"FBC" (space) message & send to 7575

یا اللہ رحم!

ابھی اسلام آباد میں 22سالہ نوجوان اسامہ ستی کے بہیمانہ قتل پر دل خون کے آنسو رو رہا تھا کہ مچھ سے انتہائی دلخراش خبر سامنے آگئی۔یہ علاقہ کوئٹہ سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر درہ بولان میں واقع ہے ۔ انتہائی دشوار گزار علاقے میں کوئلے کی کافی کانیں موجود ہیں جہاں بڑی تعداد میں کان کن کام کرتے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق‘ اِس علاقے میں کوئلے کی 55کے قریب کانیں ہیں جہاں لگ بھگ17ہزار کان کن، اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر روزی روٹی کماتے ہیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بدقسمت اِسی علاقے میں کوئلے کی کانوں میں کام کرکے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پال رہے تھے۔ یہ علاقہ کافی عرصے سے گڑ بڑ کا شکار ہے لیکن اتنی بڑی واردات پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ درجن کے قریب بے گناہوں کو انتہائی بے دردی سے ہاتھ پاؤں باندھ کر قتل کردیا گیا۔ اُنہیں تو خود بھی معلوم نہیں ہوگا کہ اُن کا قصور کیا ہے۔ بس قاتل آئے، مقتولین کو یرغمال بنایا ، ہاتھ پاؤں باندھے اور پہاڑوں پر لے جا کر قتل کردیا۔
اس انتہائی اندوہناک واقعے کے بعد بیان بازی کا وہ خود کار نظام پھر سے کام کرنے لگا جو ایسے کسی بھی موقع پر ''آن‘‘ ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کی طرف سے بیان سامنے آیا کہ یہ دہشت گردوں کی انتہائی بزدلانہ اور سفاک کارروائی ہے،اُنہوں نے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کردی ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال کی طرف سے بھی کچھ ایسے ہی ارشادات سامنے آئے ہیں۔ حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی صاحب نے فرمایا کہ یہ سی پیک کے مخالفین کی کارستانی ہے۔ ترجمان کے مطابق یہ اُن قوتوں کا کیا دھرا ہے جو نہیں چاہتیں کہ بلوچستان ترقی کی راہ پر گامز ن ہو۔ اُنہوں نے حسبِ روایت اِس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ ذمہ داران کو کیفرِکردار تک پہنچایا جائے گا۔ نئی نئی وزارتِ داخلہ سنبھالنے والے شیخ رشید صاحب نے بھی اِس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے فوری طور پر رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اِسی طرح دامے درمے قدمے سخنے دیگر رہنماؤں نے بھی اِس اندوہناک واقعہ کی شدید مذمت کی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ذمہ داران کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔گویا ماضی میں اس طرح کے متعدد مواقع پر جو بیانات سامنے آئے‘ اب بھی ویسے ہی بیانات سامنے آ رہے ہیں۔
یہ سلسلہ کوئی آج سے نہیں بلکہ 1999ء سے جاری ہے۔ کم و بیش ایک ہی نوعیت کے واقعات اور ایک ہی نوعیت کے بیانات۔ پاکستان انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ میرے سامنے پڑی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایسے واقعات میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران تقریبا 5سو افراد جاں بحق اور 6سو کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔ کیا جب یہ تمام واقعات رونما ہوئے ہوں گے تو تب ایسے بیانات سامنے نہیں آئے ہوں گے؟یقینا یہی سب کچھ پہلے بھی کہا جاتا رہا ہوگا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ مرنے والوں کے لواحقین کے لیے اب ایسے بیانات کی کیا اہمیت اور حیثیت باقی رہ گئی ہے؟صرف یہ قرار دے دینا کہ یہ ملک دشمنوں کی کارروائی ہے یا یہ کہ کسی کو امن و امان خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ کیا ایسے بیانات مرنے والوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہیں؟اِس کا سیدھا سادہ جواب تو نفی میں ہی دیا جاسکتا ہے۔ ایسے واقعات کے خلاف مردوخواتین دھرنے بھی دیتے رہے ہیں ، اُنہیں انتہائی اعلیٰ حکومتی سطح سے تحفظ کی یقین دہانیاں بھی کرائی جاتی رہی ہیں لیکن عملی طور پر صورت حال جوں کی توں دکھائی دیتی ہے۔ کیا کسی کو یقین ہے کہ حالیہ واقعہ پر سامنے آنے والے بیانات حقیقت کا روپ دھار سکیں گے؟شاید بہت کم احباب کو یقین ہوگا کہ عملی طور پر بھی صورتِ حال میں کوئی بہتری آئے گی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے ہمارے سکیورٹی ادروں اور عوام نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں لیکن اِس کے باوجود ایسے واقعات کا رونما ہونا انتہائی افسوس ناک ہے۔ 
مان لیا کہ یہ واقعہ ملک دشمنوں کی کارستانی ہے جو ملک کو غیرمستحکم کرنا چاہتے ہیں‘ جنہیں بلوچستان کی ترقی ہضم نہیں ہورہی لیکن وفاقی دارالحکومت میں 22سالہ نوجوان کے قتل کو کیا نام دیا جائے گا؟حسبِ روایت پہلے اِس واقعہ کو ڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی لیکن جلد ہی اِس غلطی کو تسلیم کر لیا گیا، اور کہا گیا کہ یہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کی غلطی تھی جو ایک بائیس سالہ نوجوان کی جان لے گئی۔ اپنی سائیڈ کسی حد تک سیف کرنے کے لیے پولیس اسامہ کے خلاف دومقدمات کا ریکارڈ بھی سامنے لے آئی ۔ یہ تسلیم کر لینے کے باوجود کہ اسامہ کے خلاف ماضی میں دوپرچے درج ہوچکے ہیں‘ کیا یہ مقدمات اس بہیمانہ قتل کا جواز فراہم کر سکتے ہیں؟ یقینا اِس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو وہ والدین ہی جانتے ہوں گے کہ جواں سال بیٹے کے قتل پر اُن کے دلوں پر کیا بیت رہی ہوگی۔ دوسری طرف آپ اِس واقعہ پر سامنے آنے والے بیانات کا بھی ایک جائزہ لے لیں۔ وہی بلند بانگ دعوے جو سانحہ ساہیوال کے بعد سامنے آئے تھے۔ دو وفاقی وزرا کی اسمبلی میں کی جانے والی تقریریں تو ہمیں جیسے ازبر ہوچکی ہیں۔ دونوں احباب نے جس طرح آستینیں چڑھا کر قومی اسمبلی میں تقاریر کیں، اُس سے یوں محسوس ہورہا تھا کہ سانحہ ساہیوال کے ذمہ دار کسی صورت سزا سے نہیں بچ سکیں گے‘ اِنہیں اُن کے کیے کی سزا مل کر رہے گی۔ اس وقت کے داخلہ امور کے ذمہ دار وزیر صاحب نے اعلان کیا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا انتظار ہے‘ جب رپورٹ آئے گی تو دنیا دیکھے گی کہ ذمہ داروں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، انہیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا۔ اِسی طرح دوسرے وزیر صاحب نے اُن لوگوں کے بھی خوب لتے لیے تھے جو بقول اُن کے‘ سانحہ ساہیوال پر سیاست کررہے تھے۔ معلوم نہیں بعد میں وہ خاموشی کا شکار کیوں ہو گئے۔
یہ تو حالیہ دوواقعات ہیں‘ ورنہ تو ماضی میں پیش آنے والے ایسے واقعات پر بھی صورتِ حال کم و بیش ایسی ہی دکھائی دیتی تھی۔ بیانات دینے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ اپنے دعووں پر پورا نہ اُترناسننے والوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ وطن عزیز میں تو یوں بھی اعتماد کا اتنا فقدان ہے کہ ایک ہاتھ دوسرے پر یقین کرنے کوتیاردکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے موجودہ وزیرداخلہ جو ماضی میں بات بات پر اُس وقت کی حکومت سے استعفیٰ مانگا کرتے تھے، آج مچھ واقعے پر مذمت کرکے چپ بیٹھ گئے ہیں۔اِس سے پہلے اُن کی وزارتِ ریلوے کے دوران بھی متعدد حادثات رونما ہوئے لیکن مجال ہے جوکبھی اُنہوں نے ذمہ داری لینے کی بات کی ہو۔ شاید ہمارے بس میں اِس سے زیادہ کچھ ہے ہی نہیں کہ کسی بھی واقعہ پر وقتی بیان بازی سے وقت گزارا جائے۔ذرا یاد کیجئے کہ سانحہ موٹروے پر کتنا شور اُٹھا تھا‘ ملزم کے اہلِ خانہ کو غیرقانونی طور پر حراست میں رکھ کر پولیس ملزم کو گرفتار کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی لیکن ابھی تک مقدمے کا چالان عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکا۔ 
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے دلخراش واقعات اتنی کثرت اور سرعت سے وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ آج کی بات کل پرانی لگنے لگتی ہے۔ اب اسامہ ستی کے واقعے کوبھی ٹیسٹ کیس بنانے کے دعوے سامنے آرہے ہیں لیکن دعوے کرنے والوں کو خود بھی یقین نہیں کہ اِن دعووں کی کوئی عملی تعبیر بھی سامنے آسکے گی یا نہیں۔ کل تک جو احباب سانحہ ساہیوال پر بلند بانگ دعوے کرتے رہے‘ آج وہی اسامہ ستی کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے اور ویسے ہی بیانات دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اِس کیس کا آگے چل کر کیا بنے گا‘ اِس کا ایک اندازہ تو ذمہ دار اہلکاروں کو ہتھکڑیوں کے بغیر عدالت میں پیش کرنے سے ہی ہوگیا ہے۔ باقی اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا کاراستہ تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں