کس چیز کی آزادی؟

آج خواتین کاعالمی دن منایا جا رہا ہے‘ گزشتہ کئی برسوں سے اس دن میں آزادی کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے، دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں کی خواتین خود کو کسی نہ کسی مشکل میں جکڑا ہوامحسوس نہ کر رہی ہوں۔ چند روز قبل ہی میں نے پڑھا تھا کہ لبنانی خواتین کا ایک گروپ سڑکوں پر ہے ‘ جو ''ازدواجی حقوق‘‘ سے آزادی مانگ رہا ہے۔ یہ گروپ شوہر پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے موڈ میں ہے۔
اسی سے ملتا جلتا کیس انڈیا میں زیر بحث ہے ۔جہاں چیف جسٹس سپریم کورٹ شراد اروند بوڑے نے دو سوالات اٹھائے ہیں، جنہیں سنتے ہی سینکڑوں انجمنوں کی 5200 خواتین نے ان سے استعفیٰ مانگ لیا ہے۔ خواتین کو انڈین چیف جسٹس سے شکایت کیا ہے؟ ہوا یوں کہ سرکاری ادارے کے ایک ٹیکنیشن نے ایک لڑکی کو ریپ کیا اور اسے خاموش رکھنے کے لئے زندہ جلانے اور خاندان کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔ چند روز قبل انڈین چیف جسٹس نے مجرم کو پیش کش کی ''اگر تم متاثرہ لڑکی سے شادی کرنا چاہو تو ہم تمہاری مدد کر سکتے ہیں لیکن اگر ایسا نہیں کرو گے تونوکری بھی ختم ہو گی اور جیل بھی جانا پڑ ے گا‘‘۔ ان کے خلاف سرگرم انڈین خواتین کا ایک ہی جواب ہے ''مسٹر چیف جسٹس! بہت ہو گئی اب گھر جائو‘‘۔ بھارت ہی نہیں دوسرے ممالک میں بھی خواتین کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے جیسا کہ گزشتہ برس زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات سائوتھ افریقہ (66196 واقعات) میں پیش آئے۔ بوٹسوانہ (1865 واقعات)، لیسوتھو (1777)، سوازی لینڈ (849 واقعات)، برمودا (43 واقعات)، سویڈن (5960 واقعات) اور سرے نیم (223 واقعات ) بھی اس حوالے سے برے ممالک میں شمار کئے گئے۔ اگرچہ برمودا میں ریپ کے 43 واقعات پیش آئے ہیں لیکن بلحاظ آبادی یہ کہیں زیادہ ہیں کیونکہ اس ملک کی آبادی صرف 113021 نفوس ہے۔ مصر، موزمبیق، لبنان، آرمینیا، آذربائیجان میں ریپ کے واقعات خال خال ہی پیش آتے ہیں۔ انہیں اس حوالے سے محفوظ ملک تصور کیا گیا ہے۔ بعض ممالک میں گزشتہ برس ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا۔
سچی بات یہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں خواتین کو اپنے اپنے مسئلے درپیش ہیں۔ دنیا نے انہیں سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ 119 ممالک میں خواتین کو کبھی کسی سیاسی عہدے پر منتخب نہیں کیا گیا، حتیٰ کہ وہ رکن اسمبلی بھی نہیں بن سکیں۔ 194 ممالک میں سے صرف 10 میں سربراہ مملکت اور 13 ممالک میں سربراہ حکومت بن سکی ہیں۔ قومی اسمبلیوں (اور متوازی اداروں) میں خواتین کی شمولیت 25 فیصد ہے، صرف چار ممالک روانڈا (61 فیصد)، کیوبا (53 فیصد)، بولیویا (53 فیصد) اور متحدہ عرب امارات (5 0فیصد) کے ایوان زیریں میں انہیں 50 فیصد سے زیادہ نمائندگی حاصل ہے۔ نو یورپی، ایک پیسیفک، پانچ لاطینی امریکہ اور چار افریقی ممالک (کل 19) میں خواتین پارلیمنٹیرینز کی تعداد40 فیصد ہے۔ صرف 14 ممالک میں خواتین کو کابینہ میں نصف یا اس سے زائد کی نمائندگی حاصل ہے ورنہ انہیں کابینہ میں 21 فیصد سے زیادہ نمائندگی کہیں نہیں مل سکی۔ زیادہ تر خواتین وزراء کو خاندانی امور، بہبود آبادی، سماجی بہبود، بچگان، معذور افراد جیسی کمزور وزارتوں سے نوازا گیا ہے۔ چند ایک ممالک میں لیبر، ووکیشنل ٹریننگ، ماحولیات، صنفی امتیازات، انرجی اور قدرتی وسائل کی وزارتیں دی گئی ہیں۔
خواتین کی کابینہ میں نمائندگی بڑھ رہی ہے لیکن مینڈک کی رفتار سے۔ ایک ایسے مینڈک کی رفتار سے جو کہانی کے خرگوش کی طرح تیز نہیں بھاگ رہا بلکہ خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔ خواتین کی نمائندگی میں سالانہ اضافے کی رفتار 0.52 فیصد ہے۔ اگر یہی رفتار رہی تو کابینہ میں نصف نمائندگی ملتے ملتے 2077ء سر پہ آ جائے گا۔ اس نسل کی بیٹیوں کے بالوں میں بھی چاندی اترنا شروع ہو جائے گی۔ اگر یہی رفتار رہی تو خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ آنے میں 130 سال لگیں گے۔ اس سے پہلے کچھ ہونے والا نہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ جو خواتین آج تحریک چلا رہی ہیں، ان کی چوتھی نسل 40 برس کی ہو جائے گی تب کہیں جا کر خواتین کی نمائندگی مردوں کے برابر ہو گی۔ بہت لمبی لڑائی ہے۔ ہم نے دوبار بینظیر بھٹو کو وزیر اعظم منتخب کرکے امریکہ اور کئی دوسرے ممالک کیلئے مثال قائم کر دی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ یہ ممالک کب ہماری روایت پر عمل کرتے ہیں۔
پاکستان کی خواتین خلا میں تو رہتی نہیں ہیں جو ان کے دل میں آزاد رہنے کی خواہش نہ مچلے۔ سو، وہ بھی آج کسی نہ کسی نئے مطالبے کے ساتھ سڑکوں پر آئیں گی۔
آزادی کے بارے میں مزید کچھ کہنے سے پہلے میں ایک نوجوان کی پہلی شادی تک پہنچنا چاہوں گا۔شادی کا میدان سجا تھا، ایک ہی صوفے پر دولہا اور دلہن اور ان کے سامنے بیٹھے مولانا صاحب اٹھ کر جا چکے تھے ، مولانا کے جانے کی دیر تھی کہ دلہن کی لاتعداد کزنیں اور سہیلیاں شہد کی مکھیوں کی طرح نہ جانے کہاں سے ٹپک پڑیں۔ وہ ایک گلاس دودھ کے عوض دولہے کی جیب خالی کرنے کے موڈ میں تھیں۔ دولہا بھی کافی شاطر تھا۔ اس نے سوچا کہ جو کھا پی لیا وہی منافع ہے؛ چنانچہ پورا گلاس غٹاغٹ پی گیا۔ کسی کزن نے آواز لگائی ''یہ کیا! دولہا تو بھوکا پیاسا آگیا ہے‘‘۔ دولہے نے بلا تامل جوابی حملہ کیا ''فرسٹ چانس ہے، پتا نہیں تھا کیا کرنا ہے‘‘۔ بس پھر کیا تھا، بات دلہن کی ماں کے دل کو لگی، انہوں نے آناً فاناً ''شہد کی مکھیوں کے جھنڈ‘‘ کو بھگا دیا کہ بدشگونی کا اندیشہ تھا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جلدبازی میں غلط الفاظ بھی منہ سے نکل سکتے ہیں۔ دو سال قبل جب عورت مارچ میں ''آزادی‘‘ مانگنے کا شور اٹھا تھا تو ایک مرد کے ساتھ بھی ''فرسٹ چانس‘‘ والی بات ہو گئی تھی۔ گھرمیں آزادی ، آزادی سنتے ہوئے اس کے کان پک گئے، اچانک چیخ اٹھا ''لو! میں نے دے دی آزادی‘‘۔ پھر اسے شک گزرا کہ بیگم مطمئن نہیں ہوئی۔ کچھ لمحوں کے بعد پھر بولا ''لو میں نے تمہیں آزاد کیا‘‘۔ اس سے کام ختم ہو گیا۔
مجھے کسی نے بتایا کہ آزادی، آزادی کرنے کی صورت میں اگر کوئی اپنی بیگم کو کہہ دے کہ ''میں نے تمہیں آزاد کیا‘‘ تو مکمل آزادی ہو جاتی ہے۔ لفظوں کا یہ باریک سا فرق مہنگا پڑسکتا ہے، کوئی پتا نہیں کہ ''ناشکرا قسم کا کوئی مرد‘‘ پہلے سے آزادی کے چکر میں ہو اور کہہ دے کہ ''لو! میں نے آزاد کیا! تو کیا بنے گا؟ حالات دونوں جانب ایک جیسے ہیں۔ شادی خواتین پر تحقیق کرنے والے ایک فرانسیسی ادارے نے رپورٹ جاری کی ہے کہ کئی ممالک میں'' شادی شدہ خواتین اپنے شوہروں سے خوش نہیں‘‘۔ ایک فرانسیسی ایپ اپنے ڈیٹا کی مدد سے انکشاف کیا کہ ''48 فیصد شادی شدہ انڈین خواتین گھر سے باہر سہارا تلاش کرتی ہیں‘‘۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں یہ حالت نہیں ہے، اس لئے آج خواتین ''آزادی‘‘ کے بجائے متبادل کی بات کریں ۔ ہم سیاست میں بھی کب سے ''متبادل‘‘ ڈھونڈ رہے ہیں، بلکہ ہر منٹ ڈھونڈتے ہی رہتے ہیں، اگر ''آزادی‘‘ کا بھی متبادل ڈھونڈ لیں تو کیا مضائقہ ہے ورنہ صورتحال میں تبدیلی سے سبھی واقف ہیں۔ بقول اکبر الہ آبادی:
بے پردہ نظرآئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جومیں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
خواتین کو خوش ہوناچاہیے کہ بہت سے مردوں کی یہ حالت کب سے ہے اور نجانے کب تک رہے گی، پھر کس چیز کی آزادی؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں