بھارتی وزیر ِاعظم نریندر مودی مئی 2014ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی مختلف کھیل کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات میں طویل سرد مہری کے بعد نریندر مودی نے اچانک لاہور کا مختصر دورہ کیا اور وزیر ِاعظم نواز شریف کو سالگرہ کی مبارک باد دی اور ان کی نواسی کی شادی کی تقریب کو بھی رونق بخشی۔ ان کی مختصر لاہور یاترا کی خبر کو آخری لمحات تک ظاہر نہیں کیا گیا۔ درحقیقت یہ دورہ مسائل کے شکار پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کا ایک نادر موقع تھا۔ بالی ووڈ سٹائل کی اس آمد کا کریڈٹ یقیناً بھارتی وزیر ِاعظم کو جاتا ہے۔ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے حقیقی معنوں میں ڈرائیونگ سیٹ پر دکھائی دیتے ہیں۔ اُنہوں نے نہ صرف درجہ ٔحرارت کو کنٹرول کرتے ہوئے اسلام آباد کو فعال ہونے کے بجائے ردِعمل ظاہر کرنے تک محدود کردیا بلکہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ہونے والی ہر پیش رفت کو بھی وہ خود ہی کنٹرول کرتے ہیں۔ وہ شطرنج کے ایک گھاگ کھلاڑی کی طرح مخالف کا ذہن پڑھتے ہوئے اُسے ذہنی الجھن میں مبتلا کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ شطرنج کے کس مہرے کو کب اور کس سمت میں چلانا ہے۔ وہ سوچی ہوئی چال پر نظر ِثانی کرنے اور حریف کی چال کو بھانپنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
مودی اپنی موجودگی کا احساس دلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اُنہوں نے دسمبر 2014ء میں ڈھاکا کے دورے کے دوران بہت فخر سے اعلان کیا کہ اُن کے ملک نے 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی (گویا پاکستان کو دولخت کرنے) میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ شاید یہ کسی بھی بھارتی سیاست دان کی طرف سے دیا گیا سب سے اشتعال انگیز بیان تھا۔ 2015 ء نے مودی کو اچانک تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا۔ گزشتہ سال فروری میں، کرکٹ ورلڈ کپ سے پہلے، مودی نے بطور بگ تھری لیڈر نواز شریف کو فون کرکے پاکستانی ٹیم کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ خیر سگالی کے اظہار کے طور پر اُنہوں نے سیکرٹری خارجہ کو بھی پاکستان بھیجا۔ مودی نے گزشتہ سال پاکستانی وزیر ِاعظم کو ایک مرتبہ پھر پانچ منٹ کی فون کال کی۔ اس پر اُنہیں ایک نرم دل اور صلح جو رہنما کے طور پر سراہا گیا۔
اب نریندر مودی کے کوئی بھی محرکات ہوں، اُن کی ڈرامائی لاہور یاترا کو اُن کی سفارتی حرکیات میں سب سے نمایاں قدم کے طور پر دیکھا جائے گا۔ برف پگھلنے کا آغاز پیر س میں ماحولیاتی کانفرنس کی سائیڈ لائن پر دو منٹ کی سرگوشی نما گفتگو سے ہوا۔ اس کے بعد بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور آئیں اور طویل عرصے سے تعطل کے شکار پاک بھارت مربوط مذکرات شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد افغانستان کے دورے پر گئے ہوئے نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو فون کیا اور چند گھنٹوں کے بعد ، پچیس دسمبر کو اُن کا طیارہ لاہور اترتا دکھائی دیا۔ تاہم اس کے ایک ہفتہ بعد انڈیا کے ایئربیس پٹھان کوٹ پر انتہا پسندوں نے حملہ کردیا۔ اس کے ساتھ ہی پاک بھارت تعلقات پر ایک مرتبہ پھر جمود طاری ہوگیا۔
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ان تمام واقعات کے حوالے سے بہت سے سوالات سراٹھاتے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ داخلی مسائل، پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر عالمی طاقتوں کے دبائو، یو این سکیورٹی کونسل میں مستقل نشست حاصل کرنے کی خواہش اور اس خدشے کہ خطے میں ہونے والی معاشی پیش رفت میں بھارت اکیلا اور پیچھے رہ جائے گا، کی وجہ سے مودی نے غیر متوقع سفارتی اسلوب اپناتے ہوئے سب کو حیران کردیا۔ البتہ اُن کے اصل عزائم تاحال سامنے نہیں آپائے۔ مودی کے اس طرح لاہور آنے کا کوئی خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا، لیکن شاید مودی اسی ڈرامائی انداز کی سیاست کے ماہر ہیں۔ ان کے کھوکھلے پن نے اس ڈرامائی سفارتی کاری کو ایک طرح کے جوئے کے دائو میں تبدیل کردیا، جو کامیاب بھی ہوسکتا ہے اور ناکام بھی۔ دونوں ممالک کے میڈیا کو ان حیران کن واقعات کی سمجھ نہ آسکی، حتّٰی کہ نیویارک ٹائمز نے بھی سوال اٹھایا کہ مودی کی اس اچانک حرکت کی ساکھ کیا ہے؟ تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مودی کی لاہور یاترا ایک یادگار واقعہ تھی، لیکن اس دوران یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بھارتی رہنما ماضی میں اچانک سیاسی چالیں چلتے دکھائی دیتے رہے ہیں۔ انہیں سفارت کاری سے زیادہ سفارتی رقص کا نام دینا زیادہ مناسب ہوگا۔ دونوں ملکوں کے شہریوں اور جنوبی ایشیا کی دوسری ریاستوں نے مودی کے دور ے کو امید افزا گردانا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک شاطرانہ چال تھی۔ نریندر مودی نے نواز شریف کی امن کی نہ ختم ہونے والی خواہش کا فائدہ اٹھایا اور خود کو امن کا داعی بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔
جب مودی لاہور سے رخصت ہوئے تو بہت خوش، پرجوش اور جذباتی دکھائی دے رہے تھے۔ وہ نواز شریف کے ساتھ والہانہ انداز میں مل کر رخصت ہوئے۔ اُن کی خوشی بلاوجہ نہ تھی۔ نواز شریف کی ذاتی رہائش گاہ جاتی امرا میں ہونے والی گفتگو سب کہانی کہہ دیتی ہے۔ مودی اور نواز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات اتنی دوستانہ تھی کہ پچاس منٹ کی گفتگو کے دوران انہوں نے ایک دوسرے کی تشویش پر بات کرنے کی بھی زحمت نہ کی۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس صورت ِحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نریندر مودی نے نواز شریف سے کہا: ''ہم یورپی رہنمائوں جیسے کیوں نہیں بن سکتے، وہ عام شہریوں کی طرح ایک دوسرے سے ملتے اور گپ شپ کرتے ہیں‘‘۔ جاتی امرا میں ہونے والی بات چیت کو دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کا ایک نیا باب قرار دیا گیا۔ اس دوران کسی فریق نے بھی دوسرے کے ساتھ جارحانہ رویہ نہ اپنایا۔ یہ سفارتی تعلقات کی تاریخ کا ایک نادر موقع تھا، نوازشریف صاحب نے نہایت پرسکون ماحول میں پنجاب کی روایتی زندہ دلی کا مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر موجود لوگوں نے یقیناً اس ملاقات کا بہت لطف اٹھایا
ہوگا۔ لیکن ٹھہریں، کہانی آگے بڑھتی ہے۔ یہاں ہمیں شیکسپئر کے مشہور ڈرامے''ہیملٹ‘‘ کا ایک مشہور مکالمہ یاد آتا ہے: ''ہوریشیو! زمین و آسمان میں بہت سے تہہ دار اسرار ہیں‘‘۔ جب سرکاری سطح پر دونوں ریاستوں کے افسروں کی ملاقات ہوگی تواس وقت اس دوستی اور زندہ دلی پر سنجیدگی اور مقصدیت غالب دکھائی دے گی۔ یقیناً جاتی امرا میں ہونے والی ملاقات، سرکاری گفتگو کا موقع نہ تھا، یہ ایک ذاتی دورہ تھا، لیکن شاید میڈیا نے اسے ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کردیا۔ تاہم اس دوران ایک چیز واضح ہوکر سامنے آئی کہ کشمیر اور دہشت گردی پرکوئی فریق ایک لفظ تک اداکرنے کا روادار دکھائی نہ دیا۔ شاید ماحول تھا ہی اتنا دوستانہ کہ اس میں اس طرح کی گفتگو کی گنجائش نہیں نکلتی تھی۔ ہم یہ بات تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ دورہ کرتے ہوئے مودی نے عالمی سطح پر خود کو امن کا خواہاں رہنما قرار دے کر بال پاکستان کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔
اس دورے کے چند دن بعد پٹھان کوٹ پر ہونے والے حملے کے بعد پھر پرانی بیان بازی شروع ہوگئی۔ واجپائی سے لے کر من موہن سنگھ اور اب نرنیدر مودی، سب بھارتی وزیر ِاعظم دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جذبات کے ساتھ ہم آہنگ کرکے اس کا تعلق کشمیر سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہماری سادگی کی وجہ سے مودی کو وہ پھل اپنی جھولی میں گرتا دکھائی دیتا ہے جو ان کے دو پیش رو حاصل نہ کرپائے۔ پٹھان کوٹ کے بعد غیر حقیقی توقعات اور جذباتی امیدوں کی اگرکوئی گنجائش تھی تو ختم ہو چکی ہوگی۔ دراصل طرفین کے درمیان عدم اعتماد اور خدشات کی فضا اتنی گہری ہے کہ جذباتی اور لمحاتی راگنی سے موسم نہیں نکھرے گا، اور نہ ہی تحفے تحائف کے تبادلے سے تاریخ کا طویل باب بند ہوگا۔ اس کے لیے ان اقدامات سے کچھ بڑھ کرکرنے کی ضرورت ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان محاذ آرائی کے خاتمے کے مسائل، خاص طور پر کشمیر کے پر امن حل کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بلاروک ٹوک مذاکرات ہوتے رہنے چاہئیں۔ انہیں جس مشترکہ چیلنج کا سامنا ہے، اس کے لیے اُنہیںایک دوسرے کی مخالفت میں نہیں، مل کرکام کرنے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)