"SAC" (space) message & send to 7575

ہماری آزادی اور ملک دشمن ذہنیت

بوجھل دل کے ساتھ یومِ آزادی مناتے ہوئے کوئٹہ میں پیش آنے والے المناک واقعے کا زخم سہنے کے بعد قوم اذیت کے عالم میں سوچ رہی تھی کہ کیا کبھی اس آزمائش کا خاتمہ ہو گا۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات پارلیمنٹ کے فلور سے ''سرداری اور درباری جمہوریت‘‘ کے بعض چمپئنز، جو پاکستان کی جڑیں کاٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، کے ناروا بیانات اور ہرزہ سرائی تھی۔ یہ ان کی سرشت میں شامل پرانا منفی ایجنڈا ہے جو انہیں اپنے مذموم ارادوں کے سامنے کھڑی سب سے بڑی رکاوٹ، ملک کی مسلح افواج، پر حملہ آور ہونے کے لیے اکساتا رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ٹولے کے راستے میں واحد رکاوٹ فوج ہی ہے جو انہیں وہ کچھ کرنے کی اجازت نہیں دیتی جو یہ اس ملک کے ساتھ 1947ء میں کرنا چاہتے تھے۔ 
جب انگریز انڈیا سے جانے کی تیاری کر رہا تھا تو ہندوئوں کی اکثریتی جماعت، کانگرس اس ملک پر اسی طرح ''عظیم طاقت‘‘ بن کر اپنا تسلط جمانا چاہتی تھی جیسے انیسویں صدی کی طاقتیں۔ ستمبر 1946ء میں جواہر لال نہرو، جو اُس وقت نگران حکومت میں وزیر خارجہ تھے، نے اعلان کیا: ''دنیا میں چار عظیم طاقتیں ہیں، امریکہ، سوویت یونین، چین اور انڈیا۔‘‘ پنڈت نہرو کی اس فہرست میں برطانیہ شامل نہ تھا کیونکہ نیو انڈیا کو مشرق میں برطانیہ کا ہی جانشیں سمجھا جا رہا تھا۔ اور نہرو کے خیال میں انڈیا کے بغیر برطانیہ عالمی طاقت نہیں تھی۔ پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے نہرو نے دعویٰ کیا کہ یہ صرف ثقافتی طور پر ایک خود مختار ملک کے طور پر باقی رہے گا‘ لیکن اس کی کوئی آزاد سیاسی حیثیت نہ ہو گی۔ کانگرس کے رہنمائوں کی برطانیہ سے آخری لمحات میں ہونے والی ساز باز کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ نوزائیدہ ریاست، پاکستان کو اتنی مشکلات سے دوچار کر دیا جائے کہ اس کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا ناممکن ہو جائے۔ اُنہوں نے این ڈبلیو ایف پی کو اُن علاقوں سے باہر رکھنے کی کوشش کی جو پاکستان کا حصہ بننے جا رہے تھے۔ اگرچہ اس صوبے میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت تھی، لیکن یہاں ڈاکٹر خان کی قیادت میں کانگرس کی وزارت کام کر رہی تھی؛ چنانچہ کانگرس نے وہاں ریفرنڈم کی مخالفت کا اعلان کیا۔ مہاتما گاندھی تو آزاد پختونستان کے تصور کی آبیاری کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ کانگرس جموں اور کشمیر کے متعلق منصوبہ بنا چکی تھی۔ اُس کے خیال میں کشمیر سے شمال مغربی سرحدی صوبے کو بھارت کے ساتھ ملانا آسان ہو گا کیونکہ اُس کی سرحدیں کشمیر سے ملتی تھیں۔ اس ''عظیم چال‘‘ میں گاندھی کو سرخ پوش رہنما، خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان، جنہوں نے مسلم لیگ کے تقسیم ہند کے تصور کی مخالفت کی تھی، کی صورت ایک اتحادی مل گیا۔ اگر یہ ''عظیم چال‘‘ کامیاب ہو جاتی تو نہرو کا 1946ء میں پیش کردہ ''عظیم تر انڈیا‘‘ کا تصور سچ ثابت ہوتا اور پاکستان بمشکل ہی ثقافتی لحاظ سے ایک آزاد علاقے کے طور پر اپنا بچائو کر پاتا۔ 
ان کوششوں کے باوجود قائد اعظم ؒ کی چوکسی اور بصیرت کا شکریہ، این ڈبلیو ایف پی میں ریفرنڈم ہوا اور پاکستان ایک خود مختار ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ علاقائی طور پر یہ ایک ایسی منفرد ریاست تھی‘ جس کی دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہ تھی۔ اس کے دو حصے الگ الگ جغرافیائی جہتیں رکھتے تھے۔ دونوں حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا جغرافیائی تفاوت تھا اور درمیان میں بھارت کی دشمن ریاست۔ پاکستان کے دونوں حصوں کو ''دل و دماغ کے تھوڑے سے تعلق‘‘ نے جوڑا ہوا تھا؛ تاہم یہ کمزور تعلق جغرافیائی تفاوت کا مقابلہ نہ کر سکا، اور ربع صدی کے اندر ہی بھارت کی فوجی مداخلت نے دونوں حصوں کو الگ کر دیا۔ ملک کی تقسیم کے بعد بھی سیاسی و جغرافیائی جبر کی کہانی ختم نہ ہوئی۔ انڈیا ابھی تک فوجی موجودگی کی وجہ سے کشمیر، سیاچن‘ کارگل کے کچھ حصوں اور ہمارے حصے کے آب وسائل پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ہماری آزادی کے وقت سے ہمیں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ سکیورٹی کے اتنے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آزادی کے بعد تیس ستمبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی مخالفت میں پڑنے والا واحد ووٹ افغانستان کا تھا۔ اس کے پیچھے بھی بھارتی رہنمائوں کی پاکستان مخالف ذہنیت کارفرما تھی۔ وہ اس سوچ کو جھٹکنے کے لیے تیار نہ تھے کہ پاکستان سیاسی، جغرافیائی اور معاشی طور پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اس کے بعد افغان حکومت نے بھی ڈیورنڈ لائن پر سوال اٹھایا، حالانکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ ایشو ''اینگلو افغان بائونڈری ایگری منٹ 1893ئ‘‘ کے تحت طے پا چکا تھا۔ اس کے بعد 
1905ئ، 1919ء اور 1921ء کو یکے بعد دیگرے ہونے والے معاہدوں نے اس کی توثیق کی تھی۔ پاکستان کو اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل ہونے کے تین ہفتے بعد افغانستان نے اپنا مخالفت میں ڈالا گیا ووٹ واپس لے لیا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک، کابل کی طرف سے وقتاً فوقتاً ''پختونستان کا شوشہ‘‘ چھوڑنے کے باوجود پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ایک اچھے ہمسائے کے طور پر تعاون اور دوستی کی پالیسی اپنائے رکھی ہے۔ 
سمندری راستے سے محروم ہمسائے، افغانستان کو ٹرانزٹ ٹریڈ کی بلا روک ٹوک سہولت فراہم کرنے کے علاوہ ہم نے ہر مشکل گھڑی، جیسا کہ سوویت جارحیت اور موجودہ دور میں امریکی حملہ، میں اس کا ساتھ دیا۔ درحقیقت ''افغان سانحے‘‘ کا شکار صرف افغان ہی نہیں ہوتے ہیں، پاکستان نے وسیع پیمانے پر مہاجرین کو پناہ دیتے ہوئے معاشی اور سماجی طور پر بہت بوجھ اٹھایا ہے۔ اس مہمان نوازی نے ہمیں دہشت گردی کا تحفہ بھی دیا ہے۔ افغان بارڈر کے قریبی علاقے عشروں تک دہشت گردوں کی آماجگاہ رہے ہیں۔ موجودہ دور میں علاقائی سطح پر ہونے والے امریکہ بھارت اشتراک نے ہمارے مسائل کو بڑھا دیا۔ اس اشتراک کا مقصد بھارت کو تزویراتی طور پر خطے کا چوہدری بنانا ہے۔ افغانستان میں غیر معمولی اثر رکھتے ہوئے انڈیا کو اب پاکستان کی جڑوں پر وار کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ مودی کی حالیہ دنوں بلوچستان کے بارے میں ہرزہ سرائی کے بعد کسی کو شک نہیں رہ جانا چاہیے۔ خیر ہندوتوا کے ایک کٹر پیروکار سے آپ کیا توقع کر سکتے ہیں؟ نریندر مودی اپنی اصلیت دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ تقریباً ایک سال پہلے اپنے دورہء ڈھاکہ کے دوران اُنہوں نے پاکستان کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے پر اپنے ملک کے کردار کو فخریہ انداز میں بیان کیا تھا۔ اس اعتراف کے بعد مودی کو پاکستان پر ''دہشت گردی کو فروغ دینے‘‘ کا الزام لگاتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ 
یہاں ہمیں ایماندری سے یہ اعتراف ضرور کرنا چاہیے کہ مودی وہی کچھ کر رہے ہیں جن کی بطور ایک ہندو رہنما اُن سے توقع ہے۔ وہ اپنے ملک کے وسیع تر مفاد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس مفاد کے لیے اُنہیں اپنے ملک کو علاقے کا بدمعاش ثابت کرنا ہے‘ اور وہ شطرنج کے ایک ماہر کھلاڑی کی طرف چالیں چلتے ہوئے پیش قدمی کر رہے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو لگتا ہے کہ ہمارے پاس مودی کی شاطرانہ چالوں کا جواب دینے کے لیے عقل کی کمی ہے۔ ہم بلا مقصد امن کی رٹ لگائے ہوئے ہیں، جو ہمیں اپنے قومی مقاصد سے یک طرفہ طور پر دستبردار ہو کر نہیں ملے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل حقیقی ہیں، اور وہ اس طرح ہوا میں تحلیل نہیں ہو جائیں گے‘ جس طرح ہمارے ملک کے کچھ افراد پچھلے کچھ عرصے سے ہمیں یقین دلا رہے ہیں۔ 
بدترین بات یہ ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران ہمارے ''سیاسی جاہل اور نام نہاد دانشور‘‘ جان بوجھ کر تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے پاکستان کے قیام کو ''تاریخ کا ایک حادثہ‘‘ قرار دے کر پاکستانی نوجوان کو بھٹکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُن کا موقف ہے کہ پاک بھارت سرحد ''ایک مصنوعی طور پر کھنچی ہوئی باریک سی لکیر‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ لوگ فکری سچائی کے ساتھ ساتھ عمومی عقل سے بھی پیدل ہو کر امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ایک دن یہ باریک سی لکیر مٹ جائے گی، پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہو گا اور یہ ''ایک قوم‘‘ مل کر رہے گی، اور راوی چین ہی چین لکھے گا۔ یہ لوگ سنگین غلطی، یا غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ضروری ہے کہ وہ تاریخ کا سبق پڑھیں۔ اس کی توفیق نہ ہو تو کسی سے سیکھیں، تاکہ اُنہیں پتہ چلے کہ قیام پاکستان تاریخ کا کوئی حادثہ نہیں تھا۔ پاکستان ایک طویل جدوجہد کے بعد وجود میں آیا، اور اب یہ اتنی ہی بڑی حقیقت ہے جتنا سورج کا مشرق سے طلوع ہونا۔ وہ وقت اور تاریخ کے پہیے کو واپس نہیں پھیر سکتے۔ لاکھوں جانوں کے خون سے کھنچنے والی یہ لکیر اتنی باریک یا کمزور نہیں کہ ان کی مذموم خواہش اسے مٹا دے۔ حکمران اشرافیہ کے علاوہ میرے کچھ صحافی دوست خیرسگالی کے جتنے مرضی اشارے کر لیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہم نے آزادی چھین کے لی تھی، اور ہم اپنے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہمارا بیرونی دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا، لیکن اب اس پر اندر سے وار کیا جا رہا ہے۔ ہمیں دوٹوک ہو کر اس بیانیے کو اپنی سیاست سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔ غداری اور بغاوت کا اظہار‘ جو ہمارے دشمنوں کے لیے راہ ہموار کرے، کی پاکستان میں سیاست کے نام پر کوئی گنجائش نہیں ہے۔ 
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں