سبرامنین سوامی کے حملے

ہارورڈ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سائنسز کا غیر معمولی اجلاس جاری تھا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ایک پروفیسر پر مسلمانوں کے خلاف اور ہندو قوم پرستانہ جذبات بھڑکانے کا مقدمہ یونیورسٹی انتظامیہ کی میز پر تھا۔ چیئرمین اکنامکس ڈیپارٹمنٹ جان کیمبل کا ووٹ ملزم کے حق میں آنے پر دیگر شرکا خاموش ہو گئے۔ انہیں نیا کنٹریکٹ لیٹر جاری کر دیا گیا۔ جان کیمبل کی رائے تھی کہ ''کسی طالب علم نے اس کے رویے کی شکایت نہیں کی، استاد نے ہارورڈ یونیورسٹی کے کیمپس میں مذہبی تعلیم کا پرچار نہیں کیا‘‘۔ چیئرمین اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ پر ملزم بری کر دیا گیا۔ لیکن ٹھہرئیے، چنگاری ابھی سلگ رہی تھی۔ بھارت میں مذاہب کے موضوع کی معلمہ ڈیانا ایل اِک فیصلے پر معترض تھیں۔ انہوں نے ہارورڈ میگزین میں پروفیسر کی رائے کو محدود تعلیمی و تدریسی پس منظر میں دیکھنے کے بجائے وسیع تر انسانی آزادیوں کی کسوٹی پر پرکھنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے پروفیسر برائے اکنامکس کے نقطۂ نظر کو غیر ہندوئوں کے انسانی حقوق کی راہ میں بڑی رکاوٹ اور انسانیت کے عالمی معیارات کے لئے ''تباہ کن‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ ایسے خیالات کے حامل شخص کی ہارورڈ جیسے ادارے سے اب تک چھٹی نہیں کرائی گئی۔ مرکزی نکتہ یہی تھا کہ ''ہم آزادیٔ رائے کو اولین ترجیح مانتے ہیں لیکن اکنامکس کے پروفیسر کا نقطۂ نظر مساوات اور دیگر مذاہب کی آزادی کے منافی ہے‘‘۔ ڈیانا کا پیغام یونیورسٹی کی سابق صدر ڈریوگلپن فاؤسٹ کو بھی مل گیا۔ انہیں فتح نصیب ہوئی اور پروفیسر پر ہارورڈ یونیورسٹی کی تدریس کے دروازے بند کر دیئے گئے۔
بہت بے آبرو ہو کر ہارورڈ یونیورسٹی کے کوچے سے نکلنے والا، دھتکارا ہوا شخص کوئی اور نہیں، حال ہی میں زیر بحث آنے والا بھارتیہ جنتا پارٹی کا سابق صدر اور راجیہ سبھا کا نامزد ممبر سبرامنین سوامی تھا۔
برطرفی پر سبرامنین سوامی ہارورڈ یونیورسٹی پر بھی برسا۔ اس نے کہا کہ اب مجھے ہندوستان میں کہی جانے والی باتوں پر ہارورڈ میں جوابدہ ہونا پڑے گا تو پھر ڈیانا سے بھارت میں بھی پوچھ گچھ ہو گی۔ بہت خوب! 
اس کے مطابق ''بھارتی آئین میں ہندو، عیسائی اور مسلمان برابر نہیں‘‘۔ وہ سچ کہتا ہے کیونکہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 14 سے 35 تک انسانی اور شہری حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے لیکن صدر کا ایک حکم تمام دفعات کو منسوخ یا معطل کر سکتا ہے، اس اختیار کا مظاہرہ ہم مقبوضہ کشمیر میں دیکھ چکے ہیں۔
سبرامنین سوامی عالمی میڈیا میں رواں برس فروری میں بھی زیر بحث آیا کیونکہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورۂ بھارت سبوتاژ کرنے میں پیش پیش تھا۔ بھارت پہنچنے سے پہلے سبرامنین سوامی نے ٹرمپ کو مفاد پرست قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ''امریکی صدر بھارت کے لئے نہیں بلکہ ذاتی فائدوں کی خاطر بھارت کا دورہ کر رہے ہیں۔ دفاعی معاہدے ضرور ہوں گے لیکن گولہ بارود تو امریکہ کا ہی بکے گا، اس میں بھی بھارت کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا‘‘۔
ہندوتوا کے پرچارک سبرامنین سوامی کی پوری زندگی دوسرے مذاہب کے خلاف مطالبات پیش کرنے سے عبارت ہے۔ کبھی ووٹ کا حق چھیننے کی باتیں کرتا ہے تو کبھی کہتا ہے کہ خود کو ہندوئوں کی اولاد تسلیم کرنے والے عیسائیوں، پارسیوں اور مسلمانوں کو ہی برابر کے حقوق مل سکتے ہیں۔ ممبئی دھماکوں کی آڑ میں سوامی نے تمام غیرہندوئوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ان سب کو ایک ہی شر ط پر ووٹ کا حق دیا جا سکتا ہے، وہ یہ مان لیں کہ ان کے آباؤاجداد ہندو تھے۔ اگر مسلمان یا عیسائی یہ مان لیں کہ ان کے آباؤاجداد ہندو تھے تو بھارتیہ جنتا پارٹی کا اگلا نعرہ یہ ہوتا کہ آپ نے اپنا لائف سٹائل کیوں چھوڑا تھا، اس کی طرف واپس آئو۔
سوامی کی باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہی مبصرین وزیر داخلہ امیت شاہ سے بھی کہتے ہیں کہ ''اپنا نام بدل لو، شاہ کا لفظ مسلمانوں سے ہی لیا گیا ہے‘‘۔ امیت ''شاہ‘‘ تلملا کر رہ جاتے ہیں۔ اقلیتوں سے حقوق چھیننے کا مطالبہ کرنے پر ''نیشنل کمیشن برائے اقلیتی امور‘‘ نے دہلی ہائی کورٹ میں اس کے خلاف فوجداری مقدمہ کے اندراج کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔ وجاہت حبیب اللہ کی سربراہی میں نیشنل کمیشن نے متفقہ طور پر اس کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153A اور 153B کے تحت کارروائی کرنے کی اپیل کی۔ بین المذاہب ہم آہنگی کو سبوتاژ کرنے پر 295A بھی شامل کر لی گئی۔ پولیس کی طرف سے کوئی کارروائی نہ کرنے پر انہیں ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑا تھا۔ 
سوامی ان دنوں دہلی ہائی کورٹ سے 25 ہزار روپے کی ضمانت پر آزاد پھر رہا ہے۔ عدالت مدد نہ کرتی تو اسے جیل بھی ہو سکتی تھی۔ جج نے ضمانت منظور کرتے ہوئے حکم دیا تھا، ''مسٹر سوامی! آپ آئندہ اس قسم کی کوئی بات نہیں کریں گے، آپ بہت ذہین ہیں، وہی لکھتے ہیں جو دل میں ہوتا ہے، لیکن آپ کو حدود و قیود کی پابندی بھی کرنا ہو گی۔ میں آپ کے حلفیہ بیان کی قدر کرتا ہوں، اسی لئے آئندہ ایسا کچھ نہ لکھنے یا کہنے کی یقین دہانی پر 25 ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتا ہوں‘‘۔ دہلی پولیس نے قبل ازیں یہ کہہ کر ضمانت کی مخالفت کی تھی کہ ''سنگین مقدمہ ہے، ملزم کی ضمانت منظور نہیں کی جا سکتی‘‘۔ نریندر مودی کی طاقت کے سامنے وہ بھی ڈھیر ہو گئی اور ضمانت کی حمایت کر دی۔ 
سبرامنین سوامی بابری مسجد کی شہادت میں بھی پیش پیش تھا۔ ان دنوں وہ نرسمہا رائو کابینہ میں یونین منسٹر (وفاقی وزیر) تھا۔ بابری مسجد کی شہادت سے پہلے وہ ایل کے ایڈوانی اور نرسمہا رائو کے درمیان خفیہ ملاقاتیں بھی کروا چکا تھا۔ کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی، مسلمانوں کے لیے دونوں ایک جیسی ہیں۔
بہت سی ہندو لڑکیاں اپنے والد کے ظلم و ستم کو برداشت نہیں کرتیں، ایک طالبہ کو ریپ کرنے والے سابق ایم ایل اے کی بیٹی کے یہ الفاظ آج بھی بھارتی جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہیں کہ ''مجھے آپ کو باپ کہتے ہوئے شرم آتی ہے‘‘۔ متعدد ہندو لیڈروں کی بیٹیوں نے اپنے والد کے خوف سے بھاگ کر مسلمانوں سے شادیاں کی ہیں، کئی لڑکیاں تو بعد میں بھی اپنے والد سے خوف زدہ رہتی ہیں اور چھپتی پھرتی ہیں۔ سوامی کی بیٹی بھی ان میں سے ایک ہے۔ اپنی بیٹی سوہا سینی کے قبولِ اسلام اور (سابق) وزیر خارجہ سلمان خورشیدکے بیٹے ندیم حیدر سے شادی پر بھی وہ بہت تلملایا تھا، ہندوئوں کے جذبات بھڑکانے کے لئے بار بار کہتا رہا ''میری بیٹی سوہا سینی نے اسلام قبول کر لیا ہے وہ مسلمان ہو گئی ہے‘‘۔ بیٹی سوہا سینی باپ کی ہندو انتہا پسندی سے خائف تھی۔ سبرامنین اور بیٹی سوہا سینی کے تعلقات بھارت اور مقبوضہ کشمیر جیسے ہیں، مکمل لاک ڈائون ہے۔
چند روز قبل سوامی اس وقت آگ بگولہ ہو گیا اور اس کے چہرے سے وحشت ٹپکنے لگی جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک کارکن سولگنا دیش نے اسے یاد کرایا کہ ''آپ کی بیٹی نے بھی تو ایک مسلمان سے شادی کی ہے، آپ کے گھرانے میں بھی تو ایک لڑکی نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ آپ کس ہندوتوا کی بات کرتے ہو‘‘!
یہ سننا تھا کہ وہ اپنی کارکن پر برس پڑا۔ کارکن سولگنا دیش نے بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے لیڈر سبرامنین سوامی کے خلاف مہم شروع کر دی۔ ''لوگو! اسے پہچانو، یہ ہم میں گھس کر ہندوتوا کی باتیں کرتا ہے اور اس کے اپنے گھر میں اسلام پھیل رہا ہے‘‘۔ نیز یہ کہ ''میں اب تک نہیں سمجھ سکی کہ سبرامنین سوامی کی مسلمان ہونے والی بیٹی ہمیشہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندوئوں پر ہی نشتر کیوں برساتی ہے‘‘۔ ٹویٹ پر سوامی بھی بھڑک اٹھے، بولے... ''ارے بیوقوف، میری بیٹی مسلمان نہیں ہوئی‘‘۔ لیکن پہلے وہ خود بھی کہتا تھا کہ اس کی بیٹی نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ سبرامنین سوامی ہندو نسل پرستی کا داعی ہے لیکن کیا وہ بھول گیا کہ ایک پارسی لڑکی اس کے گھر میں ہے۔ اس نے کسی ہندو لڑکی سے شادی کرنا گوارا نہ کیا، ہر رشتے کو ٹھکرایا، پھر ایک پارسی لڑکی رکسونا کو ازدواجی بندھن میں جکڑ لیا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں