"FBC" (space) message & send to 7575

بس ہم نے گھبرانا نہیں!

ایک محاورہ ہے یا جو بھی آپ سمجھنا چاہیں سمجھ لیں '' بے کار مباش کچھ کیا کر اور کچھ نہیں تو کپڑے اُدھیڑ کر سیا کر‘‘حکومت کے22ماہ کے دوران اس سے بڑھ کر کچھ ہوتا ہوا دکھائی دیا ہو تو براہِ کرم ہمیں بھی آگاہ کیا جائے‘ ویسے ہم نے خوردبین پکڑی ہوئی ہے‘ تاکہ تعمیر ہونے والے 50لاکھ مکانات میں سے کچھ مکانات تو کہیں دکھائی دے ہی جائیں گے ۔ کاش! ہم ایک کروڑ نوکریوں میں سے ابھی تک اپنا حصہ وصول کرنے والے خوش باش چہروں کو دیکھ سکیں۔ سفارشیں ڈلوا کر جیلوں کے بھی ایک دوچکر لگا چکے ہیں‘ تاکہ قوم کی دولت لوٹنے والوں کو اپنی آنکھوں سے سلاخوں کے پیچھے دیکھ سکیں۔اُمید واثق تھی کہ اگر بڑے مگر مچھ دکھائی نہ بھی دئیے تو کم از کم دوسرے درجے کے بدعنوان عناصر کی تو جیلوں میں لائن لگی ہوگی۔اس اُمید پر تھانوں کے چکر بھی لگتے رہتے ہیں کہ اب تو وہاں آنے والے سائلین کی شکایات بڑی توجہ سے سنی جاتی ہوں گی‘ اب تو وہاں کسی کو بھی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جاتا ہوگا۔ گڈگورننس نامی چڑیا کی تلاش میں بھی مارے مارے پھرتے رہتے ہیں ۔ ٹی وی کا خبرنامہ بھی بہت شوق سے دیکھتے ہیں کہ شاید ماضی کی حکومتوں کے ساتھ کرپشن میںملوث رہنے والوں کے بغیر کابینہ کا کوئی اجلاس دیکھنے کو مل جائے۔ ایسی کابینہ کا اجلاس‘ جس میں شریک ہونے والے مصدقہ ایماندار ہوں۔ اس اُمید پر اخبارات کا بھی بغور مطالعہ کرتے ہیں کہ بس اب چینی چوروں اور مہنگی بجلی فروخت کرنے والوں کی جیل جانے کی خبرا ٓیا ہی چاہتی ہے۔ یقین جانیے ابھی تک اُمید کا سرا تھاما ہوا ہے کہ بس جلد ہی بیرونی ممالک سے اربوں ڈالر کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور وارے نیارے ہوجائیں گے۔
آخر کو یہ سب کچھ سوچنا ہمار احق بنتا ہے کہ چوروں کے جانے کے اتنی ایماندار اور شاندار حکومت جو برسراقتدارآئی ہے۔ وائے ری قسمت ابھی تک یہ سب کچھ دیکھنے کے چکر میں خوار ہی ہورہے ہیں ‘لیکن اُمید کا دامن بہرحال ابھی تک تھاما ہوا ہے کہ بس ہم نے گھبرانا نہیں ۔ اُمیدوں کے چراغ ایک مرتبہ پھر اُس وقت روشن ہوئے جب وزیراعظم نے مارچ میں دوران ٹائیگرفورس کے قیام کا اعلان کیا۔ یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ فورس کے اراکین حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر کورونا کے باعث مصیبت کے ماروں کی مدد کریں گے۔ صرف اتنا ہی نہیں‘ بلکہ یہ گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کی نشاندہی بھی کریں گے ۔ صرف اتنا ہی نہیں‘ بلکہ اس کے لیے تشکیل دئیے گئے ضابطوں میں یہ بھی درج کیا گیا کہ یہ فورس مختلف اجتماعات منعقد کرانے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ یوں تو اسے ماہ رمضان کے دوران ہی ایس او پیز کے مطابق‘ نماز ِتروایح وغیرہ کی ادائی کے لیے انتظامات کو ممکن بنانا تھا‘ لیکن بڑے کاموں میں تاخیر تو ہوہی جاتی ہے۔اس تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آج تک خود حکومت ہی کورونا کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی تشکیل نہیں دے سکی۔وہ لاک ڈاؤن نہ کیا تو کورونا گھر گھر پھیل جائے گا۔اوہو لاک ڈاؤن کیا گیا تو لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔نہیں نہیں ‘ اگر مکمل نہیں تو کم از کم سمارٹ لاک ڈاؤن تو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آپ نے گھبرانا نہیں‘ حکومت حالات سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ان حالات میں بھلا بیچاری ٹائیگر فورس بھی کیا کرسکتی تھی؟ سو ‘یہ ابھی تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہی بیٹھی ہے۔ اُمید واثق ہے کہ کورونا کے خاتمے کا وقت قریب آنے تک یہ شاندار فورس مکمل طور پر متحرک ہوجائے گی۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے اس کے ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب رضاکار ہرجگہ مصیبت کے ماروں کی مدد کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ اب‘ یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک یہ جن صوبوں میں قائم کی گئی ہے‘ وہاں یہ اپنے صوبائی سربراہوں سے تاحال محروم ہے‘ جس صوبے میں اس فورس کو سربراہ نصیب ہوا ہے تو وہاں ابھی تک یہ قائم ہی نہیں ہوسکی‘ ہے نہ شاندار منصوبہ بندی؟ لگے ہاتھوں یہ بھی بتائے دیتے ہیں کہ ابھی تک اس فورس کا قیام کے پی کے‘ پنجاب اور بلوچستان میں عمل میں آیا ہے‘ لیکن تینوں صوبوں میں یہ ابھی تک اپنے سربراہوں سے محروم ہے۔ خیر سے سندھ میں وہاں کے گورنر کو اس فورس کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے‘ لیکن کچھ ناگزیر وجوہات کی بناء پر وہاں ابھی تک یہ فورس قائم ہی نہیں ہوسکی ہے۔ خیر‘ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ بس‘ ہم نے گھبرانا نہیں ۔ 
دیکھئے تو ہمیں گبھراہٹ سے بچانے کے لیے حکومت نے کیا کیا؟ میلے لگا رکھے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک بازی گراپنی ‘ باتوں‘پر کھیل کر ہمارا دل بہلا رہاہے ۔ابھی پچھلے دنوں ہی وزیر اعظم کے ترجمان خصوصی نے ایک مرتبہ پھراپنی زہرافشانی سے بخوبی سب کے دل دکھائے۔ پہلے تو موصوف نے پریس کانفرنس کے دوران سوال کرنے والے ایک میڈیا پرسن کے ساتھ نازیبا رویہ اختیار کیا۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر سوال کرنے والے میڈیا پرسن کو اپنے قریب بلا کر اس قدر گھٹیا بات کی کہ سننے والوں غیرمتعلقہ افراد کو شرم آگئی۔ جواب میں جب ری ایکشن آیا تو موصوف گاڑی کے اندر گھس کر منمناتے رہے۔معاملے کی بابت جان کر کافی پریشانی تو ہوئی‘ لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لی کہ موصوف نے کون سا پہلی مرتبہ یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ جب تک پنجاب میں رہے تب تک بھی یہی سب کچھ کرتے رہتے تھے۔ان سطور کی تحریر کے دوران ہی جناب ِشیخ رشید کی پریس کانفرنس بھی چل رہی تھی۔ پریس کانفرنس میں وہ ایک مرتبہ پھر اُنہیں کے لتے لیتے سنائی دے رہے تھے‘ جن کے کبھی وہ آگے پیچھے بچھا کرتے تھے۔ موصوف نے تازہ ترین انکشاف کردیا کہ نیب کے چھاپے کے دوران شہباز شریف اپنی رہائش گاہ کے پچھلے کمرے میں چھپے ہوئے تھے۔ حسب ِ روایت کچھ مزید لاحاصل اور بے معنی سی باتیں بھی کیں ۔ ایسی باتیں جن کا کوئی سر نہ پیر ہو‘ ضرورنمایاں جگہ حاصل کرلیتی ہیں۔ باتیں کرنے سے پہلے بندہ سوچ ہی لیتا ہے کہ جن ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے اُنہیں وزیربنایا گیا ہے ‘ پہلے اُنہیں تو پورا کرلیں ‘پھر دوسروں کے لتے بھی لے لیں۔خیر ‘یہ سب کچھ چلتا رہے گا ۔ بس‘ ہم نے گھبرانانہیں!
یوں توگھبرانے کی اب کوئی بات رہی بھی نہیں۔ بس پہلے پہل تھوڑی بہت پریشانی ہوا کرتی تھی کہ جب انسان کچھ کرنے کے لائق نہیں ہوتا تو پھر اتنی بڑی بڑی باتیں کرتا ہی کیوں ہے۔ اب سب ٹھیک ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے لیے تو حکومت نے دن رات ایک کرہی رکھا ہے‘ اس کے ساتھ ہی بس ذرا یہ ٹڈی دل کا مسئلہ بھی حل ہوجائے تو پھر راوی چین ہی چین لکھنے لگے گا۔ اس معاملے پر کاشتکاربلاوجہ کچھ زیادہ ہی گھبرائے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ یقینا وہ نہیں جانتے کہ حکومت تمام معاملات کا بھرپور نوٹس لے رہی ہے اور ٹڈی دل والے مسئلے کا بھی اعلیٰ سطح پر نوٹس لیا جاچکا۔ کاشتکار تو یوں ہی آسمان سر پر اُٹھائے ہوئے ہیں‘ جو ڈھولوں کے ساتھ ٹڈیوں کو بھگانے کی سعی کررہے ہیں۔ اُنہیں تھوڑا سا انتظار کرنا چاہیے کہ حکومت نے ٹڈیوں کو بھگانے کے بھرپور انتظامات کررکھے ہیں۔ جب بار بار یہ تلقین کی جارہی ہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں تو پھر بھلا گھبرانے کی کون سی بات ہے؟ بہت جلد ہم دیکھیں گے کہ چینی چور سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ ایک کروڑ نوکریاں وٹ پر پڑی ہوں گی۔ پچاس لاکھ گھر تعمیر ہوچکے ہوں گے۔ معیشت کا پہیہ رواں ہوچکا ہو گا۔ آٹھ ‘ دس ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا ہوچکا ہوگا۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہوں گے۔ ہرطرف انصاف کا بول بالا ہوگا۔ دادا جان کے دائر کردہ کیس کا فیصلہ پوتے کو نہیں سننا پڑے گا۔بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوچکے ہوں گے۔ دوسرے ممالک سے نوکریوں کی تلاش میں آنے والوں کا تانتا بندھا ہوگا ۔ پاکستان کے پاسپورٹ کی عزت پوری طرح سے بحال ہوچکی ہوگی۔ بس ‘اگر بچے رہے تو تھوڑا سا حوصلہ رکھیے گا‘ عوام کی جیبوں سے دو سو ارب روپے سالانہ نکلوانے والے نجی بجلی گھروں کا احتساب بھی مکمل ہوجائے گا۔ ماضی کے حکمران پروٹوکول کے دلداہ ہوچکے تھے‘ وہ سب سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا۔ 
حکومت اور اس میں شامل وزرا اور مشیروں کی فوج ظفر موج نے تمام حکمت ِعملی مرتب کرلی ہے۔ بس ‘ہم نے گھبرانا نہیں ! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں