"FBC" (space) message & send to 7575

بددعائیں

جانے والو کسی طرح تو واپس آجاؤ‘ یاد رکھو اور اگر تمہاری واپسی نہ ہوئی تو تمہارے بچوں کے رشتے نہیں ہوں گے۔ آ پ جس جگہ جاؤ گے‘ لوگ آپ پر پھبتیاں کسیں گے۔ اور ہاں یہ جو تم نے ضمیر فروشی شروع کررکھی ہے‘یاد رکھو ایک دن تمہیں اس کا حساب دینا پڑے گا۔ یاد رکھو اگر مجھے نکال دیا گیا تو میں بہت زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا۔ واپس آجاؤ گے تو تمہارے تمام گناہ معاف کردوں گا۔ منحرف ہونے والے اراکین کومعلوم ہونا چاہیے کہ پارٹی سربراہ باپ کی طرح ہوتا ہے اس لیے اگر آپ لوگ واپس آجاؤ گے تو میں ایک باپ کی طرح آپ کو معاف کردوں گا۔ ڈاکو اور چور پیسوں کے ذریعے ہمارے اراکین کو خریدنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ عوام کا فرض ہے کہ وہ ان سودے بازیوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ منحرف اراکین میری بات مان لیںتواچھے رہیں گے ورنہ ہمیشہ کے لیے نااہل ہوجائیں گے۔ ضمیر بیچے جارہے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کررہا۔قوم فیصلہ کرے کہ حق و باطل کے معرکے میں وہ کس کے ساتھ ہے۔یہ فیصلہ کرتے ہوئے یاد رکھنا کہ غیرجانبدرا رہنے کی کوشش ہرگزمت کرنا کیوںکہ غیرجانبدار ہمیشہ جانور ہوتے ہیں۔ہاں حق و باطل کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بھی یاد رکھنا کہ حق میں ہوں اور باطل میری مخالف قوتیں ہیں۔اور یہ بھی بتاتا چلوں کہ کئی میڈیا ہاوسز میں باہر سے پیسہ آرہا ہے۔ سب کے سب چورڈاکو میرے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔میں ایم این ایز کو پیسے دے کر حکومت کرنے پر لعنت بھیجتا ہوں۔ چلو میری باتیں تسلیم نہیں کرتے تو اتنی بات ہی جان لو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہمیشہ اچھائی کا ساتھ دو۔ دیکھو ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے لیکن ملک دشمنوں کو ہماری ترقی ایک آنکھ نہیں بھا رہی ‘ اسی لیے وہ میرے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ضمیر کا سودا کرنے سے بہتر ہے کہ میں استعفیٰ ہی دے دوں۔ تین غلاموں نے بیرونی دنیا کے پاؤں پکڑ کر میرے خلاف جو سازش کی ہے وہ جلد ناکام ہونے والی ہے۔
آج کل تو اعلیٰ حکومتی سطح سے ایسی ہی باتیں سننے کو مل رہی ہیں لیکن کیا کیا جائے ایسی ہربات پر ماضی سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔بے ساختہ جہانگیر ترین کا طیارہ یاد آجاتا ہے جس میں بھر بھر کر اراکین لائے جاتے تھے۔ زیادہ تو نہیں بس 13اکتوبر2021ء کو لودھراں میں کی جانے والی جہانگیر ترین کی تقریر بھی کچھ کچھ یاد آرہی ہے۔ موصوف نے تب شاید پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیا تھا کہ 2018ء میں تحریک انصاف کو پنجاب میں جیت کے باوجود حکومت بنانے کے لیے چند نشستوں کی کمی کاسامنا تھا۔پی ٹی آئی کے پاس مسلم لیگ (ن)کے مقابلے میں آٹھ نشستیں کم تھیں جبکہ آزاد اراکین کی تعداد23تھی۔تب جہانگیر ترین کے طیارے نے اُڑان بھری اور سب کچھ بہتر ہوگیا۔ ایسی ہی باتیں مرکز میں حکومت بنانے کے تناظر میں بھی کی گئی تھیں۔ یادداشتوں میں وہ تصاویر بھی محفوط ہیں جن میں اراکینِ اسمبلی کو موصوف کے طیارے میں بیٹھے ہوئے دکھایا جاتا تھا تاکہ سند رہے۔ آج تک سمجھ میں یہ بات نہیں آسکی کہ ایک وقت میںایک عمل صحیح اور دوسرے وقت میں وہی عمل غلط کیسے ہوگیا ہے؟کچھ تو خیال کرنا چاہیے کہ خود کیا کرتے رہے ہیں اور اب کس طرح کے موقف پیش کر رہے ہیں۔ خود اراکین کی وفاداریاں خرید کر حکومت بنائی اور اب یہی عمل اُنہیں غلط دکھائی دے رہا ہے۔ اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں کہ وفاداریاں خریدنے والا عمل کسی بھی دور میں ہو‘ بالکل غلط ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے پیسہ‘ دھونس دھاندلی‘ٹیلیفون وغیرہ ہماری سیاست جزولاینفک بن چکے ہیں۔ اب شنید ہے کہ اس مرتبہ کسی خاص مقام سے ٹیلیفون موصول نہیں ہورہے جس بنا پر حکومت کو بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے اب دن رات اخلاقیات کے سبق دہرائے جارہے ہیں۔ عوام کو بتایا جارہا ہے کہ وفاداریاں تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے‘ اس کے لیے آواز اُٹھائی جائے۔ یہ یاد رکھنے کی بھی بار بار تلقین کی جارہی ہے کہ آوازیں بس حکومت اور تحریک انصاف کے حق میں ہونی چاہیں۔ اگر کہیں پیسوں کا کوئی عمل دخل ہے تو ایسا کرنے والوں کو سزاؤں سے بھی ڈرایا جارہا ہے۔ مطلب جہاں دل کیا اپنے مطلب کی تشریحات نکال لیں لیکن مجال ہے جو کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کی ہو۔
حصول اقتدار کے لیے ہروہ حربہ استعمال کیا گیا جوممکن ہوسکتا تھا۔ 2018ء کے دوران جس طرح مرکز اور پنجاب میں حکومتیں تشکیل دی گئی تھیں‘ اگر کسی کو یاد ہو کہ اس دوران کس اصول کی پاسداری کی گئی تھی تو براہ کرم ہمیں بھی آگاہ کردیا جائے۔ حکومت مل گئی تو اُس کے بعد ایسے ایسے کھیل کھیلے گئے کہ ساڑھے تین سال کے دوران کیا کرایا کچھ نہیں اور باتیں ہورہی ہیں ریاست مدینہ کی۔ معلوم نہیں کس طرح اتنی بڑی بڑی باتیں کی جارہی ہیں کہ جس پر سوائے حیرت کا اظہار کئے اور کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ خود پر پڑی ہے تواب کسی کو نہ چھوڑنے اور قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کی باتیں پس پردہ چلی گئی ہیں۔ آج کل قوم اور منحرف اراکین کو اخلاقیات سکھانے کی بھرپورکوششیں ہورہی ہیں۔ البتہ یہ کوششیں ذرا الگ انداز کی ہیں۔ ایک طرف منحرف اراکین کے گھروں کے باہر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف واپسی کی صورت میں اُنہیں معاف کردینے کے وعدے بھی کئے جارہے ہیں۔ آج دوسری جماعتوں سے لائے ہوئے لوگ واپس اپنی جماعتوں کی طرف جارہے ہیں تو اسے یکسر غلط قرار دیا جارہا ہے۔ آپ تو ویسے بھی ملکی تاریخ کی مقبول ترین حکومت کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کو تو فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ جیسے ہی انتخابات ہوں گے ایک مرتبہ پھر عوام آپ کو دل و جان سے ووٹ دیں گے۔پھر کیا ضرورت ہے کہ آپ ہر اُس شخص کوہدف تنقید بناتے رہیں جو آپ کا مخالف ہے۔کچھ ایسی باتیں بھی یاد آرہی ہیں کہ اگر چند سو لوگوں نے بھی کہہ دیا کہ آپ اقتدار چھوڑ دیں تو ایسی صورت میں اقتدار چھوڑنے میں کوئی توقف نہیںکیا جائے گا۔ اب اگر بقائے اقتدار کے لیے منتیں ترلے ہورہے ہیں تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ایسی باتیں بھی صرف سبز باغ دکھانے کے ہی مترادف تھیں۔
یاد رکھنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ یہ ہوہی نہیں سکتاآپ غلط بنیاد پر عمارت استوار کریں اور بعد میں اچھے انجام کی توقع رکھیں۔ وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب حکومتی کارکردگی کے حوالے سے بھی زیادہ کچھ پاس پلے نہ ہو۔ چلیں اگر حکومت مل ہی گئی تھی تو کوئی تو وعدہ پورا کردیا جاتا۔ جب ایسا کچھ نہیں ہوسکا تو آج یہ بھی قرار دیا جارہا ہے کہ بہت سے میڈیا ہاؤسز میں بیرونی ممالک سے پیسہ آرہا ہے۔ یہ اُس میڈیا کے بارے میں بات کی جارہی ہے جس نے موجودہ حکومت کو برسراقتدار لانے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے تھے۔ اب یہ الگ بات کہ برسراقتدار آنے کے بعد میڈیا پر پے درپے ایسے وارکئے گئے کہ سینکڑوں صحافیوں کو اپنے روزگارسے محروم ہونا پڑا۔آج جب میڈیا ان کی کارکردگی پر بات کرتا ہے تو انہیں بیرونی پیسہ نظر آرہا ہے۔ اب تو صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔بڑوں کی دیکھا دیکھی چھوٹے بھی ایک کے بعد ایک ایسے بیانات دے رہے ہیں کہ بے اختیار سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ آج اگر منحرف اراکین کے سماجی بائیکاٹ کی اپیلیں کی جارہی ہیں تو ان کا معاشرتی بائیکاٹ تب بھی ہونا چاہیے تھا جب یہ اپنی وفاداریاں تبدیل کرکے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ اگر تب ایسا نہیں ہوا تھا تو اب بھی ایسا نہیں ہوگا ۔ رہی بات عوام کی تو وہ بیچارے تو جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اتنا وقت کہاں ہے جو وہ سماجی بائیکاٹ کے جھمیلوں میں پڑتے پھریں۔باقی پانی سر سے گزرنے کے بعد آپ جتنی مرضی بددعائیں دیتے رہیں لیکن بات تو صرف عمل سے بنتی ہے۔ صرف بددعائیں دینے سے دشمن کی توپوں میںکیڑے نہیں پڑتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں