سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری مسئلہ کشمیر میں دوبارہ جان ڈالنے پر تحسین کے لائق ہیں۔ اُن کے سوا ایسا کوئی نہیں کر سکتا تھا، وزیر اعظم نواز شریف بھی نہیں۔ تیسری مدت کے لیے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسلسل دو بار کی گئی تقریروں کے ذریعے بھی وہ اس مسئلے کو اس طرح اجاگر نہیں کر پائے‘ جیسا قصوری صاحب نے کر دیا ہے۔ مئی 1998ء میں جنوبی ایشیا میں، پہلے بھارت اور پھر پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد کشمیر ایک ایٹمی فلیش پوائنٹ بن گیا تھا۔ اب خورشید قصوری کی کتاب ''Neither a Hawk Nor a Dove‘‘ نے اسے ''میڈیا فلیش پوائٹ‘‘ بنا کر دنیا کی نظروں کے سامنے نمایاں کر دیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان تنائو اور لائن آف کنٹرول پر جنگ کے ماحول کے باوجود قصوری صاحب نے اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے لیے انڈیا جانے کا خطرہ مول لے لیا۔ ممبئی میں وہ اس وقت ایک ناخوشگوار صورت حال کا شکار ہونے سے بال بال بچے‘ جب شیو سینا کے کارکنوں کے ایک ہجوم نے سدھندرا کلکرنی پر حملہ کرتے ہوئے اُنہیں ''پاکستانی ایجنٹ‘‘ قرار دیا اور اُن کے چہرے پر سیاہی مل دی۔ اس واقعے سے خوفزدہ ہوتے ہوئے خورشید قصوری نے اپنی کتاب کی تقریب رونمائی ملتوی کرنے کا فیصلہ تقریباً کر ہی لیا تھا‘ لیکن کلکرنی نے چہرے پر سیاہی ملے جانے کے باوجود ہمت دکھاتے ہوئے تقریب منعقد کرنے کا عزم دکھایا۔ اس کے بعد بھاری سکیورٹی میں کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔ دنیا نے دیکھا کہ آج مودی کا انڈیا کیا ہے اور یہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ کس طرح کا امن قائم کر رہا ہے۔
سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اپنی کتاب لکھتے ہوئے اپنی یادداشت بروئے کار لا کر اُنھوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بہت مستند طریقے سے بیان کیا ہے۔ بے شک نائن الیون کا واقعہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ واقعہ جنرل مشرف کے عہد کی یاد دلاتا ہے۔ اُس وقت اُن کے پاس آپشنز بہت محدود تھے اور علاقائی صورت حال بہت خراب۔ وہ ان غیر ملکی رہنمائوں میں سے ایک تھے جنہیں واشنگٹن سے دوٹوک فون کال موصول ہوئی۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ، کولن پائول نے اُنہیں بارہ ستمبر کو شام کے وقت فون کیا۔ یہ ایک جنرل کا دوسرے جنرل کو فون تھا۔ کولن پائول نے نہایت سنجیدگی سے باور کرا دیا کہ روایتی تعزیت اور افسوس کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی ان سے کام چلے گا‘ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرنا پڑے گا۔
اندرونی اور بیرونی دبائو کا شکار، جنرل پرویز مشرف نے وقت ضائع کیے بغیر افغانستان پر حملے کے لیے امریکہ کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ پلک جھپکنے میں پاکستان امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کا میدان بن گیا۔ ہم نے اس جنگ میں بطور حلیف اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بھاری مالی اور جانی قیمت ادا کی لیکن امریکہ نے ہمیں انڈیا کی بجائے افغانستان کے ساتھ بریکٹ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ انڈیا کے ساتھ نہ صرف کئی ارب ڈالر کے طویل مدتی فوجی معاہدے میں شریک ہوا بلکہ اس کے ساتھ امتیازی طور پر جوہری ڈیل بھی کی۔ ایسا کرتے ہوئے برصغیر کے پہلے سے کشیدہ حالات کو مزید خطرات کی طرف دھکیل دیا گیا۔
جنوبی ایشیا کے ایک اہم ملک کے طور پر ہمیں ہمیشہ انڈیا کے حوالے سے دیکھا جاتا تھا، لیکن اب پاکستان کو نظریات، کردار اور اہمیت کے اعتبار سے افغانستان کے ساتھ نتھی کیا جانے لگا۔ اس وقت ہم دنیا کا واحد ملک ہیں جو اپنے بل بوتے اور اپنے وسائل کی بنا پر دہشت گردی کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم القاعدہ کی دہشت گردی کا بھی ہدف بنے‘ اور ہمارے پچاس ہزار سے زائد شہری اور سکیورٹی اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ جائے حیرت ہے کہ اس کے باوجود پاکستان کے دوست اور اتحادی اس پر شک کرتے ہوئے اسے دہشت گردی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ہمیں بیک وقت مسئلہ اور اس کا حل سمجھا جاتا ہے۔ ہم پر مسلسل الزام ہے کہ ہم اُن کی منشا کے مطابق کافی کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ ہمیں یقینا نائن الیون کا تاریخی پس منظر جاننے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے بارے میں روا رکھے گئے غلط تصورات کو درست کیا جا سکے۔
مشرف جب تن تنہا اہم ترین فیصلے کر رہے تھے تو خورشید قصوری اس وقت وزیر خارجہ نہیں تھے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اُن گناہوں کو اپنے ذمے نہیں لیں گے جو اُن سے سرزد نہیں ہوئے۔ اپنی کتاب میں اُس دور کا ایک طائرانہ جائزہ پیش کرتے ہوئے خورشید قصوری نے پاکستان کے سکیورٹی کے مسائل کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ اُنھوں نے اس بات کو اچھالنے سے بھی گریز کیا کہ پاکستانی سکیورٹی سٹریٹجک اور مذہب کے درمیان توازن تلاش کرنے کی کوشش میں ہے۔ مشہور بھارتی مورخ اور لکھاری، اے جی نورانی کے الفاظ میں ''قصوری کی تصنیف نصابی کتاب اور ایک یادداشت کے درمیان ایک وسیع کینوس پر پھیلا ہوا قابل اعتماد حوالہ ہے‘‘۔ جو چیز اس کتاب کو منفرد بناتی ہے‘ وہ اس کا وہ آئینہ ہے جس کے ذریعے خورشید قصوری مشرف کی بیک چینل کشمیر پالیسی کو دیکھتے ہیں۔ مشرف کے ''آئوٹ آف دی باکس‘‘ حل کے چار نکات کی وکالت کرتے ہوئے اُنھوں نے توقع کے مطابق مشرف کے فارمولے کا بھرپور دفاع کیا ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ''نوے فیصد کام مکمل ہو چکا تھا اور جب فریقین راضی ہوتے‘ حتمی دستاویز پر دستخط ہونا باقی تھے‘‘۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ مذکورہ فائل، جس پر دستخط ہونا تھے، کہاں ہے، یا تھی۔
قصوری صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ ۔۔۔''معاہدے کا مفصل ڈرافٹ فارن آفس میں سے کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا، کیونکہ اُسے ابھی تک تحریری طور پر تیار نہیں کیا گیا تھا۔ وہ ابھی تکمیل کے مراحل میں تھا‘‘۔ اُس ڈیل کی تفصیل کو بھارتی نمائندے ستیندرا لامبھا کے نوٹس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ایک ماہر سفارت کار تھے، اور ایسا لگتا ہے کہ اُن کے پاکستانی ہم منصب طارق عزیز (جو سفارت کار نہیں تھے) نے ایسے نوٹس تیار کرنے یا رکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ قصوری صاحب بہرحال اپنی بات واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔ ''کشمیر پر کسی ممکنہ قابل قبول معاہدے کے خدوخال جنرل مشرف کے کشمیر پر دیے گئے کئی ایک بیانات سے سامنے آئے تھے‘‘۔ مجھے یقین ہے کہ وہ یہ کہنے کی کوشش نہیں کر رہے کہ وہ خدوخال عوامی یادداشت کا بھی حصہ ہیں۔ ٹی وی چینلوں، ہوٹل کی لابیوں اور پریس کانفرنسوں میں ان کی کوئی جھلک نہیں ملتی۔
بہرحال جو لوگ نائن الیون کے بعد پیش آنے والے واقعات پر نظر رکھے ہوئے تھے، وہ جانتے ہیں کہ پرویز مشرف کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف سے پیچھے کیوں ہٹے۔ اکتوبر 1999ء میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد وہ واشنگٹن کی نگاہ میں اپنی اہمیت قائم کرنا چاہتے تھے؛ چنانچہ اُنھوں نے پاکستان کی انڈین پالیسی پر یُو ٹرن لیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل کے پاکستان کے اصولی اور تاریخی موقف سے روگردانی کی۔ مشرف کی طرف سے کشمیر کے مسئلے کا غیر روایتی حل اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ موجودہ صورت حال کو من و عن تسلیم کرکے حقیقت مان لی جائے؛ چنانچہ اب اُن دھاگوں کا سراغ لگانا، جہاں سے مشرف نے سلسلہ جوڑنا چاہا تھا، ممکن نہیں۔ قصوری صاحب بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں، اور وہ کشمیریوں کے مسائل کا بھی حقیقی حل تلاش کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کا جذبہ قابل تحسین ہے، لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے بنیادی حقائق اور قانونی ضوابط کو دیکھنا ہو گا۔ حتیٰ کہ کشمیر سے متعلق سی بی ایم بھی مربوط مذاکرات کی بات کرتا ہے۔
اس کہانی کا اخلاقی نتیجہ یہ ہے کہ قصوری جس طرح کا امن چاہتے ہیں، وہ کشمیریوں کو ان کے حقوق دلائے بغیر قائم ہو ہی نہیں سکتا۔ انڈیا کی طرف سے کشمیر پر کیا گیا فوجی قبضہ غیر قانونی ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے تاکہ امن کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر ہو سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں حتمی فریق کشمیری عوام ہی ہیں۔ اُنھوں نے ہی حتمی طور پر اپنے مقدر کا فیصلہ کرنا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کسی بیک چینل کے ذریعے مشکوک معاہدے کرنے سے امن قائم نہیں ہو گا۔ خطے کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ناتے یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں کا اعتماد حاصل کرے۔ دھونس اور دھمکیوں سے نہ امن قائم ہو گا اور نہ ہی مسائل حل ہوں گے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)