یہیں تک تھا سفر اپنا!

ڈاکٹر پرویز حسن کا شمار پاکستان کے مایہ ناز وکلاء میں ہوتا ہے‘ 1990ء کے عشرے کی بات ہے۔ انہوں نے مجھے شادمان میں واقع اپنے نئے آفس میں بلایا۔ ہم نے چائے پی‘ باتوں باتوں میں انہوں نے کہا: ''میں ہمیشہ پانچ سالہ پلان بنا کر چلتا ہوں۔ زندگی کو کامیاب بنانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ یہ میرا دوسرا آ فس ہے‘ میرا اگلا ہدف اس سے بڑا آ فس ہے‘ وہ میں اگلے پانچ سال میں بنالوں گا اور آپ؟‘‘
''میں نوکری بچانے میں کامیاب ہو گیا!‘‘۔ میں نے جھٹ سے کہا۔
انہوں نے بات کو کاٹا‘ اور کہنے لگے '' اکثر پاکستانیوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی منصوبہ بندی کو کوئی جگہ نہیں دی اور یہی ان کی ناکامی کا بڑا سبب ہے۔آپ بھی اہداف طے کریں او ر ان کے مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ ہر رات کو سونے سے پہلے اپنے اہداف کا تجزیہ کریں جو رہ جائے اسے اگلے دن ٹاپ پر رکھیں ورنہ زندگی کی دوڑ میں لکیر پیٹتے رہ جائیں گے‘‘۔
''پروفیشنلز کے پاس مواقع ہوتے ہیں وہ ا پنی زندگی کو کسی بھی ڈھب پر چلانے کے قابل ہوتے ہیں‘ ذاتی کام بھی شروع کر سکتے ہیں لیکن ملازمین کے پاس ایسے آپشنز نہیں ہوتے۔میں تو ''پاکستان‘‘ جیسے حالات والے شعبے میں کام کر رہا ہوں‘ اس شعبے میں 'فاٹا‘ بھی ہے جہاں کسی کا بس نہیں چلتا۔ 'سندھ‘ بھی ہے جسے زیادہ سے زیادہ خود مختاری چاہئے‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسی محرومیاں رکھنے والے کمزور اور بے بس لوگ بھی ہیں اور مقتدرہ جیسے طاقتور بھی ہیں۔ ان حالات میں ایک ملازم نوکری بچالے تو اسے کامیاب ہی سمجھیں‘‘۔
چائے ختم ہو گئی اور ساتھ ہی وقت بھی۔ روایتی مسکراہٹوں کے جھرمٹ میں ڈاکٹر صاحب نے رخصت کیا تو میں آفس جاتے ہوئے سوچنے لگا... وہ کہتے تو ٹھیک ہی تھے لیکن میں بھی غلط نہیں تھا!
جب میں نے ایک سابقہ جاب جوائن کی تو ان دنوں اداروں سے کمٹمنٹ کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔اسی کمٹمنٹ کو دل میں بسائے ہوئے کسی دوسرے ادارے کی جانب منہ کرنا حرام سمجھ لیا۔پتا ہی نہیں چلا کہ ایک ہی ادارے سے وابستگی کے دوران کب اور کیسے مزید 25برس گزر گئے۔اس دوران ملک کے تمام ہی شعبوں میں ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ شروع ہو گئی‘میرے شعبے میں بھی فلور کراسنگ نے رنگ جمایا‘ ادھر ادھر ٹرائیاں مارنے والوں نے لاکھوں کما لئے اور ہم کمٹمنٹ سے چپکے رہے۔ جب آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ کمٹمنٹ تو ایک سراب ہے‘یک طرفہ کمٹمنٹ حماقت ہے‘ کمٹمنٹ کا خواب اس وقت بیچ چوراہے میں بکھر گیا جب ایک بڑے افسر نے آفس کے ہال میں کمٹمنٹ پر طویل لیکچر دیا۔کہنے لگے: ''جو لوگ ادارے نہیں بدل رہے وہ یا تو چور ہیں یاپھر نااہل ہیں۔ یا تو وہ کما رہے ہیں یا پھر انہیں کہیں سے کوئی بلاوا ہی نہیں آتا‘‘۔اس بڑے افسر کا پورا لیکچر ہی ''کمٹمنٹ‘‘ پر تھا۔یہ نئی تشریح کافی تکلیف دہ اور درد ناک تھی۔ یہ وہ دن تھا جب بہت سے لوگوں نے اپنے راستے بدلنا شرو ع کر دیے۔میں بھی ان میں شامل تھا۔
6فروری 2017ء کی شام سات بجے کے قریب میں ایک سابق مالک کے ساتھ تھا۔ ہم دونوں کسی تیسرے کے گھر پر اکٹھے ہوئے جہاں نت نئے آئیڈیاز پر تبادلۂ خیال ہوا۔ میٹنگ ختم ہوئی تو میں گھر کی جانب بھاگا‘ ابھی کمرے میں قدم بھی نہیں رکھا تھا کہ ایک فون آیا...''وہیں سے 'اوپر‘ جانا ہے یا کہیں شفٹ بھی ہونا ہے؟‘‘۔ برا مت مانیے‘کیونکہ الفاظ یہ ہرگز نہ تھے لیکن میں سمجھا کہ شاید ایسا ہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ تب میں نے اس ادارے کو سٹڈی کیا۔اس میں لوگ دس دس بیس بیس سال سے کام کر رہے تھے۔یہ چیز مجھے اچھی لگی۔
میں سمجھ گیا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے رزق کے دروازے ایک جگہ بند اور دوسری جگہ کھلنے والے ہیں لہٰذا مان گیا۔ کچھ ہی دیر میں ایم ڈی صاحب نفیس کیک اور بھینی بھینی خوشبو والے پھولوں کے ساتھ گھر پر موجود تھے۔یہ فوری رد عمل مجھے اچھا لگا۔ کیونکہ میں 36برس کی عملی زندگی میں ہر کام کو لٹکتے ہوئے دیکھ چکا تھا...
ہماری بات چیت ساڑھے دس بجے کے قریب ختم ہوئی۔کافی سنجیدہ گفتگو تھی جس کی امید مجھ سے کم ہی کی جا سکتی ہے۔ اور وہ بھی رات کے وقت۔ جب میرا میٹر ڈائون ہونا شروع ہو جاتا ہے! تب میں نے پرانے ''باس‘‘کو واٹس ایپ میسج بھیجا کہ اب تعلق ختم ہونے والا ہے۔ ایک دن کی تاخیر سے جواب ملا '' ہم اچھے طریقے سے خدا حافظ کہہ سکتے ہیں‘‘۔ میں جانتا ہوں کہ اس ایک دن میں ان کے ''تفتیش کار‘‘ نے انہیں بتایا ہو گا کہ ''تماشا کر رہا ہے‘ کوئی آفر نہیں ہے‘ کورا جواب دے دیں‘‘۔
کہتے ہیں کہ جب پیپلزپارٹی نے 1985ء میں غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو (سابق )صدر ضیاء الحق نے شکرانے کے نفل ادا کیے تھے۔جب مجھے کورا جواب ملا تو میں نے بھی شکرانے کے نفل ادا کیے کہ ان کی جانب سے انکار کیا گیا۔ ویسے بھی میں فیصلہ کرچکا تھا‘ لیکن اس صورت میں ترکِ تعلق کی گیند میری کورٹ میں پڑی رہتی۔
اس موقع پر یار لوگوں نے بہت ڈرایا‘ دھمکایا‘ لیکن ٹل نہ سکتے تھے جو اَڑ جاتے ہیں۔ میں بھی اڑا رہا۔کچھ نے بہت ڈرایا کہ وہاں تو کیمرے لگے ہیں۔میں خوش ہو گیا کیونکہ میں تو 2006ء سے خودچاہتا تھا کہ میرا ٹائم نوٹ ہو کیونکہ ایک پرانے آفس کے بعض لوگ ہر وقت کہتے رہتے تھے ''ہم آئے تھے‘ آپ کمرے میں نہیں تھے‘‘۔ چونکہ ماتحت ہمیشہ تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں‘جو سبھی ایک زبان بولتے ہیں‘ اس پر میں چاہتا تھا کہ آفس اس بات کا ثبوت دے کہ میں آفس میں ہی تھا۔ میری وجہ سے ہی 2007ء میں سابقہ آفس میں ٹائم کی نوٹنگ شروع ہوئی تھی۔آپ برا مت مانیں‘ جب لوگ ہر وقت خود غائب ہو کر کہتے رہیں گے ''ہم تو یہیں تھے‘‘ تو کچھ تو بندوبست کرنا ہی پڑے گا۔
جہاں تک کیمرے کی آنکھ کاتعلق ہے تو اس نے بہت سی سازشوں سے بچا لیا ہے۔ایک پرانے دفتر میں سورج کے ڈھلتے ہی خطوط نویسی شروع ہو جاتی تھی‘ رات کے وقت ''پوسٹ مین‘‘ سارے خطوط کچھ کمروں میں ڈال کر غائب ہو جاتا تھا۔زیادہ خطوط مجھے ملتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جس طرح (کہانیوں کے مطابق ) جاپان کے جنگلوں میں ایک سپاہی بہت دیر تک دوسری جنگ عظیم لڑتا رہا تھا‘ اسی طرح میں بھی لڑتا رہوں گا‘خواہ مقصد پورا ہونے پر خطوط نویس اپنے مندرجات سے دستبردار ہو جائے۔
کیمرے کی آنکھ سازشوں اور چوریوں سے بھی بچا سکتی ہے بلکہ اس کا ثبوت اس وقت مل گیا جب میں پہلے ہی دن موبائل فون اپنی چیئر پر بھول گیا‘ رات کو گھر جانے کے بعد یاد آیا تو ساتھی نے بتایا کہ میز پر پڑا ہے۔اسی وقت کیمرے کی آنکھ کا شکر گزار ہوا اورمیں خود کو ڈرانے والوں کوسمجھانے لگا ... (جاری )

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں