کورونا وائرس نے گلوبل ولیج کے تصور کو چند ہی دنوں میں خاک میں ملانے کے بعد دنیا کو ایک مرتبہ پھر کوزے میں بند کر دیا ہے۔ عوام تو خیر عوام ہیں، حکمران بھی ملاقاتوں سے گریزاں ہیں۔ ہاتھ ملانا جرم ٹھہرا، کیونکہ یہ وائرس کو پسند نہیں۔ میل ملاپ بھی برائی بن گیا کیونکہ میل جول وائرس کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ کورونا وائرس تنہائی پسند لگتا ہے۔ قید تنہائی ایک بڑا جرم ہے لیکن اب زندہ رہنے کا سب سے اہم طریقہ اکیلے رہنے کے سوا کوئی نہیں۔ بچنا ہے تو آئسولیشن میں چلے جائو۔ چند ہی ہفتوں میں 3.3 ارب باشندوں کو لاک ڈائون کرنے کے بعد خود ناجانے کہاں کہاں چھپا بیٹھا ہے، ہم نہیں جانتے۔ ٹیکنالوجی اور ترقیاتی سرگرمیوں پر ضرب کاری لگائی ہے۔ ٹیکنالوجی اور ممالک مل جل کر اور 'کام، کام اور کام‘ کے بغیر ترقی کی منزلیں طے کر ہی نہیں سکتے لیکن کورونا وائرس یہ نہیں سمجھتا۔ طاقتور اور سخت جان اتنا ہے کہ ڈائمنڈ کروز شپ میں 17 دنو ں کے بعد بھی زندہ نکل آیا۔ یہ تحقیق 17 دنوں میں ہی غلط ثابت کر دی کہ وائرس بے جان اشیاء پر زیادہ سے زیادہ چار دنوں میں خود ہی مر جاتا ہے۔ یہ نیا وائرس نیا ضرور ہے لیکن اثرات میں کسی پرانے اور گھاگ سے کم نہیں۔ کس ملک سے کیسے نمٹنا ہے‘ سب جانتا ہے!
انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اس اعتبار سے وہ وائرس سے بھی اشرف ہوا لیکن وائرس تو اس کا امتحان لے رہا ہے۔ 22 ممالک میں ہونے والے سروے سے ثابت ہوا کہ انسان وائرس کے امتحان میں فیل ہو گیا ہے۔ اگر اشرف المخلوقات کا یہی وتیرہ رہا تو شاید وائرس کو روکنے میں زیادہ وقت لگے۔
حال ہی میں ایک عالمی ادارے نے ''IANS C-Voter Gallup International Association Corona Tracker 1‘‘ کے عنوان سے 22 ممالک میں سروے کیا۔ ان ممالک میں پاکستان، امریکہ، جرمنی، برطانیہ‘ فرانس، ڈنمارک، فلسطین، سوئٹزرلینڈ، فلپائن، آرمینیا، چین، ایکواڈور، ترکی، نیدرلینڈز، تھائی لینڈ، مقدونیہ، بھارت اور روس بھی شامل ہیں۔ سروے کے مطابق ان ممالک میں سرکاری ہدایات پر بھی پورے طور پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ سروے کے چند اہم سوالات کچھ یوں تھے:
کیا آپ اپنی حکومت کے اقدامات سے مطمئن ہیں؟
کیا آپ عالمی ادارہ صحت یا دوسرے اداروں کی جانب سے بتائی گئی تجاویز پر عمل کر رہے ہیں؟
یہ وائرس انسان کی کارستانی ہے یا قدرت کی جانب سے آیا ہے؟
آپ وائرس میں مبتلا ہونے کے خوف کا شکار ہیں یا نہیں؟
پاکستانیوں کی اچھی خاصی تعداد کے خیال میں وہ اس وائرس کا شکار نہیں ہو سکتے‘ انہیں کوئی پریشانی نہیں ہے‘ وہ وائرس سے ہرگز نہیں ڈرتے۔ 73 فیصد تک شہریوں کا خیال ہے کہ انہیں کچھ نہیں ہو گا‘ اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں؛ البتہ ان میں سے 45 فیصد بہت محتاط ہیں۔ پاکستانیوں کی ایک تہائی تعداد یہ بھی سمجھتی ہے کہ وائرس کسی اور ملک یا ادارے نے چھوڑا ہے‘ اس کا مقصد بائیو وار بھی ہو سکتا ہے۔ ہم سب سازشی تھیوری پر یقین رکھتے ہیں اور یہ بات سروے سے کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ 45 فیصد بھارتیوں کا بھی یہی خیال ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ وائرس قدرتی نہیں ہے بلکہ کسی تجربہ گاہ میں بنایا گیا ہے۔ پاکستانی اپنی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ 60 فیصد کے خیال میں اس سے زیادہ کچھ کیا بھی تو نہیں جا سکتا۔
سازشی تھیوری کو اس وقت ایک اہم پلیٹ فارم بھی مل گیا جب امریکہ میں چین کے خلاف 2 ہزار ارب ڈالر کا مقدمہ دائر ہو گیا۔ امریکہ کی ریاست ٹیکساس کی ایک عدالت میں چار شخصیات اور اداروں کی جانب سے چین کے خلاف ہرجانے کا ایک بڑا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ Buzz Photos، فریڈم واچ، لیری کلے مین اور دیگر ارکان کی جانب سے درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ وائرس چین کی تجربہ گاہ سے ہی نکلا ہے کیونکہ وائرس کے نکلنے کے بعد چین نے ایک سرکاری خط بھی جاری کیا تھا جس میں اس نے کورونا وائرس کے بارے میں مزید احتیاط کرنے کا حکم دیا تھا۔ درخواست میں چینی حکومت، پیپلز لبریشن آرمی، ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرلوجی اور اس کے دو ڈائریکٹروں کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔ امریکی کانگریس نے بھی چین کے خلاف اسی حوالے سے بحث کی ہے۔ ہوسٹن میں دائر کیا جانے والا یہ مقدمہ امریکی حکومت کی پالیسی کے عین مطابق ہے۔
اسی قسم کا ایک مقدمہ بھارتی ریاست بہار میں سدھیر کمار اوجھا نامی وکیل نے بھی دائر کیا ہے۔ بعض بھارتی وکیل پہلے بھی کئی دانشوروں اور شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے لئے عدالت سے رجوع کر چکے ہیں۔ اس موضوع پر گزشتہ روز ہی چین کے ایک اہم رہنما نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے بھی فون پر رابطہ قائم کیا تھا۔ چین نے بھارت کو خبردار کیا کہ ایک ملک یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے اور یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ بھارت کو اس مائنڈ سیٹ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ چینی رہنما نے اس قسم کی تمام قیاس آرائیوں کو رد کر دیا ہے۔ چین کے مطابق امریکہ کے الزامات میں نا صرف یہ کہ کوئی صداقت نہیں بلکہ وہ حقائق سے بھی نظریں چرا رہا ہے۔ جے شنکر نے اپنے ایک ٹویٹ میں بھی چینی رہنما سے ہونے والی بات چیت کا ذکر کیا ہے لیکن وہ یہ بات گول کر گئے کہ ان کی حکمت عملی کیا ہو گی۔ بھارت‘ کورونا وائرس کو لے کر کافی پریشان ہے۔ جی 20 ممالک کا ہنگامی اجلاس بلانے کیلئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 18 مارچ کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی رابطہ قائم کیا تھا۔ وہ آج بروز جمعرات ہنگامی اجلاس بلانے پر آمادہ ہو گئے ہیں جس میں امریکی رہنمائوں اور چین کے مابین تو تو میں میں ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ اجلاس اگرچہ امسال نومبر میں منعقد ہونا ہے لیکن بھارت چاہتا ہے کہ اجلاس اسی ہفتے بلا لیا جائے۔ یہ میٹنگ سکائپ پر بھی ہو سکتی ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیزالسعود نے بھی اتفاق کر لیا۔ روس‘ فرانس اور آسٹریلیا نے بھی کمر کس لی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ وہ بھی ہنگامی اقدامات کیلئے تیار ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ، روسی صدر پوٹن، آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ ماریسن اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن بھی بذریعہ ٹیلی فون شریک ہوں گے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ بھارت نے یہ اجلاس اپنے کسی خاص مقاصد کی تکمیل کے لئے بلایا ہے لیکن اس میں امریکہ اور چین کے مابین جھڑپ کا بھی اندیشہ ہے۔ اگر ایسا ہوا تو امریکہ تنہا رہ جائے گا۔ اسے عالمی برادری میں قابل ذکر حمایت حاصل نہیں ہے کیونکہ یورپی ممالک اور چین نے ایران کے مسئلے پر امریکہ سے اختلاف کرتے ہوئے امداد بحال کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اقوام متحدہ بھی پابندیوں کا خاتمہ چاہتا ہے تاکہ وائرس کا مقابلہ سب متحد ہو کر کریں۔ امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیاں کچھ الگ ہی ہیں۔
اگرچہ اس اجلاس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں، لیکن ہمارا بھی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ اجلاس کا بنیادی ایجنڈا نئی صورتحال سے نمٹنے سے متعلق ہے، جس کا کوئی ایک ملک تنہا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس کیلئے کم از کم ایک ہزار ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ ہمارے لئے اس کی اہمیت یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان اور ہم جیسے دوسرے کمزور ممالک کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کا معاملہ بھی اٹھایا ہے‘ جبکہ وہ تراقی پذیر ممالک کو 500 ارب ڈالر کے بلا سود قرضے دینے پر بھی آمادہ ہے۔ جی20 ممالک کے وزرائے خزانہ اور بینکوں کے گورنرز کے اجلاس میں بھی آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ وہ ایک ہزار ارب ڈالر یعنی ایک ٹریلین ڈالر کے نئے قرضے دینے کیلئے اپنے خزانے کا منہ کھولنے کو تیار ہے۔ عالمی بینک بھی 250 ارب ڈالر کو ہوا لگانے پر تیار ہے۔ ان دونوں اداروں نے بڑے ممالک پر زور دیا ہے کہ اگر انہوں نے کمزور ممالک کا ساتھ نہ دیا تو عالمی معیشت کا اٹھنا مشکل ہو جائے گا۔ ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کو ناقابل تلافی دھچکا لگے گا۔ اس کا نقصان بہرحال بڑے ممالک کو بھی پہنچے گا کیونکہ ترقی پذیر ممالک ان کی تجارتی منڈیاں ہیں‘ وہاں قوت خرید کم ہونے یا ختم ہونے سے عالمی کارپوریشنوں کا بزنس بھی ختم ہو جائے گا۔
ہمیں امید کرنی چاہیے کہ آج جی 20 ممالک سر جوڑ کر بیٹھیں گے تو اس سے ترقی پذیر ممالک کیلئے بھی کورونا وائرس سے لڑنے کی کوئی سبیل نکل ہی آئے گی۔