افسوس، آج ہم ایسی کٹھ پتلیوں کی مانند ہیں جن کی ڈوریں کسی کے ہاتھ ہوں اور وہ مشینی انداز میں حرکت کرتے ہوئے منہ کھول اور بند کرکے اوپیرا گا رہی ہوں۔ یہ منظر قرون وسطیٰ کے طرب ناک المیہ ڈراموں کی یاد دلاتا ہے۔ ہمارے چوبی منہ سے ادا ہونے والے کلمات انسانی جذبات، جیسا کہ حسد، لالچ، خوف، غصہ، مایوسی اور ہوس وغیرہ کا ڈرامائی اظہار ضرور ہیں لیکن اس کا مضحکہ خیز حد تک غیر حقیقی پن نمایاں ہے۔ ہم ہمہ وقت گوشت پوست کے اداکاروں اور کاٹھ کی بنی ہوئی پتلیوں کو باہم رقص کناں دیکھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے؟ ہم متحرک سایوں کے پیچھے محو سفر ہیں، التباسات ہمارے راہبر، جبکہ ٹوٹتے بکھرتے سراب ہماری منزل ہیں۔
ہم ٹی وی سکرین کے عادی، ہمہ وقت کسی نہ کسی سکینڈل کے متلاشی، اور یہ تال میل میڈیا کو ریٹنگ کا ٹانک فراہم کرنے کا نسخہ، درست لیکن اب حال یہ ہے کہ جیسے ہی کسی سکینڈل کا میک اپ ماند پڑتا ہے، ہماری یادداشت سے اتر کر ''تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ‘‘ بن جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم تفریح، لطف اور دلچسپی کی تلاش میں ہر طرف سے مایوس ہو کر خبریں دیکھتے ہیں۔ اس سکرین پر ہم ہر سکینڈل کو دلچسپ نظروںسے دیکھتے، لطف لیتے اور چائے پیتے ہوئے بستر پر چلے جاتے ہیں، اور ایک دن گزر جاتا ہے۔ ہر سیکنڈل کی طوالت کا دار و مدار اس سے مہمیز ہونے والی میڈیا ریٹنگ پر ہوتا ہے۔ یہی چیز اس بات کا تعین کرتی ہے کہ اس کی عمر ایک گھنٹہ ہو گی یا ایک ہفتہ۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ ہم ایک زندہ دل اور تماشوں کی دلدادہ قوم ہیں، لیکن جس طرح معاشی طور پر غربت زدہ زندگی کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، اسی طرح ہم مزاح بھی دوسروں کی خوشیوں کی قیمت پر تلاش کرتے ہیں۔ خوشی کی تلاش میں ہمارے لیے ہر سکینڈل وہ مصالحہ ہے جس سے خوان زیست کا لطف دوبالا ہوتا ہے۔ افسوس، فی الحال ہمارے دستر خوان پر یہی کچھ ہے۔ لاحاصل سیاسی مباحثے اور گرم و سرد بیانات ہمیں غیر متحرک اور غیر فعال، لیکن انتہائی جوشیلی جذباتی لذت فراہم کرتے ہیں؛ چنانچہ ہمارا مسئلہ بیماری نہیں، علامات ہیں۔ جس چیز کی ہم کبھی پروا نہیں کرتے وہ یہ ہے کہ جن مسائل کا ہمیں روزمرہ زندگی میں سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ صرف کسی پیچیدہ بیماری کی سطحی علامات ہیں۔ ہمارے موجودہ سیاسی نظام ،جسے نہ پارلیمانی کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی صدارتی، کی دنیا میں کوئی مثل نہیں‘ بلکہ حالیہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس نظام کی بنیاد بدنام زمانہ ''نظریہ ٔ ضرورت‘‘ ہے۔ ہمارے ملک کا ہر حکمران اس کے ذریعے قانون کو چکمہ دیتا ہے۔ اس دوران پارلیمنٹ اور انتخابات کو استحقاق یافتہ اشرافیہ محض اپنے مقاصد کی بجا آوری، زمینوں پر قبضہ کرنے، قانون شکنی کرنے اور جمہوریت کے نام پر بچ نکلنے اور ریاست کے وسائل کی لوٹ مارکے لیے استعمال کرتی ہے۔ آج کے حالات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قائد اعظم کے خدشات بے بنیاد نہیں تھے۔ اُنھوں نے ہمیں رشوت، بدعنوانی اور اقربا پروری کی برائیوں سے خبردار کیا تھا۔ اُن کی ہدایت تھی کہ حکومت ان برائیوں کو آہنی ہاتھ سے کچل دے‘ لیکن ہم بطور قوم نہ صرف ان چیلنجز سے عہدہ برا ہونے میں ناکام ہو گئے بلکہ ان خرابیوں کو معاشرے کا لازمی حصہ تسلیم کرکے ان کے ساتھ سمجھوتہ بھی کر چکے۔ ڈبل شاہ کا کردار اب پاکستانی معاشرے کی نئی شناخت ہے۔ ہر کوئی راتوں رات اپنا دھن دگنا کرنا چاہتا ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ 1990ء کی دہائی سے شروع ہونے والے ہوشربا مالیاتی سکینڈل سے لے کر حالیہ مہینوں میں قصور میں سر اٹھانے والے انتہائی شرمناک سکینڈل ہماری ہی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ہم مریخ یا کسی اور سیارے کی بات نہیں کر رہے۔ پاکستان سٹیل ملز، کراچی سٹاک ایکس چینج، کے ای ایس سی، پی ٹی سی ایل، گوادر پورٹ، نندی پور پروجیکٹ، پاکستان ریلوے، پی آئی اے، پنجاب بینک، ایم سی بی، ایچ بی ایل وغیرہ ہماری ہی تاریخ کے ''درخشاں باب‘‘ ہیں۔
یہ تمام سکینڈل جتنی تیزی سے نمودار ہوئے، اتنی ہی تیزی سے ہماری نظروں؛ چنانچہ یادداشت سے اوجھل ہو گئے۔ کم و بیش ہر کیس میں ملوث بااثر افراد، چاہے وہ جو بھی ہوں، اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو الٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ مظلوم افراد کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ تمام کیسز میں فائدہ اٹھانے والے یا تو سیاست دان یا اعلیٰ افسران ہوتے ہیں۔ وہ سنگین جرائم کے الزامات سے ایسے بچ نکلتے ہیں جسے مکھن میں سے بال، اور پھر ان کی عزت و شرافت میں بال برابر فرق نہیں آتا؛ تاہم یہ ہماری افسوسناک کہانی کا صرف ایک حصہ ہے۔ ہمارا فن اس وقت ملکی سرحدوں سے نکل کر بدعنوانی کے عالمی اکھاڑے میں دھوم مچا رہا ہے۔ حالیہ دنوں منظر عام پر آنے والے پاناما لیکس میں بڑے بڑے ناموں کی بازگشت سنائی دی ہے۔ ان افراد نے سمندر پار کمپنیاں قائم کی ہوئی تھیں۔ ان میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو سو افراد بھی شامل ہیں؛ تاہم، ہمیں ایک معاملے کو درست انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سمندر پار سرمایہ کاری کو ایک طرح کی ''نجی بینکاری‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مقصد کم ٹیکس ادا کرکے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے۔ درحقیقت ہمارے ایک سابق وزیر اعظم، جو کہیں سے درآمد کیے گئے تھے، ایسی نجی بینکاری اور کچھ دیگر معاشی امور کی عالمی شہرت رکھتے تھے۔ وہ آج کل بھی خلیج کے حکمران خاندانوں کی دولت دگنی کرنے کی مہارت دکھا رہے ہیں۔
پاناما لیکس پاکستان میں کوئی نئی خبر نہیں ہونی چاہیے تھی، ان سے صرف اس بات کی تصدیق ہوئی ہے جسے ہم پہلے ہی جانتے تھے۔ سوئس اکائونٹس، سرے محل، سپین، فرانس، فلوریڈا اور برطانیہ میں مہنگی جائیدادوں کا کس کو علم نہ تھا؟ ہر کوئی جانتا تھا کہ لندن کے فلیٹس کس کے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کا کوئی اور ملک قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتا۔ دنیا بھر میں مالیاتی بدعنوانی اور ٹیکس چوری سنگین ترین جرائم میں شمار ہوتے ہیں۔ کیا پاکستان کے علاوہ بھی کوئی ریاست قاتلوں، چوروں اور دھوکہ بازوں کے لیے محفوظ جنت ہے؟کیا این آر او ہماری یادداشت سے اتر چکا؟ تو پھر جو چیز ہمارے نظام میں رچ بس چکی ہے اور جسے ہم ایک حقیقت سمجھ کر قبول کر چکے ہیں، اس پر اتنا ہنگامہ کیوں؟ کارل ساگن کے الفاظ میں۔۔۔ ''تاریخ کا افسوسناک ترین سبق یہ ہے کہ اگر ہمیں دیر تک دھوکہ دیا جاتا رہے تو ہم دھوکے کا کھوج لگانے اور سچائی کو تلاش کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ ہم اسی دھوکے کے ساتھ نباہ کر لیتے ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ ہم دھوکے میں آ گئے تھے۔ ایک مرتبہ جب کوئی دھوکہ باز آپ کا اعتماد حاصل کر لیتا ہے تو پھر آپ اُس سے جان نہیں چھڑا سکتے ہیں‘‘۔
چونکہ آج ہمارے حکمران غیر ت اورخودداری سے تہی داماں ہیں؛ چنانچہ سمندر پار چھپائی گئی دولت انہیں انتخابی سیاست میں باریاں لینے کے قابل بنا دیتی ہے، جبکہ عوام کو بدعنوان بیوروکریسی اور مافیاز، جیسا کہ لیاری گینگ اور چھوٹو گینگ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اس مشکل صورت حال میں ایک پرانے امریکی گیت، جو لیڈ بیلی نے گایا تھا، کے بول ذہن میں آ رہے ہیں۔۔۔ 'دلیر اور آزاد لوگوں کی سرزمین پر کوئی سرمایہ دار میرے سر کو نہیں جھکا سکے گا‘‘۔ بے شک وہ وقت ضرور آتا ہے جب ایک قوم خواب غفلت سے جاگ جاتی ہے اور اپنی قسمت کی ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے‘ لیکن حالات اُس وقت تک نہیں بدلتے جب تک لوگ متحرک نہ ہوں اور اپنی آواز بلند نہ کریں۔ صرف ایک انقلابی تبدیلی ہی ملک کو دولت مند اشرافیہ کے چنگل سے چھڑا سکتی ہے، محض چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہو گا، نظام بدلنا ہو گا۔ ضروری ہے کہ ہم پاناما لیکس کو ایک اور کھیل تماشے کی طرح بھلا کر کسی اور سکینڈل سے شغل کرنے میں مصروف نہ ہو جائیں۔ یہ بات درست ہے کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے، انسان کو بے قصور ہی مانا جاتا ہے۔ یہ سیاسی نہیں، قانونی ایشو ہے؛ چنانچہ اسے سیاسی اکھاڑے کی بجائے قانون کے کٹہرے میں نمٹنا چاہیے۔ یہ عمل بلا امتیاز ہونا ضروری ہے۔ اس عمل سے پارلیمان کو باہر رہنا ہو گا تاکہ قانون اپنا راستہ بنا سکے۔آزاد اور شفاف تحقیقات درکار ہے۔
اس سارے تناظر میں ہمارے پریشان ذہنوں کو ایک ہی سوال پریشان کر رہا ہے کہ کب پردہ گرے گا اور کب تماشا ختم ہو گا؟
فی الحال خدا سے عبدالستار ایدھی اور وزیر اعظم پاکستان کی صحت کے لیے دعا ہے۔ ان میں سے ایک کراچی میں جبکہ دوسرے لندن میں طبی علاج کرا رہے ہیں۔ ہمارے لیے دونوں ہی قابل عزت ہیں۔ ایک عوام کا بھاری مینڈیٹ رکھنے والے رہنما ہیں‘ جو لندن علاج کرا رہے ہیں جبکہ دوسرے انسانوں کے دکھوں میں شریک، کراچی کے کسی ہسپتال میں ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ ہمارے رہنما کبھی نجی بینک قائم کرنے کے علاوہ سرکاری ہسپتال بنانے کی طرف بھی توجہ دیں گے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)