"FBC" (space) message & send to 7575

انگریز جج کے ریمارکس اور ہماری سیاست

1925ء میں لاہور ہائیکورٹ کے ایک انگریز جج نے اپنے ایک فیصلے میں یہ ریمارکس لکھے تھے کہ یہاں کے لوگوں کے نزعی بیان پر بھی یقین نہ کیا جائے کہ یہ مرتے ہوئے بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے۔ یہ ایسا خطہ ہے جہاں نزعی بیان میں بھی دشمنی کا حساب کتاب برابر کیا جاتا ہے اور مخالفین کے پورے پورے خاندانوں کو مقدمات میں نامزد کردیا جاتا ہے، یہاں پہلا ڈاکا ڈکیت ڈالتے ہیںاوراِسی کے تسلسل میں دوسرا ڈاکا مدعی پولیس کے ساتھ مل کر ڈال لیتا ہے، مدعی کے ساتھ مل کر پہلے ملزمان کو نامزد کیاجا تا ہے اور پھر چھاپہ مار کر مال مسروقہ برآمد کیا جاتا ہے جس کے بعد مدعی سے تصدیق کرالی جاتی ہے کہ یہ مال اُسی کا ہے۔ جس انگریز جج کے ریمارکس کا حوالہ دیا گیا ہے‘ آئیے کچھ اُس کا پس منظر بھی جان لیتے ہیں۔
ایسے افراد جو عمر کے آخری حصے میں کمزوری یا بیماری کی وجہ سے ہلنے جلنے سے بھی قاصر ہو جاتے ہیں‘ اُن کی چارپائی کی رسیاں مخصوص جگہ سے کاٹ دی جاتی ہیں۔ اِس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص چارپائی پر لیٹے لیٹے ہی حوائج ضروریہ سے فراغت حاصل کر لے۔ اندازہ لگا لیجئے کہ ایسے شخص کے لیے یہ صورت حال کتنی تکلیف دہ ہوتی ہوگی۔ ایک طرف موت کا خوف اور دوسری طرف ہر وقت گندگی میں لتھڑے رہنا۔ گویا یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کو سوائے اپنی عاقبت کے کسی اور چیز کے بارے میں کوئی فکر ہوتی ہے نہ کوئی مادی سوچ ذہن میں اپنی جگہ بنا پاتی ہے۔ تو قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک گاؤں میں ایسے ہی ایک شخص کی چارپائی کی رسیاں کاٹ دی گئی تھیں جس کے بعد اُس کے لیے صرف موت کا انتظار کرنا ہی باقی رہ گیا تھا۔ ایک روز اُس نے اپنے بچوں کو اپنے پاس بلایا اور اُن سے کہا کہ اب میری زندگی کی کوئی اُمید تو باقی رہی نہیں، تم بندوق اُٹھاؤ اور مجھے گولی مار کر اِس کا الزام اپنے مخالفین پر دھر دو۔ بچوں نے پہلے تو کچھ رد و قدح سے کام لیا لیکن بالآخر اپنے باپ کے کہے پر عمل کرتے ہوئے باپ کو مار کر اس کی لاش مخالفین کی زمینوں میں پھینک دی۔ پولیس آئی مخالفین گرفتار ہو کر سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے۔ ہوتے ہوتے یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں جا پہنچا ۔ عدالت کے حکم پر معاملے کی نئے سرے سے تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اُس روز تو ملزمان گاؤں میں موجود ہی نہیں تھے۔ اِسی تحقیقات کے نتیجے میں انگریز جج نے ملزمان کی رہائی کا حکم دینے کے ساتھ یہ ریمارکس بھی دیے کہ اب کسی کے نزعی بیان پر بھی اعتبار نہ کیا جائے۔
1925ء تک تو یہ بات شاید مخصوص علاقے تک ہی محدود ہو لیکن اب اِس دائرہ کار بہت وسیع ہو چکا ہے۔ جھوٹی قسمیں کھانا اور جھوٹے حلف اُٹھانا تو اب بہت سی صورتوں میں معمول کی بات بن چکی ہے۔ اِس گندگی میں ایک اضافہ حال میں سامنے آنے والی صوبائی اراکین اسمبلی کی ایک وڈیو کی صورت ہوا ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ اراکین اسمبلی کی خرید وفروخت کا بازار تو ہمیشہ سے سجتا آیا ہے۔ اراکین کا اِدھر سے اُدھر ہو جانا بھی معمول کی بات ہے لیکن جس بات نے روح تک پر تازیانے برسائے ہیں وہ کچھ اور ہے۔ اندازہ کیجئے کہ وڈیو میں دکھائی دینے والے ایک صاحب نے 2018ء میں قران اُٹھا کر قسم کھائی تھی کہ اُنہوں نے کسی سے کوئی رقم وصول نہیں کی۔ 2018ء میں کچھ اراکین کی خرید وفروخت کی باتوں کے دوران مذکورہ رکن اسمبلی کا نام بھی لیا گیا تھا۔ اُنہوں نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے پریس کانفرنس کی اور اُس میں قران سر پر رکھ کر قسم کھائی کہ وہ پیسوں کے لین دین کے کسی معاملے میں ملوث نہیں۔ اپنی بے گناہی ثابت کرتے ہوئے اُن کی گلوگیر آواز سن اورروتی ہوئی شکل دیکھ کر کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اب وڈیو سامنے آئی ہے تو اِن صاحب کے سامنے بھی نوٹوں کی گڈیوں کے انبار لگے ہوئے واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ معاملہ تب سامنے آیا جب پاکستان تحریک انصاف مطلوبہ ووٹ پورے ہونے کے باوجود اپنے دو سینیٹرز منتخب نہیں کرا پائی تھی۔ دوسری طرف مطلوبہ ووٹ نہ ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی اپنے اُمیدوار کامیاب کرانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اِس معاملے کی تحقیقات ہوئیں جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی نے اپنے متعدد اراکین کی بنیادی پارٹی رکنیت ختم کر دی تھی لیکن پھر حسب روایت بات آئی گئی ہو گئی۔
وڈیو میں دکھائی دینے والی ایک شخصیت نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ یہ رقم پی ٹی آئی کے تب کے وزیراعلیٰ اور سپیکر کے حکم پر سپیکر چیمبر میں تقسیم کی گئی تھی۔ اب دونوں شخصیات کی طرف سے مسلسل اِس الزام کی تردید سامنے آ رہی ہے۔ بات یہیں تک محدود نہیں، اِس تصویر کا ایک اور رخ بھی دیکھ لیجئے۔ 2018ء میں پیسے لینے دینے کی باتیں سامنے آئیں تو تب ہمارے وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا تھا کہ اُن کے پاس ایسی وڈیوز موجود ہیں جن سے اراکین اسمبلی کی خرید وفروخت ثابت ہوتی ہے۔ یہ بات اُنہوں نے درجنوں بار کی تھی جس کے لیے اُنہوں پیپلز پارٹی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اب وڈیو سامنے آنے کے بعد وہ واضح طور پر اِس بات سے انکارکر رہے ہیں کہ اُنہیں ایسی کسی بھی وڈیو کی بابت علم تھا۔ اب سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈز کے ذریعے کرانے کا ڈول ڈالا جا رہا ہے تو اِسی موقف کو مزید مضبوطی فراہم کرنے کے لیے وڈیو ریلیز کر دی گئی ہے۔ یقینا اِس سے حکومت کا یہ موقف مضبوط ہو گا کہ اراکین کی خرید وفروخت روکنے کا واحد راستہ شو آف ہینڈز کے ذریعے ووٹنگ ہے۔ اب اگرچہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کا صدارتی آرڈیننس تو جاری ہو چکا لیکن اِسے سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کر دیا گیا ہے۔
اب جو بھی فیصلہ سامنے آتا ہے ، ظاہر ہے اُس پر عمل درآمد کرنا ہی ہو گا لیکن دیکھئے تو کہ کیسا کیسا گند اُچھل رہا ہے۔ مان لیا کہ اپوزیشن اِس کاروبار کو جاری رکھنا چاہتی ہے ۔ یہ بھی تسلیم کہ حکومت تمام معاملات کو صاف اور شفاف بنانا چاہتی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو احسن بات یہ بھی ہو گی کہ موجودہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا معاملہ بھی واضح کر دیا جائے۔ 2019ء میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد تین ووٹوں سے ناکام ہو گئی تھی۔ راجا ظفر الحق نے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تو اپوزیشن کے 64 اراکین نے کھڑے ہو کر اِس تحریک کی تائید کی مگر جب خفیہ رائے شماری ہوئی تو تحریک کے حق میں صرف 50 ووٹ آئے جبکہ کامیابی کے لیے 53 ووٹ درکار تھے۔ تب حکومت کی طرف سے اِس پر بڑے شادیانے بجائے گئے تھے۔ تب قرار دیا گیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے خلاف ووٹ دینے والے اراکین اپوزیشن نے اصل میں یہ سب کچھ ایوان کا وقار بلند رکھنے کے لیے کیا۔ اب اِس سازش کو کیسے ناکام بنایا گیا، اُس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اب اِس معاملے کی دوسری قسط سامنے آئی ہے تو سب نے ایک مرتبہ پھر اپنا اپنا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔ حسب دستور ہرکوئی شدومد سے اپنی اپنی بے گناہی ثابت کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب ہم واپس لوٹنے کے مقام سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ماضی کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ 2018ء میں اپنے ووٹ فروخت کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جاتا۔ چلیں تب نہیں تو اب تو سب کچھ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکا‘ پھر دیر کس بات کی ہے؟ اِس کے ساتھ ساتھ اگر 2019ء میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر بھی حقیقت واضح کر دی جائے تو حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا، لیکن... ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ حکومت ہو، اپوزیشن ہو یا پھر عام آدمی، بیشتر صورتوں میں ہم سب کی چارپائی کی رسیاں کٹ چکی ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ حالات میں بہتری کا کوئی حل بھی نظر نہیں آ رہا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں