"SAC" (space) message & send to 7575

سارک کا مستقبل اور کشمیر

جمہوریت انتقام لینے کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہے۔ یہ انڈیا میں وحشیانہ انتقام ثابت ہوئی‘{ جب دو سال پہلے سماجی اور معاشی ترقی کے نام پر مشکوک ماضی کے حامل نریندر مودی کو اقتدار مل گیا۔ اب ایک اور خوفناک تصادم کے دہانے پر کھڑا یہ خطہ اس کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ اس خطے میں ہونے والی یہ خوفناک پیش رفت دیگر اقوام، خاص طور پر امریکیوں، جو اگلے مہینے اپنے نئے صدر کا انتخاب کرنے جا رہے ہیں، کے لیے سبق آموز ہونی چاہیے۔ اُنہیں سیکھنا چاہیے کہ غلط شخص کو منتخب کرنے کی کیا قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ 
اپنی پالیسیوں سے کشمیر کے حالات کو دھماکہ خیز بنانے کے بعد نریندر مودی نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے علاقائی تنظیم، سارک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ لیکن پھر ہم ایک ایسے شخص، جو 2002 ء میں بطور وزیر اعلیٰ گجرات میں ہونے والے فسادات میں دو ہزار مسلمانوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ہو‘ اور جسے ان مسلم کش فسادات کی وجہ سے یورپی یونین اور امریکہ میں بلیک لسٹ کر دیا گیا ہو، سے اور کیا توقع کر سکتے ہیں؟ اب کار لاحاصل، سارک کی صرف آخری رسومات ادا کرنا ہی باقی ہے اور اس کی تدفین کے لیے بہترین مقام وہی ہے‘ جہاں اس نے اکتیس سال پہلے جنم لیا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس منفی سرگرمی میں مودی کا قریبی حلیف بنگلہ دیش ہے، اور بنگلہ دیش پاکستان مخالف جذبات رکھتا ہے۔ اس کے جنون کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان سے ہمدردی رکھنے والے اپنے ملک کے معمر شہریوں کو پھانسی دے رہا ہے۔ اگر صرف سارک کے خاتمے کی بات ہو تو اس کا ''کریڈٹ‘‘ صرف انڈیا کو جاتا ہے۔ مجھے تین سال پہلے کٹھمنڈو سے ایک دوست کا بھیجا گیا ٹویٹ پیغام یاد ہے۔۔۔ ''ڈھاکہ، کٹھمنڈو، دہلی اور لاہور میں مون سون آ چکا ہے۔ جنوبی ایشیا میں متاثر کن 'مون سونی اتحاد‘ کا دائرہ سیاسی جغرافیائی معروضات تک بڑھانا چاہیے‘‘۔
کٹھمنڈو میں بیٹھ کر، ہمالیہ کی ترائی میں مون سون سے بننے والی قوس قزح کا نظارہ کرنے والا شخص اس رومانی تخیّل میں ڈوب کر جنوبی ایشیا کے حسن اور اتحاد کا خواب دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اس حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ اتنے رومانوی موڈ اور ماحول میں بھی میرے دوست کا دھیان خطے کے پریشان کن سیاسی‘ جغرافیائی معروضات کی طرف ہی گیا۔ دنیا کی بیس فیصد انسانی آبادی رکھنے والے جنوبی ایشیا کے پاس دنیا کو پیش کرنے کے لیے بہت کچھ تھا، لیکن یہ خطہ کشمکش اور غربت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ ''مون سونی اتحاد اور ہم آہنگی‘‘ کے باوجود اس کا شمار دنیا کے انتہائی عسرت زدہ خطوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کے باسیوں کی اکثریت خوفناک غربت اور غیر انسانی حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ سارک کے آٹھ رکن ممالک میں سے پانچ، افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ اور نیپال کا شمار اقوام متحدہ کی ''ایل ڈی سی‘‘ (Least Developed Countries) کی فہرست میں ہوتا ہے۔ بہت کم استثنا کے ساتھ، یہ ممالک حقیقی جمہوری روایات اور گڈ گورننس سے تہی داماں ہیں۔
آخر اس خطے کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ صرف غربت اور معاشی پسماندگی کا نہیں، سیاسی جغرافیائی مسائل کے پنڈورا باکس کو بند کرنا بھی ناممکن ہے۔ انڈیا کا جغرافیائی طور پر عقربی سائز ایک طرف تو خطے کو بری طرح متاثر کرتا ہے، اور دوسری طرف انڈیا کو اس خطے میں ہونے والے کسی بھی سیاسی اور معاشی معاہدے میں شریک ہونے کی ترغیب نہیں دیتا۔ اس لیے وہ خود کو اس خطے میں ضم کرنے سے قاصر دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اُس کے علاقائی مقاصد اسے ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کرتے ہیں‘ جو خطے کی دیگر ریاستوںکے لیے مسائل کا باعث ہے۔ چھوٹے ہمسائے اس سے جارحیت کا خوف رکھنے میں حق بجانب ہیں۔ انڈیا اپنے ہمسایوں، جیسا کہ پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، اور حتیٰ کہ سری لنکا تک کے ساتھ پانی اور دیگر سرحدی معاملات پر مسائل رکھتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ افغانستان کے علاوہ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کی سرحدیں انڈیا کے ساتھ ملتی ہیں‘ لیکن ان کی سرحدیں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ملتیں۔ اس عجیب سرحدی صورت حال کی وجہ سے علاقائی تعاون کی حدود سمٹ جاتی ہیں؛ چنانچہ سارک کبھی بھی کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ 
انڈیا کی وسیع تر جغرافیائی وسعت اور مرکزیت ایک طرف اسے دیگر ریاستوں کے ساتھ تجارت کا موقع دیتی ہے، تو دوسری طرف دیگر ریاستیں انڈیا کو بائی پاس کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت نہیں کر سکتیں۔ اس مخصوص صورت حال کی وجہ سے انڈیا خود کو ''خطے کی واحد طاقت‘‘ کے طور پر دیکھتا ہے؛ چنانچہ وہ خطے کے کسی ملک کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ اس کے نہ صرف اس خطے، بلکہ ایران اور تھائی لینڈ کی سرحدوں سے بھی پرے نکل کر، ایک عالمی طاقت بننے کے دیرینہ عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں؛ چنانچہ دنیا کے دیگر خطے تیز معاشی ترقی اور خوشحالی کی وجہ سے آگے نکل چکے ہیں، لیکن کسی علاقائی ہم آہنگی اور تحریک کے بغیر سارک اپنی جغرافیائی ستم ظریفی کا شکار تھا اور ہے۔ یورپی یونین اور آسیان ریاستیں کامیابی کی کہانی سناتی ہیں۔ اس کی وجہ ان کے درمیان سیاسی جغرافیائی طور موجود ہم آہنگی ہے۔ وہ اپنے سماجی معاشی چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کے لیے مشترکہ تدبیر اپنا سکتی ہیں۔ دوسری طرف سارک عدم اعتماد اور مرکز مائل رجحانات سے باہر نہیں نکل پایا۔ سیاسی اختلافات اور دوطرفہ تنازعات نے شروع سے ہی اس کارکردگی کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا شروع کر دی تھی۔ باہم تنازعات کا حل تلاش کرنے والے کسی میکنزم کی غیر موجودگی میں اس کی کارکردگی مزید محدود ہو گئی۔ 2007ء میں افغانستان کو سارک میں آٹھویں رکن کے طور پر شامل کرتے ہوئے نئی دہلی نے جان بوجھ کر اس کی سیاسی جغرافیائی فالٹ لائنز کو گہرا کر دیا۔ 
سارک کو کارکردگی دکھانے کے لیے موافق ماحول کی ضرورت ہے، ایسا ماحول جس کی فضا عدم اعتماد، دشمنی اور تصادم کے جذبات سے مکدّر نہ ہو۔ ایسے ماحول میں دنیا کی کوئی تنظیم کام نہیں کر سکتی۔ 2014ء میں کٹھمنڈو میں ہونے والی آخری سارک کانفرنس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے خطے میں موجود الجھن کو تسلیم کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا۔۔۔ ''ہم پاس پاس ہیں، مگر ساتھ ساتھ نہیں‘‘۔ جوانوں کی اکثریت رکھنے والے اس خطے میں نریندر مودی نے تسلیم کیا۔۔۔ ''ہم اس رفتار سے آگے بڑھنے میں ناکام ہو گئے جس کی ہمارے لوگ ہم سے توقع کر رہے تھے۔ اُنہیں امید تھی کہ ہم مل کر اُن کے مسائل کا حل نکالیں گے... میں جانتا ہوں کہ اپنے سائز اور محل وقوع کی وجہ سے انڈیا کو پیش رفت کرنا ہے، اور ہم اپنا کردار ادا کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی ایسا کرے گا‘‘۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے دو سال بعد نریندر مودی نے ''مشترکہ کاوش‘‘ کے ذریعے سارک کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اگر نریندر مودی سوچ سمجھ رکھنے والے رہنما ہوتے تو وہ اس غصے اور انتہائی رویے کا مظاہرہ نہ کرتے۔ اس کی بجائے اپنے قد کو بلند کرتے ہوئے علاقے کو درپیش مسائل اور تنازعات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے اقدامات کرتے دکھائی دیتے، لیکن وہ اپنی وزارت اعلیٰ دور کی نفرت اور تنگ نظری کی ذہنیت پر قابو نہ پا سکے۔ اُن کی پاکستان سے نفرت کے خبط نے خطے کو یک بعد دیگرے بحرانوں سے دوچار کرتے ہوئے ایک اور جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ دراصل واقعات کو من پسند رنگ دے کر مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے تشدد سے عالمی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان نے انڈیا کے جھوٹ اور مسخ شدہ حقائق اور تاریخ کو مستر د کر دیا ہے کیونکہ ان سے صرف پاکستان دشمنی کی جھلک ملتی ہے۔ 
ان تمام معاملات سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ سارک کا مستقبل پاک بھارت تعلقات کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔ ان کے درمیان جھگڑے کا اصل باعث کشمیر ہے، اور کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف اس کے حل کے بغیر علاقائی تعاون کی کوئی راہ نہیں نکلے گی۔ اگر اس خطے نے تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنا ہے تو اسے اپنے سیاسی جغرافیائی جمود سے نکلنا ہو گا‘ لیکن جب تک بطور ایک عقربی ملک، انڈیا اپنے جارحانہ عزائم سے دست کش ہوتے ہوئے اپنے ہمسایوں کا اعتماد حاصل نہیں کرتا، خطے میں اعتماد کا بحران رہے گا۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں