آپ انٹرنیٹ پر تلاش کرنے کی کوشش کریں کہ کس ملک کو Rapistanیا Lynchistanکہا جاتا ہے تو بھارت ہی نمایاں نظر آئے گا ۔ خواتین پر تشدد ہو یا ان کا اغوا‘ یہ عالمی رپورٹوں میں ٹاپ پر ہے۔مغربی میڈیا کے مطابق نام نہادسب سے بڑی جمہوریت خواتین کے رہنے کے قابل نہیں۔برطانوی این جی او تھامسن رائٹرز فائونڈیشن نے 2018ء کی اپنی رپورٹ میں بھارت کو خواتین کیلئے افغانستان‘ شام اور ایک عرب ملک سے زیادہ خطرناک ملک قرار دیا تھا۔ لڑکیوں اور خواتین کے اغوا‘ تیزاب گردی‘ خرید و فروخت اور سمگلنگ میں بھارت بے مثل ہے۔ تھامسن رائٹرز فائونڈیشن نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے 548 ماہرین کی مدد سے ہیلتھ کیئر‘امتیازی سلوک‘ ثقافتی رسومات‘جنسی معاملات‘تشدد اورانسانی سمگلنگ جیسے چھ اہم نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے رپورٹ مرتب کی تھی۔ سات برس قبل بھارت چوتھے نمبر پر تھا لیکن نریندر مودی اسے پہلے نمبر پر لے آیا۔ افغانستان پہلے نمبر پر سے چوتھے نمبر پر آ گیا۔ پاکستان خواتین کیلئے دنیا کے پانچ خطرناک ترین ممالک میں شامل نہیں ہے۔ یہ فیصلہ کرنے والے548ماہرین میں سے 41ہندو تھے۔
نریندر مودی نے مسندِ اقتدارپر براجمان ہونے کے بعد سے ترقی اور جرائم کے اعداد وشمار کا بروقت اجرا روک دیا ہے۔تازہ ترین اعداد و شمار جاری ہی نہیں کئے گئے‘ تاہم 2016ء میں ہر 13منٹ میں ایک لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ''مہان جمہوریت‘‘ میں اب روزانہ چھ لڑکیوں کا گینگ ریپ کیا جاتا ہے‘ جہیز نہ لانے کی پاداش میںہر90منٹ ایک خاتون کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے‘ایک مہینے میں19لڑکیاں اور خواتین تیزاب گردی کا نشانہ بنتی ہیں‘ ہراسگی اس کے علاوہ ہے ‘اس'' شعبے‘‘ میں بھی'' سب سے بڑی جمہوریت‘‘ سب سے آگے ہے!
وزیر داخلہ امیت شاہ کی دہلی میں 18سے 30برس کی خواتین سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ وہاں2016ء میں روزانہ 180سے زائد لڑکیوں کو اغوا کیا گیا۔ 2018ء میں دہلی میں تیزاب گردی کے228کیسز سامنے آئے۔اغوا میں تیزی سے اضافے کی بات کرنا حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے‘ کیونکہ یہ تعداد دگنی ہو رہی ہے۔گورنے انیل بیجال نے 7مارچ 2017ء کو سٹڈی گروپ بنایا تھا لیکن وہ بھی کچھ نہ کر سکا ۔ خواتین کی حفاظت کویقینی بنانے کیلئے 1.12 کروڑ پائونڈ سے ایک فنڈ قائم کیا گیا تھا۔امیت شاہ اور مودی حکومت کی نیت کا اندازہ لگانے کیلئے یہی کافی ہے کہ خواتین کی حفاظت کیلئے رکھا گیا 91فیصد بجٹ خرچ ہی نہیں کیا گیا۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو(NCRB) کے مطابق 2016ء میں 88ہزار مقدمات درج کئے گئے تھے‘ لیکن مودی دور میں یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی۔سالانہ اضافہ کم سے کم 9فیصد ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دہلی سب سے آگے رہاجہاں فی لاکھ 27.6بچے اور بچیاں اغوا ہوئیں۔ان میں 43.9فیصد کی عمریں 8برس سے کم تھیں۔2018ء کاریکارڈ گواہ ہے کہ 2016ء سے 2017ء تک ان واقعات میں57.9فیصد اور 2017ء سے 2018ء تک فی لاکھ 58.8کااضافہ ہوا۔روزانہ 100لڑکیوں کو شادی یا سمگلنگ کی نیت سے اغوا کیا گیا‘ پانچ لڑکیوں کو زیادتی کے بعد سڑکوں‘ نالوں اور نہروں میں پھینک دیا گیا ‘ کچھ کے گلے کاٹ کریا ہڈیاں توڑ کر‘ تیزاب میں جلانے کی کوشش بھی کی گئی۔چند مہینوں میں گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی 1251عورتوں میں سے 74 کوجہیز نہ لانے پر موت کی نیند سلا دیا گیا۔ بیورو کے ایک نمائندے کے مطابق لڑکیوں اور خواتین کاا غوا بھارت کا سب سے آسان جرم ہے‘ اس پر کوئی روک ٹوک نہیں ‘مجرموں کو کھل کھیلنے کی آزادی ہے۔ بچیوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات میں اضافے کی وجہ بھی یہی ہے۔اتر پردیش ‘جسے سابق جسٹس مرکنڈے ''الٹا پردیش ‘‘بھی کہتے ہیں‘لڑکیوں کے اغوا اور گینگ ریپ میں ٹاپ پر ہے۔ ان میں سے ایک مشہور مقدمہ ''Unnao Rape Case‘‘کہلاتا ہے۔جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے طاقتور سابق رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ پر ریپ کرنے کا الزام لگایاگیا تھا۔ 2017ء میں اتر پردیش کی ایک 17سالہ جواں ہمت لڑکی یہ کیس لے کر سامنے آئی۔بہت دبائو پڑا لیکن وہ ڈٹی رہی۔ انصاف کی خاطر وہ در بدر بھٹکتی رہی‘حتیٰ کہ اس کیس میں اس کے جواں سال بھائی اور خود اس کی جان بھی چلی گئی۔کیس کی سماعت کے دوران ہی متاثرہ لڑکی کا بھائی دو رشتے داروں سمیت ٹرک کی زد میں آکر مارا گیا۔وہ یہ کیس بھی عدالت میں لے گئی،''بھائی کا قتل ہوا ہے‘‘ اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی۔وہ ایک دن رائے بریلی کورٹ جا رہی تھی کہ راستے میں پانچ افراد نے مارا‘ پیٹا اور پٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا۔ اسے اپنی اور اپنے بھائی کی قربانی دینے کے بعد انصاف مل گیا۔
2012 ء میں پیش آنے والے ایک سنگین واقعے نے بھارت ہی نہیں پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔جیوتی سنگھ نامی 23سالہ لڑکی معمول کے مطابق گھر سے نکلی‘ڈاکٹر بننے کا خواب آنکھوں میں لیے‘ لیکن یہ سب 16دسمبر 2012ء کو چکنا چورہو گیا جب جیوتی سنگھ کو چلتی بس میں چار ہندو لڑکوں نے گھیر لیا۔ بس میں ڈرائیور اور ایک بچے سمیت 6افراد سوار تھے ‘لیکن جیوتی کو بچانے کیلئے اس کے ایک دوست کے سوا کوئی نہ تھا۔وحشیوں نے اس کے دوست کو مار مار کر ادھ موا کر دیا۔بعدازاں گینگ ریپ کے بعد وہ اس لڑکی کو سڑک پر پھینک کر چلے گئے۔ جیوتی کی جان بچانے کیلئے اسے سنگاپور کے بڑے ہسپتال میں پہنچایا گیا لیکن موت سر پر تھی۔ دو روز کے اندر وہ جان کی بازی ہار گئی ۔وہ دن بھارت کا ایک تاریک دن تھا۔ اچھی بات یہ تھی کہ ہر سڑک جوان لڑکیوں اور خواتین سے بھری تھی‘ شہر شہر اور گائوں گائوں مظاہرے ہو نے لگے‘سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا...''امیت شاہ کی ناک کے نیچے لڑکیاں محفوظ نہیں ‘امیت شاہ خواتین کو کب انصاف دیں گے‘‘۔ رام نامی ایک وحشی نے تہاڑ جیل میں خود کشی کر لی۔ رام کی فیملی یہ بات نہیں مانتی۔ ان کے مطابق رام کا خون ہوا ہے۔نابالغ کو تین سال کی سزا ہوئی‘باقی ماندہ چار قاتلوں کے 3مارچ 2020ء کو ڈیتھ وارنٹ جاری ہوئے اور جمعہ 21 مارچ کو چاروں کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا۔جیوتی کی ماں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا'' آج میری بیٹی کو سکون مل گیا ہے‘‘۔آخری ملاقات کے موقع پر ایک قاتل کی بیوی کمرہ عدالت میں چیختی رہی ''میں قاتل کی بیوہ کے طور پر زندہ نہیں رہنا چاہتی‘ مجھے آج ہی طلاق دو‘‘۔ قاتل نے طلاق دینے کی بجائے اسے زندہ درگور کرنے کو ترجیح دی اور آنکھیں نیچی کرتے ہوئے کمرہ عدالت سے نکل گیا۔آج بھی بھارتی عدالتوں میں ریپ کے ایک لاکھ مقدمات کا فیصلہ ہونے کا نام نہیں لے رہا‘ ان خواتین کو کب انصاف ملے گا ‘اللہ ہی جانتا ہے۔
اب ذرا ماضی میں جائیے ‘بھارت اپنے جاسوس کلبھوشن یادیو کی رہائی کیلئے مئی 2017ء میں عالمی عدالت انصاف میں گیا تھا ‘ وہاں سے منہ کی کھانے کے بعد اب چپ سادھے بیٹھا ہے۔کلبھوشن کیس یہ ہے کہ بھارت نے اپنی بحریہ کا ایک حاضر سرو س ملازم پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ملک دشمن سرگرمیوں کیلئے بھیجا تھا ‘ دہشت گرد کلبھوشن نے پاکستان میں کئی دھماکے کروائے لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی ‘بالآخر کلبھوشن 3مارچ 2016ء کو ہماری فوج کے ہتھے چڑھ گیا۔ اعترافی بیان سے بڑھ کر قانون کی عدالت میں کسی بھی ثبوت کواہمیت نہیں ملتی ۔ کلبھوشن دہشت گرد ضرور تھا‘ لیکن نریندر مودی کی طرح جھوٹا نہیں تھا‘ وہ مان گیا کہ اسے بھارتی حکومت نے دہشت گردی کیلئے بھیجا ہے۔یہ حقیقت اپنی جگہ برقرا رہے کہ ہندوئوں نے کلبھوشن کو بچانے کیلئے جو سب سے بڑی دلیل دی تھی‘ جمعہ کے روز اس دلیل کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکلا ہے۔ بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں سزائے موت کو جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیا تھا‘ لیکن اب چار وحشیوں کو سزائے موت دے کر جنیوا کنونشن کا جنازہ نہیں نکالا بلکہ پاکستان کے مؤقف کی تائید و حمایت کی ہے کہ وحشی کسی رعایت کے مستحق نہیں ‘انہیں سزائے موت ہی ملنا چاہیے۔چار قاتلوں کو دی جانے والی سزائے موت کے بعد بھارت کا کلبھوشن کیس میں اٹھایاگیا نکتہ اپنی موت آپ مر گیا ہے!