیئر پروگرام محدود کرنے کے معاہدے کے بدلے اس پر عائد وہ پابندیاں اٹھائی جائیں‘ جنہوں نے اس کی معیشت کو مفلوج کر رکھا ہے۔ اب ایران یہ ضمانت بھی چاہتا ہے کہ جب ایک دفعہ پابندیاں اٹھا لی جائیں‘ تو یہ دوبارہ نہیں لگائی جائیں گی تاوقتیکہ ایک متفقہ لائحہ عمل کے تحت اس امر کی تصدیق نہ ہو جائے کہ ایران نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ ایران کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر امریکہ اور یورپی یونین نے معاہدے کے تحت اپنے وعدے پورے نہ کیے تو اسے ''اپنی خواہش کے مطابق (جوہری) پروگرام کی جانب جانے کا حق حاصل ہو گا‘‘۔ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ''پابندیاں اٹھانے پر عملدرآمد، ایران کے قبول کردہ وعدوں پر عملدرآمد کے مطابق ہونا ضروری ہے‘‘۔
انہوں نے دس سال کے لیے تحقیق و ترقی کا پروگرام منجمد کرنے اور فوجی تنصیبات کے معائنے کو بھی مسترد کیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں یُو ٹیوب پر مغربی طاقتوں کے لیے یہ ویڈیو پیغام پوسٹ کرنا مناسب سمجھا کہ وہ ان کے ملک کے ساتھ نیوکلیئر پروگرام پر معاہدہ کرنے کے لیے ''جابرانہ‘‘ چالیں اختیارکرنا چھوڑ دیں۔ انہوں نے ان پر ''امتیازی اور غیر منصفانہ پابندیاں‘‘ عائد کرنے کا الزام لگاتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو اس کا ذمہ دار ایران نہیں امریکہ ہو گا۔ جواد ظریف نے دعویٰ کیا کہ ''مذاکرات کبھی دیرپا نتیجے کے قریب نہیں پہنچے‘‘ تاہم ایران ایک متوازن اور اچھے معاہدے پر دستخط کرنے اور اہم مشترکہ چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے نئی راہیں کھولنے پر تیار ہے۔
ایرانی حکام کے ماضی جیسے طریقے کی طرح جواد ظریف نے بھی ''مشترکہ چیلنجوں‘‘ کا حوالہ مشرق وسطیٰ میں داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کی خاطر ایرانی کردار کی اہمیت کی جانب متوجہ کرنے کے لیے دیا۔ ان کا پیغام محض آخری لمحات میں دبائو ڈالنے کی چال یا تہران کے سخت گیر طبقے کو مطمئن کرنے کی کوشش نہ تھا‘ بلکہ انہوں نے نیوکلیئر ڈیل کے امکانی جیوپولیٹیکل اثرات کے حوالے سے ایک وسیع تر حقیقت کے بارے میں بات کی۔ پورے خطے کی نئی ری الائنمنٹ (realignment) ہو سکتی ہے۔ جوہری ضابطے کو قبول کرنے والا ایران شاید مشرق وسطیٰ، خلیج فارس اور افغانستان سمیت جنوبی ایشیا میں امریکہ کی موجودہ حکمت عملیوں کا ممکنہ علاقائی پارٹنر بن سکتا ہے۔
اب جبکہ ایرانی، این پی ٹی کی ذمہ داریوں سے آگے بڑھتے ہوئے اندرونی سیاسی دبائو کی بات کرتے ہیں، امریکہ خبردار کر رہا ہے کہ اپریل میں سوئٹزرلینڈ میں جس 'فریم ورک ڈیل‘ پر اتفاق کیا گیا تھا اس کو 'نئے جامع سمجھوتے‘ کی اساس رہنا چاہیے۔ آخری نتیجہ کچھ بھی برآمد ہو، فریقین تنے ہوئے رسے پر چلتے ہوئے نیوکلیئر ڈیل کے لیے درکار توازن اور اپنے اپنے وسیع تر جیو پولیٹیکل مفادات کی جستجو کر رہے ہیں۔ اب دونوں طرف کا چیلنج یہ ہے کہ گزشتہ اپریل میں جس فریم ورک ڈیل پر اتفاق کیا گیا تھا، اس پر حتمی معاہدے کی عمارت تعمیر کی جائے۔ وہ ایک دوسرے کی سرخ لکیروں (red lines) سے آگاہ ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ان لکیروں کو کراس نہ کریں۔
ایران کے نقطہ نظر سے این پی ٹی حتمی معاہدے کا معیار ہو گا جبکہ پی 1+5 کے لیے این پی ٹی جمع سلامتی کونسل کی قراردادیں معیار قرار پاتی ہیں۔ سمجھوتہ طے پانے کی صرف یہ صورت ہو گی کہ (اختلاف کی) یہ خلیج کیسے پُر کی جاتی ہے۔ دونوں فریقوں کے وِن وِن ڈیل (win win deal) تک پہنچنے کی خاطر کچھ دو اورکچھ لو کی پالیسی کو بنیاد بنانا ہو گا۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں