14 اپریل بھارتی اقلیتوں پر بھاری گزرا، ایک آئین ساز شخصیت ڈاکٹر امبیدکر کے سفید فلیٹ پر دن بھر سیاہ پرچم لہراتا رہا۔ بابا صاحب کے 129ویں جنم دن پر ان کی پڑپوتی کے شوہر انجینئر آنند تلتمبڑے کو مودی حکومت کو الٹانے اور نریندر مودی کے قتل کی سازش کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری سے قبل ان کے وکلا نے تمام دستاویزات سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں جمع کروائیں، دمہ کی بیماری کے سرٹیفکیٹس بھی پیش کیے اور یہ بتایا کہ وہ کسی کے خلاف سازش میں ملوث نہیں‘ وہ بھارتی شہری ہیں اور بھارتی آئین کے اندر رہ کر اپنے حق کی بات کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن کورٹ نہیں مانی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے انہیں حکم دیا کہ ناصرف وہ بلکہ ان کے ساتھ ملوث دوسرے لوگ بھی 17اپریل تک گرفتاری دے دیں بصورت دیگر انہیں حراست میں لے لیا جائے گا۔ یہ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی انہوں نے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے دفتر میں گرفتاری دے دی۔ ان کی اہلیہ اور ڈاکٹر امبیدکرکی پڑپوتی راما تلتمبڑے اور ڈاکٹر امبیدکرکے پڑپوتے (بہنوئی) پرکاش امبیدکر بھی ہمراہ تھے۔ دلتوں کیلئے ہر دروازہ بند تھا۔
پولیس دسمبر2017ء سے تلتمبڑے اور شہری آزادیوں کی حمایت میں آواز اٹھانے والے 10دیگر رہنمائوں کے پیچھے تھی۔ ان پر بھارتی سلامتی اور خود مختاری کو نقصان پہنچانے کے الزام میں ''غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون‘‘ (UAPA) کے تحت بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا تھا۔ دسمبر 2017ء میں انہوں نے کورے گائوں میں ایک بڑے جلسے سے خطاب میں کہا تھا‘ نریندر مودی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ دلت انسانی فضلہ اٹھانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، وہ برہمنوں کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں! اس کے اگلے ہی روز کورے گائوں میں ہنگامے شروع ہو گئے جس میں ایک نوجوان مارا گیا۔ پولیس نے اسے کورے گائوں جنگ یا کورے گائوں بغاوت قرار دیتے ہوئے پروفیسر تلتمبڑے کوبھی کیس میں ملوث کردیا۔ بعد ازاں ''پونے پولیس‘‘ نے بتایا کہ کورونا ولسن نامی عورت کی رہائش گاہ سے ملنے والے ایک خط سے نریندر مودی کے قتل کی سازش کا انکشاف ہوا ہے۔ پولیس نے رپورٹ میں لکھا کہ ''بھیما کورے گائوں میں راجیوگاندھی کے قتل کی طرز پر نریندر مودی کو ہلاک کرنے کی سازش تیارکی گئی تھی جو پکڑی گئی ہے‘‘۔ چونکہ کورے گائوں کیس میں ڈاکٹر امبیدکر فیملی کا ایک رکن بھی ملوث ہے لہٰذا یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان پر یہ مقدمہ بھی چلایا جائے گا۔ بھارتی قومی سلامتی کا یہ کالا قانون 30 دسمبر 1967ء کو مقبوضہ کشمیر، تامل ناڈو، منی پور، راجستھان اور پنجاب سمیت کئی دوسری ریاستوں میں اٹھنے والی تحریکوں کو کچلنے کے لیے ''ریاستوں کی نئی سرحدی حد بندی‘‘ پر بنائے گئے کمیشن کی سفارش پر نافذ کیا گیا تھا۔ 7 ترامیم کے بعد اس قانون میں انسانیت ختم ہو چکی ہے۔ یہ دلتوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف ہتھیار بن چکا ہے۔
گرفتاری دینے سے ایک دن پہلے قوانین کے جابرانہ استعمال کا پردہ فاش کرتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا ''شاید اس خط کے بعد مجھ سے آزادی کا حق چھین لیا جائے، میں آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مشترکہ بے خوف حکمت عملی اور ان کے تابعدار میڈیاکی سازشوں میں کہیں ڈبو دیا جائوں، پولیس پہلے بھی میرے طلبا وطالبات کو ہراساں کرتی رہی ہے، میرے لیے یہ نئی بات نہیں مگر اب ہندوستان میں اقلیتیں اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں، یہ ان کے لیے آخری موقع ہے، اپنے حق کی آواز اٹھانے کا وقت تیزی سے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ میں نے 2018ء میں نوشتۂ دیوار پڑھ لیا تھا، مجھے اپنی دنیا بدلتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ میں دفتری کام کی غرض سے ممبئی میں تھاکہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف سے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مخاطب تھے۔ آواز میں لکنت تھی۔ انہوں نے میرے گھر پر پولیس کے دھاوے کی اطلاع دی۔ پولیس نے میری غیرموجودگی میں سکیورٹی گارڈ سے دوسری چابی لے کر گھر کھولا، کونے کونے کی تلاشی لی، کمروں کی وڈیوز بھی بنائیں، میں جان گیاکہ میری آزادی ختم ہوچکی ہے۔ پولیس نے میرے خاندان اور ساتھیوں پر بھیما کورے گائوں تشدد میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ وکلا کے مشورے پر میری بیوی نے اگلے ہی روز گوا کی فلائٹ لی اور بچولین پولیس سٹیشن میں غیرقانونی چھاپے کی ایف آئی آر کے اندراج کی درخواست دی۔ انہوں نے خبردارکیا کہ پولیس ان کی غیرموجودگی میں ان کے گھر میں کچھ بھی رکھ سکتی ہے، میری بیوی نے انکوائری کے لیے اپنا فون پیش کیا۔ لیکن پولیس نے بتایا کہ میرے خلاف کچھ لوگوں کے کمپیوٹروں سے برآمد کئے گئے 5 خطوں کی روشنی میں کارروائی کی گئی ہے۔ خطوں میں ان کا مخاطب ''آنند‘‘ نامی کوئی شخص ہے۔ میں اسے نہیں جانتا۔ یہ نام بھارت کا بہت ہی عام سانام ہے لیکن پولیس کاکہنا ہے کہ ملک بھر میں ایک ہی آنند ہے اوروہ میں ہوں۔ ان خطوں میں بھی کسی جرم کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے لیکن نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے قومی سلامتی سے متعلق کالے قانون کا سہارالیا ہے جس کی کسی عدالت میں شنوائی ممکن نہیں۔ ملزم اپنے دفاع کے حق سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ میں چونکہ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کی قید میں ہوں اس لیے نہیںکہہ سکتا کہ آپ سے دوبارہ کبھی مل سکوں گا یا نہیں۔ میں امیدکرتا ہوں کہ آپ اپنی باری آنے سے پہلے بولیں گے ضرور‘‘۔
غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تلتمبڑے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پروفیسرکے عہدے تک پہنچنے والے چند ایک دلتوںمیں شامل تھے۔ انہیں دمہ کی شکایت ہے۔ حکام کہتے ہیں کہ اس بیماری میں دوائی کے بغیر بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے۔ گرفتاری کے بعد عمر خالد کا ٹویٹ وائرل ہو گیا''آئین ساز کے گھر پر سیاہ پرچم لہرانے سے بڑا المیہ ہو ہی نہیں سکتا، وہ بھی ان کے جنم دن کے موقع پر۔ ہمارا خیال تھا کہ نریندر مودی قوم سے خطاب میں آئین ساز امبیدکرکو خراج تحسین پیش کریں گے لیکن انہوں نے توان کی پڑپوتی کے شوہر کو ہی پابند سلاسل کر دیا۔ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے ان کے تلتمبڑے کو حراست میں لے لیا ہے۔ حق کی ہر آواز کو کچل ڈالو‘‘۔ ان کی گرفتاری پر ڈاکٹر امبیدکر کی پڑپوتی لکھتی ہیں ''ہمیں اپنے ابواور امی کے چہرے کو دیکھتے ہوئے خوف سا آنے لگتا ہے۔ 65 سالہ انجینئر ابواور امی کا چہرہ غم کی مجسم تصویر ہے، آنکھیں ایسے ہیں جیسے آنسو جم گئے ہوں‘‘۔
1947ء میں جمہوریت اور شہری آزادیاں بھارتی آئین کی روح قرار پائیں لیکن یہ شقیں کاسٹ سسٹم سے الگ تھلگ رہیں۔ ڈاکٹر امبیدکر نے انسانی مساوات اور برابرکے حقوق پر مبنی آئین تو بنا دیا لیکن ہرشہری کو برابر کے حقوق دینے سے متعلق شقیں شامل کرنے سے ہر شہری برابر نہ ہو سکا۔ بھارت میں 20 کروڑ ہندودلتوں کو وہاں نیچ ذات ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ 31 ریاستوں میں پھیلے ہوئے دلتوں میں 80 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ پابندسلاسل ہونے والے تلتمبڑے نے ان کے حق میں ہلکی سی آواز بلندکی تھی۔ بھارتی حکومت کسی پوزیشن پرپہنچنے والے پڑھے لکھے دلت کو پابند سلاسل کرنا چاہتی ہے۔ بھارتی آئین میں مٹائے جانے والے امتیازات سماج سے نہ ہٹائے جا سکے، اسی لیے حقوق اور آئینی آزادی کیا ہوتی ہے، بھارتی شہری آزادی کے سات عشرے بعد بھی نہ جان سکے۔ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد یہ فرق نمایاں ہوا۔ صاف نظر آرہا ہے کہ آئینی شقیں اورسماجی روایات دو مختلف دھارے ہیں، انہیں ملانے کی سوچنے والوں کامستقبل جیل کے سوااور کہیں نہیں۔
نریندرمودی اپنی تقاریر میں ڈاکٹر امبیدکر کا ذکرکرنا نہیں بھولتے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کے تمام پرانے رہنما ہٹلر اور مسولینی جیسے آمروں سے متاثر تھے، تاریخ کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ برابری اور آئینی حقوق کی باتیں کرنے والے ڈاکٹر امبیدکر نریندر مودی کی ضرورت اور مجبور بن چکے ہیں تاکہ مودی بھی امبیدکر جیسا امیج بنا سکیں۔ اب امبیدکر کی پڑپوتی کے شوہر جیل میں ہیں، دیکھتے ہیں نریندر مودی کے لب کھلتے ہیں یا نہیں!