"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی سمجھے تو کیا سمجھے...؟

ملکی سیاست اور معاشرت میں کتاب کی صورت ریحام خان کے پھینکے پتھر سے پیدا ہونے والے ارتعاش کوہرسطح پر ہی محسوس کیا جارہا ہے ‘جس کتاب کے اگر چند مندرجات ہی سامنے آنے پر غلغلہ مچ گیا ہے‘ تو پوری کتاب سامنے آنے کے بعد خدا معلوم کیا ہوگا۔اب تو یہ ثابت ہوچکا کہ ریحام خان کا بوریا بستر سمیٹ کر برطانیہ سے پاکستان آنا اور پھر عمران خان تک رسائی حاصل کرنا کوئی غیرارادی فعل نہیں تھا‘ بلکہ حصول ِشہرت و اقتدار کے چکر میں یہ سب کچھ ارادتا ًکیا گیا تھا‘ جس میں جانے انجانے میں نعیم الحق‘ ریحام خان کے لیے بہت معاون ثابت ہوئے ۔ 
عمران اور ریحام کی شادی کا اعلان ‘تو 6 جنوری 2015 ء کو ہوا تھا‘ لیکن بقول ریحام خان کے، یہ شادی اس سے دوماہ قبل اکتوبر 2014 ء کو ہی انجام پا گئی تھی‘ جس کی طرف قدم بڑھانے کا آغاز فریقین کی طرف سے ایک ٹی وی چینل کے لیے انٹرویو دینے اور لینے کے دوران ہوا تھا۔انٹرویو کے دوران مسکراہٹوں کے تبادلے نے کپتان کے دل کو جو زیر وزبر کیا‘ تو اس کا نتیجہ بالآخر شادی کی صورت برآمد ہوا۔اب یہ الگ بات کہ اس رشتے میں ایک سال سے بھی کم عرصے میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی تھیں۔ شادی کے فوری بعد ہی دونوں کے درمیان اختلافات کی خبریں سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں ۔ پہلے مبینہ اور بعد میں مصدقہ طور پر ان اختلافات کے پیدا ہونے کی ایک سے زائد وجوہ سامنے آئیں ۔ خصوصاً ریحام خان کی دوعادتوںنے اختلافات کو بڑھاوا دینے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ایک تو ریحام خان کا باقاعدگی کے ساتھ اپنے شوہر کے موبائل فون کو چیک کرنا‘ ( طلاق کے بعد سامنے آنے والی مصدقہ معلومات کے مطابق اس معاملے کو لے کر دونوں کے درمیان کئی مواقع پر شدید تلخ کلامی ہوئی) دوسرے پارٹی معاملات میں ضرورت سے زیادہ دخل دینا۔ ریحام نے ایک سے زائد مواقع پر بغیر استحقاق کے پارٹی کے اجلاس میں شرکت کی‘ پارٹی رہنماؤں کو ہدایات دینا شروع کردیں‘ جس پر متعدد پارٹی رہنماؤں کی طرف سے شدید ناراضی کا اظہار بھی کیا گیا ۔یہ اسی کے باعث تھا کہ طلاق سے قریباً دوماہ قبل عمران خان نے ریحام خان پر پی ٹی آئی کی کسی تقریب میں شرکت کرنے پر پابندی لگانے کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا تھا کہ ریحام کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دیا جائے گا اور یہی بات ریحام کے لیے ناقابل قبول ٹھہری کہ اگر اُس نے گھرمیں ہی بیٹھنا تھا ‘تو پھر یہ تو جنگل میں مور ناچا‘ کس نے دیکھا والی بات ہوئی اورشہرت اور طاقت حاصل کرنے کے لیے شادی کا جو ڈول ڈالا گیا تھا‘ وہ تو کنویں سے خالی ہی باہر آجاتا‘ سو ''جنگ‘‘ میں آئے روز شدت آتی گئی‘ جسے خاندانی مداخلت نے مزید بھڑکایا‘ کیونکہ عمران خان کے اہل ِ خانہ میں سے کوئی بھی اس شادی پر خوش نہیں تھا ۔اور ان تمام معاملات کا حتمی نتیجہ تو 30 اکتوبر 2015 ء کو نکل‘ لیکن اس سے پہلے 23ستمبر2015ء کو ایک ٹی وی پروگرام میں دونوں کے درمیان طلاق کی خبر بھی سامنے آ چکی تھی اور یوں بنی گالہ کے شاندار بنگلے سے شروع ہونے والا سفر اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔اس سے پہلے ریحام خان کی 19 سال کی عمر میں 1993 ء میں اپنے کزن اعجاز رحمن سے ہونے والی شادی 12 سال چلی تھی ‘جس سے اُن کے تین بچے بھی ہیں اور عمران خان سے شادی کے بعد یہ بچے بھی ریحام کے ساتھ ہی بنی گالہ میں رہائش پذپر تھے ‘ جو لوگ عمران خان کی طبیعت سے واقف ہیں‘ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان بچوں کی بنی گالہ میں موجودگی کو عمران خان کس دل سے برداشت کرتے ہوں گے اور یہ باتیں بھی سامنے آئیں کہ ان بچوں کی موجودگی پر بھی کئی مرتبہ میاں بیوی کے درمیان توتکار ہوئی۔ گویا صورتحال اس نہج پر پہنچ ہی گئی کہ ''میں نہ وہ ہوں کہ تنک غصہ میں ٹل جاؤں گا ...ہنس کے تم بات کرو گے میں بہل جاؤں گا ‘‘۔
طلاق کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں طلاق کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ میرے ، ریحام اور ہمارے خاندانوں کے لیے دکھ کی گھڑی ہے ۔ میری سب سے درخواست ہے کہ وہ ہماری ذاتی زندگی کا احترام کریں۔دوسروں سے ذاتی زندگیوں کے احترام کی اپیل تو کافی کارگر رہی‘ لیکن اب طلاق کے قریباً تین سال بعد ریحام خان کی طرف سے کتاب کی صورت پھینکے گئے پتھر نے تو طوفان سا برپا کردیا ہے ۔ الزامات درالزامات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔حمزہ عباسی کی طرف سے کتاب کے رازوں کو طشت از بام کیے جانے کے نتیجے میں اُٹھنے والی گرد میں سے اب تک جو کچھ برآمد ہوا ہے‘ وہ ایسا نہیں ہے کہ جسے کوئی بھی آسانی سے نظرانداز کرسکے اور اسی لیے کتاب کے مندرجات سامنے آنے کے بعد پہلے مرحلے میں تو پاکستان اور برطانیہ کی کاروباری شخصیت سید ذوالفقار بخاری ‘ریحام کے سابق شوہر اعجاز رحمن ‘ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم اور پی ٹی آئی کی انٹرنیشنل میڈیا کوآرڈینیٹر انیلا خواجہ کی طرف سے ریحام خان کو برطانیہ میں اُن کے پتے پر 30 مئی 2018 کو قانونی نوٹس بھیج دیا گیا ہے کہ ریحام کی طرف سے کتاب میں ان شخصیات کے بارے میں بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں ‘جس سے ان کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے ۔دوسری طرف ریحام خان نے اینکرپرسن حمزہ عباسی کو کتاب کا مسودہ چوری کرنے کے الزا م میں 5 ارب روپے کا نوٹس بھیج دیا ہے ۔
یہ ابھی ابتدا ہے‘ جس میں ایسے الزامات بھی سامنے آئے ہیں کہ ریحام خان نے یہ کتاب مسلم لیگ(ن) کی ایما پر لکھی ہے اور منصوبہ یہ تھا کہ کتاب کو انتخابات سے کچھ ہفتے پہلے مارکیٹ میں لایا جائے گا ‘وغیرہ وغیرہ ۔ عمران کے خان کے پولیٹیکل سیکرٹری عون چوہدری نے بھی میدان کارزار میں چھلانگ لگاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ریحام خان ایک لالچی خاتون ہیں‘ جسے اُنہوں نے کئی مرتبہ تحریک ِ انصاف کے رہنماؤں سے رقم مانگتے ہوئے دیکھا۔عون چوہدری کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ریحام نے اپنی فلم کے لیے پارٹی رہنماؤں سے فرنیچر لیا‘ جو آج تک واپس نہیں کیا گیا‘وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ جس کتاب نے اپنے آنے سے پہلے ہی ملکی سیاست میں جو غلغلہ برپا کردیا ہے‘ تو آنے کے بعد یہ جو گل کھلائے گی ‘اُس کے لیے مسلم لیگ ک(ن) کواسد درانی کے بعد ریحام خان کا بھی شکرگزار ہونا چاہیے‘ کیونکہ اس سے نون لیگ کو اچھا خاصا فائدہ ہونے والا ہے۔
شنید تو یہ بھی ہے کہ ریحام خان کی انگریزی اور اُردوزبانوں میں آنے والی کتاب میں عمران خان کے بلیک بیری کا مواد بھی شامل ہوگا‘ جس کا نشانہ جماعت کے کچھ دوسرے رہنما بھی بنیں گے ‘جن میں مبینہ طور پر عون چوہدری بھی شامل ہیں‘ جس کی بھنک شاید عون چوہدری کو بھی مل چکی ہے اور اسی لیے جماعتی رہنماؤں کی طرف سے کتاب کے حوالے سے سب سے شدید ردعمل ابھی تک عون چوہدری کی طرف سے ہی سامنے آیا ہے‘ جس کی پیروی فواد چوہدری نے بھی کی ہے اور حفظ ماتقدم کے طور پر ایسے الزامات کی گردان بھی کی جارہی ہے کہ ریحام خان یہ سب کچھ مسلم لیگ ن کی ایما پر کررہی ہے اور ہوسکتا ہے ‘کسی مرحلے پر یہ راز بھی طشت ِاز بام ہوہی جائے کہ ریحام خان کو کتاب لکھنے میں مسلم لیگ(ن) کی معاونت حاصل رہی تھی یا نہیں‘ البتہ یہ ضرور ہے کہ کتاب کے منظرعام پر آنے سے بقول، رانا ثنااللہ کے عمران خان کی شخصیت اور سیاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ریحام خان پہلے ہی اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہہ چکی ہیں کہ عمران خان نے میرے ساتھ نکاح کو دوماہ تک چھپائے رکھا اور وہ صادق اور امین نہیں ۔اب ظاہر سی بات ہے کہ جو شخص صادق اور امین نہ ہو‘ اُسے وزیر اعظم بھی نہیں بننا چاہیے اور جو یہ نہ سمجھے‘ تو پھر کوئی جانے ‘تو کیا جانے ... کوئی سمجھے تو کیا سمجھے‘ یہ اُس کی مرضی!!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں