میری تنخواہ میری مرضی!

میں ابھی بہت چھوٹا سا تھا کہ میں نے اپنی ماں کو اپنے باپ کے ساتھ پوری طاقت سے لڑتے دیکھا ۔وہ بڑے فخر سے کہا کرتی تھیں کہ تم کیا چیز ہو‘میں نے تو تمہارے باپ کو جہاز میں رسی ڈال کر نیچے کھینچ لیا تھا ۔
ایک دن ہم نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ یہ کیا قصہ ہے؟ آپ نے انہیں جہاز سے کب‘کیوں اور کیسے نیچے کھینچ لیا تھا ؟انہوں نے کہا کہ تمہارے والد مجھے یہاں چھوڑ کر امریکہ جانے والے تھے ‘ مجھے کسی نے بتایا کہ آج ان کی فلائٹ ہے ۔میں اسی وقت تمام سرکاری اداروں میں بھاگی ‘کئی افسروں کوبتایاکہ پروفیسر مرغوب صدیقی مجھے اور بچوں کو تنہا چھوڑ کر امریکہ پدھارنے والے ہیں‘ انہوں نے مجھے جیب خرچ دیا نہ یہ بتایا کہ ہم اپنی باقی کی زندگی کیسے گزریں گے؟اس لیے انہیں بیرون ملک جانے سے روکا جائے۔
پھر کیا ہوا؟ ہم نے پوچھا؟
''ہونا کیا تھا ‘وہ ابھی جہازمیں سوار ہونے ہی والے تھے کہ ہوائی اڈے پر انہیں پولیس نے روک لیا‘ا ور کہا کہ عائلی قوانین کے تحت آپ اپنی بیوی کو نان نفقہ دینے کے پابند ہیں‘ اس کے بغیر آپ امریکہ نہیں جا سکتے ۔یہ کہہ کرا نہیں ہوائی اڈے سے گھر واپس بھیج دیا گیا‘‘۔
قوانین میں کیا لکھا ہے‘ یہ سب ہی جانتے ہیں۔ عائلی قوانین کے علاوہ دیگر قوانین کے تحت بھی مرد عورت کی مالی ضروریات پوری کرنے کا پابند ہے‘ لیکن عورت اگر چاہے تو اسے ''موزہ ‘‘ ڈھونڈ کر دے دے ورنہ بے شک منع کر دے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کل کی عورت آج کی عورت سے کہیں زیادہ باشعور تھی ۔آج شور زیادہ ہے مگر شعور کم رہ گیا ہے۔قوانین کا ادراک ہے یا نہیں‘ لیکن قوانین کا استعمال کم ہو گیا ہے۔ آج کی عورت کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ اداروں کو اپنے حق میں کیسے استعمال کرنا ہے ‘ کچھ تو سرے سے قوانین کا سہارا لینا ہی نہیں چاہتیں‘ چند ایک خواتین شور شرابہ کرکے بیرونی امداد کے دروازے کھول کر سونے جیسی سورج کی کرنوں سے اپنی زندگی کو روشن رکھنا چاہتی ہیں۔ملک میں چپ چاپ قوانین کی عمل داری سے بیرونی دولت کے دروازے نہیں کھلتے‘کچھ خواتین ان دروازوں تک رسائی کی خاطر مغربی تقلید کرتے ہوئے ملک میں سیکولر ازم کی بنیاد رکھنا چاہتی ہیں‘جیسا کہ ماروی سرمد نے ایک ٹاک شو میں برملا کہا تھا کہ ''ہم پاکستان میں سیکولر نظام لا کر رہیں گے‘‘۔یعنی مسئلہ عورت کے حق کا نہیں ‘ بلکہ جدوجہد ملک کے نظام میں تبدیلی لانے کی ہو رہی ہے۔ 
ہماری عورتیں بھی دنیا سے کئی عشرے پیچھے ہیں ۔ انہیں یہ نظر ہی نہیں آ رہا کہ اس وقت دنیا میں کہیں بھی سیکولر ازم اور لبرل ازم کی بات نہیں ہو رہی۔ سوشل ازم کے بانی ملک یعنی سوویت یونین کا شیرازہ بھی اسی لیے بکھر گیا تھاکہ اس کی بنیادوں میں شامل نظریہ عالمی سطح پرلوگوں کو سکون اور ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے میں ناکام رہا۔سوویت یونین کی باقیات یعنی روس کے صدرپوٹن نے لبرل ازم کی موت کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ میں لبرل پارٹی 202نشستیں لے سکی ‘قدامت پرست365نشستوں پر جیت کر لبرل پارٹی کو بدترین شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔ سیکولر ازم کاسب سے بڑا دعویدار ملک بھارت تھا‘ لیکن بھارت میں سیکولر ازم کی ارتھی روزانہ ہی اٹھائی جاتی ہے ۔ دہلی میں پیش آنے والے واقعات بھی سیکولر ازم کی باضابطہ موت کے سوا کچھ نہیں۔وہاں نریندر مودی کی قیادت میں مسلمانوں اور مسیحیوں سمیت تمام مذاہب کے لوگ بہیمانہ تشدد کے دور سے گزر رہے ہیں ‘جس کا ادراک تمام عالمی میڈیا کو بھی ہے۔اب قومیں کسی نئے نظام کی تلاش میں بھٹک رہی ہیں‘ مگر ہماری چند عورتوں کے دل میں  مردہ  سیکولر ازم کی گود میں پناہ گزیں ہونے کی خواہش مچل رہی ہے۔
یہ پاکستانی خواتین آج کہتی ہیں ''ہم کھانا نہیں گرم کریں گی‘ روٹی نہیں پکائیں گی‘ موزہ بھی ڈھونڈ کر نہیں دیں گی‘‘...اور پتہ نہیں کیا کیا کام ہیں جو یہ خواتین نہیں کرنا چاہتیں۔میں ان سے صرف تین چار باتیں پوچھنا چاہتا ہوں:سب سے پہلے یہ بتائیں کہ سا س مرد ہوتی ہے یا عورت؟یہ بھی بتائیں کہ بہو مرد ہوتی ہے یا عورت؟مجھے اس سوال کی بھی تلاش ہے کہ شادی شدہ مرد سے دوسری شادی کرکے پہلی بیوی کا گھر اُجاڑنے والی عورت ہوتی ہے مرد؟ میں یہاں یہ پوچھنے کی بھی جسارت کروں گا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لے کر مردوں پر روزگار کے دروازے بند کرنے کے بعد انجینئرنگ اور میڈیکل پروفیشن کوخیرباد کہنے والی کون ہیں؟ مرد یا عورت ؟ اس سوال کا بھی جواب دے دیجئے کہ لوگ آج رشتوں کیلئے یہ کیوں دیکھتے ہیں کہ اس کی بہنیں کتنی ہیں‘ اور بھائی کتنے ہیں؟ کیونکہ بھائیوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ بہن کا گھر بسا رہے اور بہنوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ بہن اپنی مرضی کرتے کرتے شوہر کو تگنی کا ناچ نچا دے‘ حتیٰ کہ گھر ہی اجڑ جائے ۔
اب میں اپنے سوالات کا جواب خود ہی دے دیتا ہوں۔اول تومردوں کی تعداد ہر معاشرے میں عورتوں سے زیادہ ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر معاشرہ قدرتی طور پر میل ڈومی نیٹڈ (Male Dominated) ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین پر تشدد عام ہے ‘ یہ پاکستان سے مخصوص نہیں ہے‘ عالمی منظر نامہ ہی کچھ ایسا ہے‘ لیکن خواتین بھی کم نہیں ہیں۔ہر سال دنیا بھر میں 30لاکھ بچے گھریلو تشدداپنی آنکھوں سے ہوتا ہوا دیکھتے ہیں‘ ان کے والد بھی تشدد کا سامنا کرتے ہیں اور ان کی ماں بھی محفوظ نہیں۔سب سے زیادہ تشدد کا سامنا20سے 24برس کی بچیاں کرتی ہیں۔ کینیڈا میں29فیصد‘نیوزی لینڈ میں 35 فیصد‘ امریکہ میں 33 فیصد‘ سوئٹزر لینڈ میں 21 فیصد اور مصر میں 34 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔ امریکہ میں ہر نو  سیکنڈ  میں کوئی نہ کوئی عورت تشدد کا سامنا کرتی ہے۔ ان میں سے ہر تیسری عورت موجودہ یا سابق پارٹنر کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہے ۔ایک سروے کے مطابق جاپان میں گھریلو تشدد عروج پر ہے۔2018ء  میں جاپانی پولیس کوگھریلو تشدد اور صنفی امتیاز کی77480 ٹیلی فون کالز ملیں۔ 2018ء میں ہی برطانیہ اور ویلز میں4.2فیصد مردوں اور 8 فیصد عورتوں کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔وہاں 6.85لاکھ مرد اور13لاکھ خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔ بھارت میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد بعض ریاستوں میں 20فیصد تک کم ہے ‘کئی دیہات میں سینکڑوں لڑکے پیدا ہوئے ‘مگر ایک لڑکی نے بھی جنم نہیں لیا‘اسے پیدائش سے پہلے ہی مار دیا گیا۔طاقتور معاشرے کی تشکیل کیلئے برہمن سماج میں بچیوں کا قتل جائز ہے۔ بھارت میں 70فیصد خواتین تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔ہریانہ میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد صرف87فیصد اور دامن (Daman) میں 62فیصد ہے۔وہاں بچیوں کو پیدائش سے پہلے ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔خواتین کی تلاش کا کام کسی عورت فائونڈیشن نے سرانجام نہیں دیا۔
اب میں آتا ہوں اپنے ایک اور سوال کی جانب ‘ ہماری خواتین ڈاکٹر زاور انجینئرز کہاں ہیں؟ایک سروے رپورٹ کے مطابق یہاں میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے والے طلبہ میں کئی برسوں میں خواتین کا تناسب 70فیصد تک رہا‘لیکن ورک فورس میں خواتین ڈاکٹرز کا تناسب 50فیصد سے بھی کم ہے۔ بی بی سی نے اسی موضوع پر ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی۔ایک اور رپورٹ کے مطابق رجسٹرڈ ڈاکٹرز میں صرف 23فیصد خواتین شامل تھیں۔ باقی کہاں ہیں؟ کوئی عورت فائونڈیشن بتائے تو سہی۔ یہی حال انجینئرنگ کا ہے‘یہاں ہر 10مرد انجینئرز کے مقابلے میں خواتین کی تعداد پانچ ہے‘جبکہ داخلہ لینے والوں میں خواتین پیش پیش ہیں‘بعض برسوں میں مردوں سے زیادہ تھیں۔ خواتین انجینئر بننے کے بعد کہاں غائب ہیں؟ کوئی این جی او بتائے گی کہ ان غائب خواتین کو اعلیٰ تعلیم دینے پر ملک کے کتنے ارب روپے خرچ ہوئے اور انہوں نے کیوں اپنے شعبوں کو ترک کر کے ملک کو تعلیمی پسماندگی کی دلدل میں دھکیل دیا؟میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مرد گھر چلانے میں فیاض واقع ہوئے ہیں ۔عورت اپنی تنخواہ اپنے پرس سے باہر نہیں نکالتی ‘یہ مرد ہی ہیں جو سب کچھ لا کر عورت کی ہتھیلی پر رکھ دیتے ہیں۔اسی لیے آج سے میرابھی یہ نعرہ ہے...میری تنخواہ‘ میری مرضی!کرلوجو کرنا ہے!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں