کورونا وائرس، ماسک 19 اور طلاقیں

''کورونا وائرس ہے، سماجی دوریوں کا ماحول ہے، گھر میں پرانی عورت اگر زبان درازی کرے تو ٹھوڑی پر گھما کر گھونسہ رسید کرو‘‘ 26 بار سپر مڈل ویٹ میں عالمی چیمپئن بننے والے برطانوی باکسر بلی جو سانڈرز کو وڈیو اپ لوڈ کرنا مہنگا پڑ گیا۔ باکسر نے وڈیو میں گھونسہ مارنے کی ترکیب بھی شامل کی تھی تاکہ نوجوانوں کو مشکل پیش نہ آئے۔
وڈیو کا اپ لوڈ ہونا تھا کہ دنیا بھر کی خواتین اور مردوں نے بھی باکسر سے باکسنگ شروع کر دی۔ کسی نے جان سے مارنے کی دھمکی دی تو کوئی اس کی ماں اور بیوی کی جان کے درپے ہو گیا۔ ایک نے اس کی بیگم کا خون پینا چاہا۔ بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھا‘ برطانیہ کے باکسنگ بورڈ نے خواتین کے خلاف تشدد پر اکسانے کا الزام دھرنے کے بعد اسے معطل کر دیا۔ سانڈرز نے لاکھ معافیاں مانگیں ''میں تو لاک ڈائون میں دل بہلانے کی کوشش کر رہا تھا، مجھے معاف کر دو‘‘ لیکن ساری کوششیں بے سود رہیں۔ باکسر نے معافی بھی مانگی اور آنکھیں بھی دکھائیں۔ دھمکیاں دینے والوں کو دھمکی دی کہ ''بھائی، میری بیوی تو ہے نہیں، بیٹی ہے، اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو ٹانگیں توڑ کر ہاتھ میں پکڑا دوں گا‘‘ ۔
مغرب میں ایک مرد نے بیوی سے کہا، ہاتھ دھو لو۔ بیوی نے صابن لیا اور ہاتھ دھو لئے۔ شوہر کا دل نہ بھرا۔ بولا، ایک بار پھر دھو لو۔ بیوی نے دوبارہ صابن لیا اور ہاتھ دھو لئے۔ شوہر نے بار بار ہاتھ دھونے کو کہا۔ آخر میں بولا، اب کسی چیز سے رگڑ کر دھو لو۔ بیوی نے اتنی مرتبہ ہاتھ کو رگڑا کہ ہتھیلیوں سے خون رسنے لگا۔ اس کو پھر بھی چین نہ آیا۔ کہتا تھا... اب بھی گندے ہیں، کہیں وائرس نہ لگا ہو! اب وہ سلاخوں کے پیچھے ہے‘ جہاں پولیس اس کے ہاتھ دھلا رہی ہے۔
لاک ڈائون میں گھریلو امن قائم رکھنے کے لئے ملائیشین حکومت بھی اخلاقی طور پر ڈائون ہوتے ہوتے رہ گئی۔ ملائیشین حکومت نے سرکاری ویب سائٹ پر ایک وڈیو میں بیویوں کو بن سنور کر رہنے اور شوہروں کی عیب جوئی سے گریز کا مشورہ دیا۔ وڈیو کا اپ لوڈ ہونا تھا کہ بھونچال آ گیا، تنقید سے بچنے کے لئے حکومت نے چپ چاپ وڈیو ڈیلیٹ کر دی۔ ہمارے ہاں بھی یہ تجویز موثر ہو سکتی تھی لیکن جب ملائیشین حکومت نے ہی میدان چھوڑ دیا تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔
کورونا وائرس کا آغاز چین سے ہوا تھا، طلاقوں اور گھروں کے ٹوٹنے کا آغاز بھی چین سے ہی ہوا ہے۔ چین کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق طلاقوں کے سب سے زیادہ کیسز ووہان میں دائر ہوئے ہیں۔ چینی قانون کے مطابق لڑکے اور لڑکی کو ایک مہینے کا ''گڈ ول‘‘ پیریڈ ملتا ہے۔ اس عرصے میں دلوں کا میل نکلنے کی صورت میں وہ دوبارہ ایک ہو سکتے ہیں لیکن اگر یہ وقت نکل جائے تو پھر دوریاں دائمی ہو جاتی ہیں۔ چین میں ہونے والی طلاقوں کے حوالے سے مصنفہ شیری ڈان پراسو (Sheridan Prasso) نے ہمیں بھی ڈراتے ہوئے لکھا ہے کہ جناب ہوشیار ہو جائو، وائرس کے بعد سے ووہان میں طلاقوں میں اضافہ ہو گیا ہے، اب آپ بھی اپنی فکر کر لو‘‘۔
مسز ووہ (Wu) نے بتایا ''ہم دونوں دو مہینے اکٹھے رہے لیکن ایک دن بھی سکون سے نہیں گزرا، میں اس لڑاکو کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، مجھے طلاق چاہیے‘‘۔
دوسری طرف شوہر نے سرد آہ بھری اور کہا ''میں نے اسے نام نہ بدلنے کی بھی اجازت دی تاکہ یہ اپنی پرائیویسی قائم رکھے لیکن اس نے مجھے تگنی کا ناچ نچایا ہے۔ مجھے اس سے بچائو‘‘۔
چینی حکومت ہر مہینے سرکاری اعداد و شمار شائع کرتی ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار سے یہ راز کھلا کہ ووہان اکیلا نہیں ہے۔ پورے چین کی کہانی کچھ ایسی ہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مارچ میں روزانہ ہی ریکارڈ تعداد میں طلاقوں کے کیسز دائر ہوئے۔ سٹی رجسٹریشن سنٹر سے منسلک ایک افسر ییی شیائویان (Yi Xiaoyan) نے کہا کہ دو مہینے تک گھروں میں رہنے سے ان کے ازدواجی تنازعات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ صوبہ ہونان (Hunan) کے سرکاری دفاتر بھی طلاق کی فائلوں سے بھرے پڑے ہیں، چینیوں کو کئی مہینے تک اب یہی کام کرنا پڑے گا۔ ایک وکیل نے بتایا کہ چین میں 2018ء میں 45 لاکھ گھر ٹوٹے تھے۔ اب اس میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔
مغرب سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق وہاں گھروں میں زیادہ وقت گزارنے سے میاں بیوی‘ دونوں میں لڑنے بھڑنے کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ جہاں پہلے خال خال فون آتے تھے وہاں اب روزانہ ہی ٹیلی فونوں کی گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں۔ وینکوور میں جہاں پہلے مہینے میں ایک آدھ فون کال ہی آتی تھی وہاں دن میں 100 خواتین گھریلو تشدد کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں۔ وینکوور میں ایک اہم ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینجلا میری میکڈوگل نے المیے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ''کورونا وائرس سے گھر گھر سماجی المیہ جنم لے رہا ہے، اس کی شدت کا اندازہ وائرس کے خاتمے کے بعد لگایا جا سکے گا‘‘۔
اب تشدد اس قدر عام ہو گیا ہے کہ حکومتیں اور پولیس بھی اپنی پالیسیاں بدل رہی ہیں۔ وہاں آئسولیشن کے قوانین گھریلو تشدد کا باعث بن رہے ہیں‘ انہیں بدلنا پڑے گا، اور اس حوالے سے تبدیلی آ بھی رہی ہے۔ گھریلو تشدد کا شکار عورت کو لاک ڈائون توڑنے کی اجازت مل گئی ہے۔ کوئی بھی عورت اگر تھانے میں آ کر کہتی ہے کہ میرے شوہر نے مارا ہے، یا ڈرایا دھمکایا ہے تو اس کیلئے لاک ڈائون کا قانون معطل ہو جائے گا۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور سمیت کئی ممالک میں قریب ترین میڈیکل سٹوروں کو پناہ گاہ قرار دیا جا رہا ہے، گھریلو تشدد کا شکار عورت کسی بھی میڈیکل سٹور میں اپنی کہانی سنا سکتی ہے۔ میڈیکل سٹور خصوصی پولیس سے مسلسل رابطے میں رہیں گے‘ بلکہ ایک ہیلپ لائن کا نام ''ماسک 19‘‘ ہے۔ قریب کھڑا شوہر یہی سمجھتا رہے گا کہ بیوی ماسک کا انتظام کر رہی ہے، اسے کیا پتہ کہ جیل کا بندوبست کر رہی ہے۔
کون سا یورپی ملک ایسا ہے جہاں یہ کیفیت نہیں ہے۔ فرانس نے کورونا وائرس سے ہونے والے گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے 11 لاکھ ڈالر کا خصوصی فنڈ بھی قائم کر دیا ہے۔ خواتین کی مدد کے لئے سپر مارکیٹوں اور میڈیکل سٹوروں میں بھی ہیلپ لائنیں قائم کر دی گئی ہیں۔ شدت کے پیش نظر وزیر برائے ''مرد و عورت میں برابری‘‘ میرین شیاپا (Mariene Schiappa) خود اسے دیکھ رہی ہیں۔ برطانیہ میں بھی یہی تصور عالم ہو گیا ہے کہ خواتین کو جن سے شکایت تھی ان کے ساتھ ہی آئسولیشن میں بھیجے جانے سے تشدد پھیل رہا ہے۔ حکومت برطانیہ نے خیراتی اداروں کی بھی گھریلو تشدد کے خاتمے کی مہم میں شریک کر لیا ہے۔ انہیں ہدایات دی جا چکی ہیں کہ کسی بھی گھر میں اس قسم کی صورتحال دیکھیں تو حکومت کو مطلع کریں۔ بھارت میں بھی تشدد میں اضافے کی روک تھام کے لئے نئی ہیلپ لائن قائم کر دی گئی ہے۔ یونان میں کورونا وائرس سے پیدا شدہ گھریلو صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکومت نے حکم جاری کیا ہے ''کورونا وائرس کو دبائو، خواتین کی آواز کو نہیں‘‘ اٹلی میں بھی تشدد کا شکار خواتین کے ایس ایم ایس اور ای میل میں اضافہ ہو گیا ہے۔ جرمنی اور فرانس میں بھی یہ تصور عام ہے کہ لاکھوں خواتین جنگجو قسم کے ساتھیوں کے ساتھ گھروں میں بند ہیں۔ ان کے تحفظ کیلئے اقدامات ضروری ہیں۔ گرین پارٹی نے یہ معاملہ جرمن پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا ہے۔ 
خیال تھا کہ کورونا وائرس سے گھروں میں آئسولیشن سے لوگوں کو خوشگوار زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔ مدتوں کی دوریوں میں کمی ہو گی۔ کام، کام اور کام سے پیدا ہونے والی تھکن اتارنے کا اچھا موقع ملے گا۔ انٹرنیٹ اور موبائل فونوں کی وجہ سے رکی ہوئی خاندانی لائف کو بھی نئی لائف مل جائے گی‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا، دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ایک ہی آواز ہے۔ مجھے میرے شوہر نے مار ڈالا!
مغرب میں جو کچھ ہو رہا ہے، پاکستان میں بھی اس سے کم نہیں ہو رہا ہو گا۔ ہمارے ہاں تو ایک کمرے میں کئی افراد رہنے پر مجبور ہیں۔ مغرب میں گھریلو تشدد میں کئی گنا اضافے کا سن کر مجھے یوں لگ رہا ہے کہ شاید قانون کے خوف نے انہیں عورت کی عزت کرنے پر مجبور کر رکھا ہے، ورنہ دلوں میں جو کچھ ہے وہ تو اب ظاہر ہو رہا ہے۔ یہ ہے ان کا اصل شعور!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں