"FBC" (space) message & send to 7575

سابق پھر سابق ہونے والے ہیں؟

چار سال پورے ہونے کو آئے ہیں لیکن سابق‘ سابق کی رٹ ختم نہ ہوسکی۔ تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں مکمل ہوچکیں لیکن سابق‘ سابق کی رٹ بدستور جاری ہے۔اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ شاید سابق ایک مرتبہ پھر سابق ہونے والے ہیں۔بات آگے بڑھانے سے پہلے مختصراً جان لیتے ہیں کہ یہ سابق ہیں کون جنہیں موجودہ حکومت کی طرف سے ہرمعاملے میں موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔ان سابقین میں سے ایک تو ہمارے موجودہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ہیں۔ ایک غیر جمہوری دور میں سیاست کا آغاز کرنے والے شاہ صاحب ایک وقت میں نواز شریف کی کابینہ میں بھی وزیر رہے اور بعد میں پیپلزپارٹی کی حکومت میں وزارت خارجہ کا لطف اٹھاتے رہے۔ اب وہ تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وزیرخارجہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ موجودہ وزیرہوابازی غلام سرور خان متعدد بار پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں ۔ 2004ء میں شوکت عزیز کی کابینہ میں محنت اور افرادی قوت کی وزارت کے مزے بھی لوٹتے رہے اور اب ان کے بقول بھی ملک کی موجودہ حالت کے ذمہ دار سابق ہیں۔ وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری صاحب پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ میں شامل تھے جس کے بعد پیپلزپارٹی پر بہار آئی تو اُس کی شاخ پر جابیٹھے۔ اب موجودہ دورحکومت میں وہ وزارت کا لطف اُٹھا رہے ہیں لیکن ان کے بقول بھی قصور سارا ان سے پہلے والی مختلف حکومتوں میں رہنے والوں کا ہے۔ خسروبختیار اکنامک افیئرز کے وزیر ہیں‘ 1997ء میں یہ مسلم لیگ( ن) میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔2002ء میں یہ (ق )لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے اور پھر شوکت عزیز صاحب کی کابینہ میں وزیرمملکت برائے اُمور خارجہ رہے۔
خزاں کا موسم شروع ہوا تو 2013ء میں پھر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے میں ہی عافیت جانی ۔ جب محسوس ہوا کہ آئندہ باری تحریک انصاف کی ہے تو فورا ًاس میں شامل ہوگئے لیکن خیال ان کا بھی یہی ہے کہ سابق حکومتوں نے ملک کا ستیاناس کردیا ہے۔وفاقی وزیر برائے مذہبی اُمور نورالحق قادری صاحب‘ زرداری صاحب کے دور میں زکوٰۃ اور عشر کے وفاقی وزیر تھے۔ کچھ عرصے تک وہ وزیربے محکمہ بھی رہے لیکن آج اُن کے نزدیک بھی تمام خرابیوں کے ذمہ دار سابق حکمران ہی ہیں۔ عمرایوب صاحب بھی موجودہ حکومت کے ایک محنتی وزیر ہیں اور ملک وقوم کے مسائل پر ہمیشہ فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔ قوم کے لیے اُن کا دکھ ہمیشہ اُن کی باتوں سے جھلکتا رہتا ہے اور اسی دکھ کے ساتھ وہ سابقہ حکومتوں کا حصہ بھی رہے ہیں۔2002ء کے انتخابات میں (ق) لیگ کے ٹکٹ پر حصہ لیاجس کے بعد شوکت عزیز صاحب کی کابینہ میں وزیر مملکت رہے۔2012ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور 2018ء کے انتخابات سے چند ماہ پہلے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں تحریک انصاف کا حصہ بن گئے اور اب وزارت کا لطف اُٹھا رہے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ قوم کا یہ درد آئندہ اُنہیں کس جانب لے جائے گا۔سید فخر امام صاحب ہمارے ملک میں اصولوں کی سیاست کا استعارہ سمجھے جاتے ہیں۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں وفاقی وزیر بلدیات تھے۔ اسی دوران وہ یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں ملتان ضلع کونسل کا انتخاب ہارگئے جس پر اُنہوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ ایسے ہی کچھ معاملات پر سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے سے بھی مستعفی ہوچکے ہیں۔ نواز شریف کا دور آیا تو اُن کی اہلیہ محترمہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی رہیں ۔ اب وہ تحریک انصاف میں نیشنل فوڈسیکورٹی کے وزیر کی حیثیت سے ملک و قوم کی بھرپور خدمت کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ زبیدہ جلال صاحبہ‘فہمیدہ مرزا صاحبہ‘ فروغ نسیم وغیرہ بھی ملک و قوم کے مفاد میں مختلف حکومتوں کا حصہ رہے ہیں ۔
موجودہ وزیرداخلہ شیخ رشید صاحب کسی زمانے میں عمران خان صاحب پر تنقید کے نشتر چلایا کرتے تھے جس کے جواب میں عمران خان دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں شیخ رشید جیسوں سے محفوظ رکھے۔ بس یہ تو وقت وقت کی بات ہے کہ آج دونوں ایک دوسرے کا دست بازو بنے ہوئے ہیں۔ ایک کے بعد ایک وزارت کا لطف اُٹھا رہے ہیں۔ ہماری دلی دعائیں اُن کے ساتھ ہیں کہ وہ آئندہ حکومت کا حصہ بھی بنیں اور ملک و قوم کی خدمت کا فرض انجام دیتے رہیں۔ ایک نظر موجودہ وزیرداخلہ شیخ رشید صاحب کے سیاسی سفر پر بھی ڈال لیتے ۔میاں نواز شریف کے دور میں پہلے وزیراطلاعات و نشریات اور پھر وزیرصنعت وحرفت رہے۔ 2002ء میں پہلے وزیراطلاعات اور پھر وزیرریلوے کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ 2013ء میں بھی وزیرریلوے رہے ۔ آج اپنے کیرئیر کی 15 ویں وزارت کا لطف اُٹھانے والے شیخ صاحب کا بھی یہی خیال ہے کہ تمام خرابیوں کی جڑسابق حکمران ہیں۔موجودہ وفاقی وزیر اعظم سواتی صاحب جے یو آئی کی طرف سے پہلے یوسف رضاگیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں بھی وفاقی وزیر رہ چکے ہیں لیکن اب ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔ ان سب احباب کے نزدیک جانے والوں نے ملک کے مفاد میں کچھ ایسا نہیں کیا جسے بطور مثال پیش کیا جاسکے۔ بس موجودہ حکومت ہی تمام خوبیوں کی مالک ہے۔اب معلوم نہیں کہ حال والوں کی خوبیاں کب تک بیان کی جاتی رہیں گے کیونکہ حالات کسی اور ہی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اب جبکہ موجودہ حالات میں واضح طور پر ایک مرتبہ پھر یہ محسوس ہو نے لگا ہے کہ شاید ایک اور تبدیلی رونما ہونے جارہی ہے تو ساتھ ہی آشیانے تبدیل کرنے کا موسم بھی شروع ہوگیا ہے۔ یہ دیکھنا کافی دلچسپ رہے گا کہ شاید ان میں سے بہت سے احباب جلد ہی آئندہ حکومت میں شامل ہوکر ایک مرتبہ پھر ''سابقہ حکومتوں‘‘کے لتے لے رہے ہوں۔ تحریک عدم اعتماد تو پیش ہو چکی ۔ اس بات کے بھی بہت مضبوط اشارے مل رہے ہیں کہ کن قوتوں نے غیرجانبدرا رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس بات کا اظہار کئی ایک اپوزیشن رہنماؤں کی زبانی بھی سننے میں آرہا ہے کہ اس مرتبہ فون آرہے ہیں نہ کسی کو پریشرائزکیا جارہا ہے۔یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ تبدیلی کی ہوائیں زیادہ تیزرفتاری سے چلنا شروع ہوگئی ہیں۔یہ تقریبا ًطے ہوچکا ہے کہ آئندہ سیاسی عمل میں کوئی رخنہ نہیں ڈالا جائے گا کہ اسی شرط پر دوبڑی جماعتوں کے سربراہان نے سیاسی عمل آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اسی صورت حال کا نتیجہ رہا کہ حکومت سے باہر نکل کر زیادہ خطرناک ثابت ہونے کے دعوے کرنے والے اُن دروازوں کو بھی کھٹکھٹانے لگے ہیں جنہیں وہ کبھی سب سے زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا کرتے تھے۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کی بھی مختلف دوسری سیاسی جماعتوں سے رابطوں کی یقینی اطلاعات ہیں۔ ان تمام حالات میں یہی دکھائی دے رہا ہے کہ ممکنہ طور پر سابق ایک مرتبہ پھر سابق ہونے والے ہیں اور عین ممکن ہے کہ جلد ہی ان میں سے بہت سے احباب پیپلزپارٹی‘ (ن) لیگ یا پھر جے یوآئی میں شامل ہوکر جانے والوں کی خرابیاں بیان کرتے ہوئے دکھائی اور سنائی دیں گے۔ایک مرتبہ پھر یہی گردان شروع ہوجائے گی کہ ملک کی خراب صورت حال کے ذمہ دار جانے والے ہیں۔
یہی ہماری سیاست کا چلن رہا ہے اور بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ بھی یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ یہ صورت حال کوئی پہلی مرتبہ دیکھنے میں نہیں آرہی۔ یہاں تو ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک ہی رات میں پوری سیاسی جماعت کا صفایا ہو جاتا ہے اور راتوں رات نئی جماعت وجود میں آجاتی ہے۔ تفصیل پھر کسی وقت بیان کریں گے فی الحال تو آپ اس بات کا مزہ لیں کہ اب کے سابق پھر سابق ہوئے تو کس شاخ پر اپنا آشیانہ بنائیں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں