"FBC" (space) message & send to 7575

درست اُردو ترجمہ درکار ہے

بنام تمام عوام،گزارش ہے کہ زیر دستخطی اِس وقت سخت مشکل میں گرفتار ہے کیونکہ اُس کی تمام خواہشات ایک کے بعد ایک دم توڑتی جا رہی ہیں۔ جناب عالی! ایک طویل عرصے سے سن رہے تھے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے‘ ہمارے وزیراعظم صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے اِس حوالے سے بہت کچھ کہتے رہے ہیں۔ زیر دستخطی نے ان بیانات کی بنیاد پراچھی خاصی اُمیدیں وابستہ کر لی تھیں کہ جیسے ہی یہ اقتدار میں آئیں گے تو سب سے پہلے کرپشن کا قلع قمع کریں گے؛ تاہم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے بعد فدوی سخت پریشان ہے کہ کرپشن کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہے۔ 2020ء کے حوالے سے ایجنسی کی نئی رپورٹ احقر کے سامنے پڑی ہے جس میں کرپشن کے حوالے سے انتہائی افسوس ناک حقائق سامنے لائے گئے ہیں۔ جناب عالی! رپورٹ بتاتی ہے کہ 2019ء کے مقابلے میں 2020ء کے دوران ہمارے ملک کی کرپشن کی عالمی فہرست میں چار درجے تنزلی ہو گئی ہے۔ 180 ممالک کی فہرست میں ایک سال پہلے تک ہمارا نمبر 120 تھا لیکن چار درجوں کی تنزلی کے بعد اب ہم 124ویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ دکھ تو اِس بات کا بھی ہے کہ ہمارے خطے کے دوسرے ممالک ایران، بھارت اور نیپال کی ریٹنگ میں صرف ایک ایک درجے کی کمی ہوئی ہے لیکن ہم چار درجے نیچے چلے گئے ہیں ۔رُول آف لا اور ورائٹی آف ڈیمو کریسی کے شعبوں میں بھی ہماری کارکردگی کا جو پردہ فاش کیا گیا ہے‘ اس پر ہاتھ سیدھا کلیجے پر پڑا ہے۔ اِس سے بھی زیادہ افسوس اِس بات کا ہے کہ دہائیوں سے جنگ کی لپیٹ میں آئے ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں بھی کرپشن میں کمی آئی ہے جس کے بعد وہ تین درجے اوپر چلا گیا ہے۔ افسوس کہ نیوزی لینڈ اور ڈنمارک جیسے ممالک کرپشن کے حوالے سے بالکل صاف اور شفاف قرار پائے ہیں۔ ہمیں اُمید تھی کہ ''صاف چلی شفاف چلی‘‘ کے نعرے سے حکومت میں آنے والی جماعت کے برسر اقتدار آنے کے نتیجے میں ہمارے ملک میں کرپشن کم ہوگی لیکن زیر دستخطی کی تمام اُمیدیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ نے خاک میں ملا دی ہیں۔
جناب عالی! دل میں یہ خدشات بھی جڑ پکڑتے جا رہے ہیں کہ یہ جو احتسابی اداروں کی جانب سے دن رات کرپشن کے خلاف لازوال کارروائیاں انجام دینے کی خبریں آ رہی ہیں کہیں اُن میں بھی تو غلط بیانی سے کام نہیں لیا جا رہا؟ خدانخواستہ یہ بات سچ ثابت ہوئی تو رہی سہی اُمیدیں بھی دم توڑ جائیں گی۔ ہمیں اِس بات کا یقین ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بدعنوانوں سے 3 کھرب روپے کی ریکوری کی ہے جبکہ نیب نے 3 کھرب 63 ارب روپے کی بڑی ریکوریاں کی ہیں لیکن ان حالات میں ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ سے ہمارے یقین کو ٹھیس پہنچی ہے کہ اگر بدعنوانوں کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے تو پھر ہماری رینکنگ میں بہتری آنا چاہیے تھی۔ یہ بھی خبر آج پڑھنے کو ملی کہ براڈ شیٹ کو اس قدر عجلت میں جو ادائیگی کی گئی ہے اس سے ملکی خزانے کو 69 کروڑ روپے کا چونا لگ گیا ہے۔ جلدی جلدی میں وِد ہولڈنگ ٹیکس کاٹے بغیر ہی براڈ شیٹ کو ادائیگی کر دی گئی جس پر ایف بی آر کی طرف سے متعلقہ محکمے کو نوٹس بھی بھیجا گیا ہے۔
جناب زیردستخطی کو اُمید واثق تھی کہ نئی پارٹی کی اقتدار میں آنے کے بعد کرپٹ مافیاز کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا لیکن براڈ شیٹ معاملے نے تو نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ ایک رازدار نے ہمیں اِس بات سے آگاہ کیا ہے کہ ایک مرحلے پر براڈ شیٹ کو پانچ لاکھ پونڈ کی ادائیگی بھی کی گئی تھی، وہ پانچ لاکھ پونڈ بھی کھوہ کھاتے میں گئے، اس معاملے میں تو ایسے ایسے نام سامنے آ رہے ہیں جن کا ذکر کرنے کا تصورکرتے ہوئے بھی پر جل رہے ہیں۔ مختصراً یوں جان لیجئے کہ کرپٹ عناصر سے رقم نکلوانے کے ایسے ایسے خواب دکھائے گئے کہ سب اپنی ذمہ داریاں بھول گئے۔ یوں بھی جب کھیل کروڑوں اربوں روپے کا ہوجائے تو ذمہ داریوں کی انجام دہی کہاں یاد رہتی ہے۔ اِسی فراموشی میں براڈ شیٹ کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے معاہدے میں یہ شق بھی شامل کر لی گئی کہ ناجائز اثاثوں کا محض پتا لگایا جائے یا ریکوری کی جائے، یہ کام براڈ شیٹ کرے یا پاکستانی ادارے انجام دیں، براڈ شیٹ کو بہر صورت 20 فیصد کی ادائیگی کی جائے گی۔ یہ شق ایسی گلے پڑی کہ 450 ارب روپے کی ادائیگی کرتے ہی بنی۔ مذکورہ معاہدے میں یہ شق بھی نہایت حیران کن ہے کہ اگر معاہدہ ختم بھی ہو جائے تب بھی کمپنی کا تفتیش اور کمیشن کا استحقاق برقرار رہے گا۔ دیگر شقیں بھی ایسی ہی ہیں، یہاں مجھ جیسا ایک عام پاکستانی یہ سوال کرنا چاہتا ہے کہ کیا معاہدہ کرنے والے اتنے ہی بے خبر تھے کہ اُنہیں کچھ اندازہ نہ ہو سکا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ اب جسٹس عظمت سعید صاحب کو اِس تمام معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ایک کمیشن کا سربراہ تعینات کیا جا ہا ہے؛ تاہم اُن کی تعیناتی پر پہلے ہی ایک غلغلہ مچ چکا ہے اور اپوزیشن اُنہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ براڈ شیٹ کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ ملائیشیا سے پی آئی اے کے مسافروں سے بھرے طیارے کے روکے جانے کی اطلاع موصول ہو گئی۔ خیر اب 70 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کے بعد طیارے کو چھڑا یا جا چکا ہے لیکن وہ کون لوگ تھے جنہوں نے طیارے کو ایسے ملک میں بھیجا جہاں اس کی ضبطی کا عدالتی فیصلہ آ چکا تھا؟
فدوی معافی چاہتا ہے کہ بات تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بارے میں ہورہی تھی لیکن درمیان میں براڈ شیٹ اور طیارے کا معاملہ آ گیا۔ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ پر اپوزیشن کی تو باچھیں کھل گئی ہیںاور اس کی طرف سے حکومت کے خوب لتے لیے جارہے ہیں۔ اب تک اپوزیشن رہنما دن رات چور چور کی گردان سن رہے تھے‘ اب ایک موقع اُن کے ہاتھ لگا ہے۔ اس وقت مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے اسی لیے بدعنوانی نے اپنے پنجے مزید مضبوط کرلیے ہیں؛ تاہم اِس رپورٹ پر وزیراعظم سمیت حکومتی ذمہ داران کھل کر میدان میں اُتر آئے ہیں۔ اُن کی طرف سے ایک مشترکہ بیانیہ سامنے آیا ہے کہ رپورٹ کا اُردو ترجمہ سامنے آلینے دیںپھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے کا ڈیٹا اکٹھا کرکے رپورٹ مرتب کی ہے۔ صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان صاحب کی طرف سے واضح طور پر قرار دیا گیا ہے کہ رپورٹ میں موجودہ حکومت کی تعریف کی گئی ہے۔ محترم شہباز گل صاحب نے کہا ہے کہ اصل میں تو رپورٹ نے اپوزیشن والوں کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے‘ یہ تو اِنہیں انگلش میں لکھی گئی رپورٹ کی سمجھ نہیں آرہی ، اِس لیے یہ خوش ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کی طرف سے بھی کچھ ایسے ہی بیانات سامنے آئے ہیں۔
جناب عالی! زیردستخطی اِس تمام صورت حال سے سخت پریشانی میں مبتلا ہے کہ خدا جانے رپورٹ میں کیا لکھا ہے اور ہم کیا سمجھ رہے ہیں۔ اِس تناظر میں درخواست گزار کو انگلش سے اُردو میں ترجمہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ماہرین کی خدمات درکار ہیں۔ اس صورتِ حال میں لازم ہے کہ رپورٹ کا درست اُردو ترجمہ کیا جائے تاکہ ہم جیسے نالائقوں کے پلے بھی کچھ پڑ سکے۔
آپ کا خادم...ایک بے نوا شہری

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں