جمہوری ممالک میں چار ''ستونوں‘‘ کا سراغ ملتا ہے....مقننہ‘عدلیہ‘ انتظامیہ اور میڈیا۔ کچھ دساتیر میں فوج بھی ایک ستون ہے لیکن عوام کی عدالت میں صرف مقننہ پیش ہوتی ہے۔ نئے عالمی نظام میں مقننہ کے اختیارات پر کاری ضربیں لگائی جا رہی ہیں‘ ان سے اختیارات چھین چھین کر ''ریگولیٹرز‘‘ کو دیے جا رہے ہیں ۔یوں اختیارات کی غیر منتخب ہاتھوں میں منتقلی کا عمل جاری ہے۔ مالیاتی اور بینکاری امور کے ماہر پائول ٹکر(سابق گورنر بینک آف انگلینڈ )نے اپنی تصنیف :Unelected Power میں انہی مشکلات سے پردے اٹھائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کوا پنے منشور پر عمل درآمد کیلئے بہت محتاط ہونا پڑے گا کیونکہ بڑے فیصلوں میں شریک غیر منتخب شخصیات کی تعدا د بڑھتی جا رہی ہے۔ مقتدرہ اور عدلیہ کی رائے (امریکی) جمہوریت کا رخ بدل رہی ہے۔ سونے پہ سہاگا‘وہ غیر منتخب لوگ بھی سر اٹھا رہے ہیں جنہیں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے نام پرہر کسی سے زیادہ اختیارات چاہئیں۔ سنٹرل بینکوں اور کمپنیوں کے ریگولیٹرز کی رائے سرکار ی رائے سے مختلف ہوسکتی ہے لیکن یہ بھی اقتدار کی بوگی کے مسافر ہیں۔
سنٹرل بینکس اور ریگولیٹرزبھی اپنے اپنے فیصلے کسی سیاسی نظرثانی کے بغیر آزادانہ طور پر کر رہے ہیں‘ بدلتے دور میں منتخب نمائندوں کے پاس بہت کم اختیارات بچے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاستدان جو فیصلہ بھی کرتے ہیںوہ ان غیرمنتخب ریگولیٹرز کو انتہائی خوفناک نظر آتے ہیں۔ حکومت میں رہنے تک افسر کو اپنی سرکار سب سے بہتر نظرآتی ہے‘ لیکن جونہی وہ ریگولیٹر بنتا ہے تو اسے اداروں کی ہر چیز بگڑی ہوئی نظر آتی ہے۔اسی لئے وہ مرضی کے اختیارات مانگتے ہیں۔پھر ان غیر منتخب افراد کے فیصلوں پر جوابدہ منتخب حکومتوں کو ہونا پڑتا ہے۔
ریگولیٹرز کو ''آزاد‘‘ کرنے کاتصور ہر ملک میں تقریباً ایک جیسا ہے‘ ہمارے ہاں بھی یہی ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف‘ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے معاہدات کے بعد پاکستان ''ریگولیٹرز‘‘ میں خود کفیل ہو چکا ہے۔ جیسا کہ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن‘ نیپرا‘ اوگرا‘ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی‘ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی‘ پاکستان میڈیکل کمیشن‘ پاکستان انجینئرنگ کونسل‘ پاکستان طب کونسل‘ انوائرمنٹ پروٹیکشن اتھارٹی‘ سی سی پی‘ پنجاب فوڈ اتھارٹی‘ ایجوکیشن اتھارٹی‘ پیپرا اور سٹیٹ بینک سمیت دیگر ریگولیٹرز بھی ہیں۔ ہمارے ہاں ریگولیٹرز یا تو کمزور ہیں یا پھر اپنے اختیارات سے ناواقف‘ یا ان کے کچھ افراد مافیاز سے مل کر حکام کو اندھیرے میں رکھتے ہیں۔ سٹیٹ بینک اہم ترین ریگولیٹر ہے لیکن اگر یہ اپنے اختیارات استعمال کرتا تو فالودے والوں کے اکائونٹس کھلتے نہ منی لانڈرنگ ہوتی۔ منی لانڈرنگ سٹیٹ بینک کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بینکاری نظام کے ریگولیٹرز‘ جودنیا بھر میں طاقتور ترین ہیں‘ مزید اختیارت مانگ رہے ہیں۔امریکی ریگولیٹر کو سب سے مضبوط ریگولیٹر سمجھا جاتا ہے لیکن بینکوں کی کمزور ریگولیشن کے باعث 2009ء سے 2020ء تک 511امریکی بینک ڈوب گئے‘ یعنی طاقتور ترین ریگولیٹر بھی بینکوں کو ڈوبنے سے نہیں بچا سکا۔یورپ میں طاقتور ترین ریگولیٹرز کی موجودگی کے باوجود بینکاری نظام اور مالیاتی نظام کی کمزوریوں سے 2008ء میں بدترین مالیاتی بحران نے جنم لیا۔ اس نظام کو بچانے کیلئے برطانیہ نے8اکتوبر 2008ء کو500ارب پائونڈ کا پہلا پیکیج دیا‘ چار مہینے بعد‘ 12جنوری 2009ء کو مزید 50ارب پائونڈ کا پیکیج دیا۔ہمارے پاس اتنے پائونڈ کہاں کہ ہم آزادی مانگنے والے سٹیٹ بینک کی حکمت عملیوں سے پیدا شدہ بحران سے نمٹنے کیلئے 550ارب پائونڈ جاری کر سکیں۔وہاں بھی ریگولیٹرز ہر طرح کے موجود تھے لیکن2008ء سے 2009ء کے درمیان بلجیم‘ برطانیہ‘ یوکرائن‘ روس‘ سپین اور آئرلینڈسمیت متعدد ممالک میں آنے والے مالیاتی بحران کو نہ سنبھال سکے‘ حکومتوں کو ہی مدد کیلئے آنا پڑا۔ وہاں بھی ریگولیٹرز کے سربراہان بحران پیدا ہونے کے بعد کپڑے جھاڑتے ہوئے الگ ہو گئے۔ ان کی ''جدائی‘‘تک عوام کی جیبیں ''جھڑ‘‘ چکی تھیں۔ریگولیٹرز کی ناقص کارکردگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر میں لوگ اپنے ہی اداروں اور حکومتوں سے ناراض ہونے لگے۔امریکی ادارے پیئو ریسرچ کے مطابق‘ مجموعی طور پر ہر دس میں سے آٹھ افرادسیاست سے اور 90فیصد معاشی پالیسیوں سے ناخوش تھے۔ تیونس‘ اٹلی‘ جنوبی افریقہ‘ ارجنٹائن اور نائیجیریامیں دس میں سے چھ اور امریکہ میں 58فیصد افراد ناخوش تھے۔ ناخوش ترین ممالک کے باشندوں کا کہنا ہے کہ منتخب نمائندوں کو عوام کی کوئی فکر نہیں ۔وجہ یہ ہے کہ منتخب نمائندے عوام پر ریگولیٹرز مسلط کرکے خود بھی ان کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔کئی ممالک کے عوام کا یہ بھی ماننا ہے کہ ریگولیٹرز کی خراب پالیسیاں ارتکازِ زر کا سبب بنیں ۔جب ریگولیٹرز خدمات اور قیمتوں کے معاوضے پر مناسب کنٹرول قائم نہ رکھ سکے تو امیر امیر تر ہوگئے اور غریب غریب تر ہوئے۔ریگولیٹرز کی کمزوریوں کے باعث دنیا کے 2365 ارب پتی افراد کو مزید 4000ہزار ارب ڈالر مل گئے۔
کورونا وبا کے دور میں دنیا بھر کے ریگولیٹرز قیمتوں میں توازن قائم رکھنے اور کمزور طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنے میں عوامی توقعات پو رے نہیں اُتر سکے۔ ریگولیٹرزکی کمزوریوں اور سیاسی حکومت کے ناقص فیصلوں کے باعث ان کا خزانہ 54 فیصد مزید بھر گیا‘ اور دنیا میں دولت کی ذخیرہ اندوزی‘‘ کی نئی اصطلاح عام ہونے لگی۔صنعتی ڈھانچے کے کئی حصے حکومت کے کنٹرول سے نکل کر ریگولیٹرز کی نگرانی میں جا چکے ہیں‘ اب یہ دیکھنا حکومت کا کام نہیں کہ کون کون سے صنعتی ادارے مافیا کی طرز پر کام کر رہے ہیں‘ان پر گرفت کیلئے کمپی ٹیشن کمیشن آف پاکستان (سی سی پی)بنا یاگیا ہے لیکن اس کے پیشتر فیصلے عملدرآمد سے محروم ہیں۔ ہمارے ہاں سٹیٹ بینک کو اختیارات چاہئیں‘لاتعداد اختیارات پہلے بھی کئی ریگولیٹرز کو مل چکے ہیں۔ بجلی اور گیس کے شعبے نیپرا اور اوگرا جیسے ریگولیٹرز کے کنٹرول میں ہیں۔گزشتہ برس جون میں آنے والابدترین پٹرولیم بحران ریگولیٹر کی موجودگی میں ہی آیا۔ وزیر اعظم کے مشیر ندیم بابر سمیت بعض افسران اپنے عہدے سے الگ ہوئے ہیں لیکن قوم کو مالی نقصان اور ذہنی اذیت پہنچانے اور وقت کاضیاع کرنے پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔ قدرتی گیس کے لائن لاسز بھی درجنون ارب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں ۔
ایک اور طاقتور ریگولیٹر نیپرا بھی کم نہیں!عالمی بینک کے مطابق 2010ء میں ملک میں بجلی کے لائن لاسز مجموعی طور پر 16.226فیصدتھے‘ نپیرا کی جانب سے بار بار کم کرنے کی دھمکیوں کے باوجود 2014ء میں لائن لاسز بڑھ کر 17.136فیصد ہو گئے۔10مئی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق لائن لاسز مجموعی طور پر 29.7فیصد کے قریب ہیں۔ ہماراریگولیٹر اس شعبے میں کامیاب نہیں ہو سکالیکن ہم نے کسی سے باز پرس کرنا بھی تو گوارا نہ کی۔ہمارے عوام چاہتے ہیں کہ ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے والا ریگولیٹر ''ڈریپ‘‘ کھل کر سامنے آئے کیونکہ ادویات کی قیمتیں دسترس سے کب کی باہر ہو چکی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک اور المیہ یہ ہے کہ عوام زیادہ پڑھے لکھے نہیں‘ اوگرا اور نیپراسمیت دوسرے ریگولیٹرز کے اجلاسوں میں زیر بحث لائی جانے والی رپورٹوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں؛چنانچہ جب حکومت کسی بھی ریگولیٹرکے اختیارات کو مانتی ہے کہ تو پھر ا س کا فرض بنتا ہے کہ وہ ریگولیٹر کی سماعت کے دوران خود بھی عوام کا مقدمہ لڑے تاکہ ریگولیٹرز کے اجلاسوں میں عوام کی شنوائی بھی نظر آئے۔ سرِدست عوام کی جانب سے ریگولیٹرز کے اجلاسوں میں ایک نمائندہ بھی پیش نہیں ہوتا‘ان حالات میں ریگولیٹرز بڑے کاروباری گروپوں کے ترجمان تو بن سکتے ہیں‘عوامی حقوق کے رکھوالے نہیں۔