"FBC" (space) message & send to 7575

محترم ایاز امیر صاحب

ہمارا شمار بھی اُنہی بے شمار مداحین میں ہوتا ہے جنہیں شاید ایاز امیرصاحب اچھے سے جانتے بھی نہیں ہوں گے۔زمانۂ طالب علمی کے دوران انگریزی سیکھنے کا شوق چرایا تو ہمارے اُستاد محترم عمانوئیل یونس صاحب نے ایک انگریزی جریدے میں چھپنے والے ایاز امیر صاحب کے کالم پڑھنے کا مشورہ دیا۔ انگریزی سے کوئی خاص شد بد تو نہ تھی لیکن آہستہ آہستہ ایاز امیر صاحب کے کالم پڑھتے پڑھتے ہاتھ کچھ سیدھا کرہی لیا۔ پہلے ان کے کالمز انگریزی میں شائع ہوتے تھے اور ان کالموں کا ترجمہ ہی اردو اخبارات کی زینت بنتا مگر پھر 2016-17ء میں اُنہوں نے انگریزی کالم نگاری چھوڑکر اُردو زبان میں طبع آزمائی شروع کردی‘ ہم بھی اُن کے پیچھے پیچھے چلے آئے۔ انگریزی میں تو انہیں ملکہ حاصل تھا ہی‘ خوشگوار حیرت ہوئی کہ اُردو میں بھی اُن کا اسلوب کافی شاندار ہے۔ ٹی وی شوز میں بھی اُن کی گفتگو کافی مدلل ہوتی ہے جس کے پس پردہ بہت سے اسراربھی پنہاں رہتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ بعض احباب اُن کی گفتگو میں پنہاں اسرار کی گتھی سلجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن اُن کی اکثر باتیں ہمارے جیسوں کے تو سرسے ہی گزرجاتی ہیں۔ کسی بھی لکھاری یا مقرر کا یہی اصل فن ہے کہ اگر وہ کوئی بات کھل کر نہ کرنا چاہے تو کچھ ایسے انداز میں بیان کردے کہ ''کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے‘‘۔ دنیا میڈیا گروپ سے وابستہ ایاز امیراِس فن میں یکتا ہیں لیکن کبھی کبھار وہ بہت کچھ کھول کھول کر بھی بیان کردیتے ہیں۔
روزنامہ دنیا میں چھپنے والے اُ ن کے کالم اپنے منفرد اسلوب کے باعث بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ دنیا ٹی وی کے پروگرام تھنک ٹینک میں سلمان غنی اور حسن عسکری جیسے صاحبان کے ساتھ اُن کی بیٹھک شو دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہے۔ سلمان غنی اور حسن عسکری صاحب کا اپنا اپنا اندازِ گفتگو ہے اور ایاز امیر صاحب کا اپنا نپاتلاسا انداز۔ گویا یہ بیٹھک ملکی حالات پر گہری نظر رکھنے والے بہترین تجزیہ کاروں کا امتزاج ہے جو کافی پسند کیا جاتا ہے۔ سلمان غنی صاحب سے تو اکثر ملاقات رہتی ہے لیکن حسن عسکری صاحب اور ایاز امیرصاحب کے ساتھ طویل نشست کا موقع نہیں مل سکا؛ اگرچہ آتے جاتے کاریڈور میں سلام دعا کا موقع ملتا رہتا ہے۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایاز امیر صاحب کے ساتھ نشست کا موقع ایسے ملے گا۔ اِس کی بالکل کوئی توقع نہ تھی۔
یکم جولائی کی رات نو بجے ہم ''لاہور نیوز‘‘ کے پروگرام ''ٹاپ سٹور ی‘‘ سے فراغت کے بعد سٹوڈیو سے باہر نکلے تھے کہ اچانک ایاز امیرصاحب کی گاڑی تیزی سے دفتر میں داخل ہوئی۔ اتفاق سے ڈرائیو ر نے سیدھے ہمارے قریب ہی گاڑی کی بریک لگائی۔ دیکھا تو ایاز امیرصاحب فرنٹ سیٹ پر نڈھال پڑے تھے۔ اُن کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور چہرے پر زخموں کے نشانات واضح دکھائی دے رہے تھے۔ دوسری طرف دیکھا تو اُن کے ڈرائیور کی بھی ایسی ہی صورت حال تھی۔ ایاز امیرصاحب سے گفتگو کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ وہ بتانے لگے کہ ابھی میں پروگرام کرکے دفتر سے باہر نکلا ہی تھاکہ اچانک ایک گاڑی نے میری گاڑی کے سامنے آکر راستہ روک لیا۔ اُس گاڑی میں سے پانچ سے چھ افراد نیچے اُترے اور اُترتے ہی ڈرائیور پر گھونسوں کی بوچھاڑ کردی‘ پھر ماسک میں ملبوس چند افراد میری طرف لپکے اور...۔ جاتے جاتے وہ افراد ایاز صاحب کا موبائل اور پرس بھی لے گئے۔ جس وقت ایاز صاحب یہ واقعہ سنا رہے تھے‘ ہمارے ذہن میں بہت سے خیالات ابھر رہے تھے۔ بھلا ایسے بھلے مانس شخص سے کسی کو کیا پرخاش ہوسکتی ہے۔ اِسی دوران اطلاع ملنے پر اعلیٰ پولیس حکام بھی بھاری نفری کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے اور قلعہ گجر سنگھ پولیس سٹیشن میں چھ نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف سمیت تقریباً سبھی نمایاں سیاستدانوں اور ہرمکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرف سے واقعے کی بھرپورمذمت کی گئی ہے اور یہ مذمت کی بھی جانی چاہیے تھی۔ یقینا پولیس تحقیقات کے بعد حقائق سامنے آ جائیں گے لیکن یہ واقعہ بلاشبہ افسوس ناک ہے۔ اِس واقعے کے بعد اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے خوب لتے لیے جا رہے ہیں لیکن میرے خیال میں فی الوقت ہمیں پولیس کی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔
دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں صحافیوں کے ساتھ مارپیٹ کے واقعات کا پیش آنا گویا معمول بن چکا ہے۔ ایسے واقعات معاشرے میں بڑھتی ہوئی اُس عدم برداشت کا نتیجہ ہیں جو روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔ کوئی بھی مخالفانہ بات سننے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ ہرکسی کی یہی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ بلاچون و چرا اُس کی حمایت کی جائے۔ یہ ایسی ہی خواہشات کا نتیجہ ہے کہ میڈیا ہاؤسزاور صحافیوں پر حملے معمول بن چکے ہیں۔ ایاز امیر صاحب جیسے معروف صحافی و تجزیہ کار پر حملے کے بعد اب عام جرنلسٹ بھی خود کو غیرمحفوظ محسوس کر رہا ہے۔ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی خبر کس کے مزاج کو برہم کردے اور وہ لٹھ لے کر پَل پڑے۔ یہ اِسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ ہمارا ملک صحافیوں کے لیے دنیا بھر میں پانچواں خطرناک ترین ملک بن چکا ہے۔ پی ٹی آئی سے لوگوں کو بہت امید تھی کہ یہ جماعت برسراقتدار آنے کے بعد اپنے وعدوں کے مطابق آزادیٔ صحافت کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی مگر افسوس کہ جب پی ٹی آئی برسراقتدار آئی تو اپنا ایک وعدہ بھی ڈھنگ سے پورا نہ کر سکی۔ میڈیا کی آزادی کے تمام وعدے بھی فراموش کر دیے گئے بلکہ کچھ اِس انداز میں میڈیا کا گلا گھونٹا گیا کہ ماضی کی تمام مثالیں ماند پڑ گئیں۔ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ہزاروں صحافی بے روزگار ہوئے اور میڈیا ہائوسز کو شدید مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ چند ایک مرتبہ جب صحافیوں کی طرف سے حکومتی عہدیداروں سے اِس بابت استفسار کیا گیا تو اُن کے پاس 180 ڈگری کے اس یوٹرن کا کوئی جواز نہیں تھا۔ حالات ایسے بنا دیے گئے کہ خواتین اینکرز بھی خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگی تھیں۔ اب ایاز امیر صاحب پر حملہ ہوا ہے تو پی ٹی آئی بڑھ چڑھ کر اِس کی مذمت کر رہی ہے۔
ڈکٹیٹرز کے ادوار میں تو میڈیا پر پابندیاں لگنا ایک روایت رہی ہے۔ یہ اُن کی مجبوری بھی ہوتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ غلط طریقے سے اقتدار میں آئے ہیں اِس لیے وہ سب کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں کہ کوئی اُن پر انگلی اُٹھانے کی جرأت بھی نہ کرے مگر سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ جمہوری حکومتوں کے ادوار میں صحافیوں کے خلاف ایسے حربے کیوں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ بھٹو سے لے کر عمران خان تک‘ ہر حکومت میں صحافیوں اور میڈیا کو بری طرح دبایا گیا یا دبانے کی کوشش کی گئی۔ قریب دوماہ پہلے بین الاقوامی سطح پر ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں قرار دیا گیا تھا کہ ریاستی عناصر بھی صحافیوں کے لیے خطرے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دورِحکومت میں میڈیا کے ساتھ جو ہوا‘ سو ہوا لیکن موجودہ‘ پی ڈی ایم حکومت کے دور میں بھی ایاز امیر صاحب جیسی غیر متنازع شخصیت تشدد کا نشانہ بن گئی ہے۔ اِس حوالے سے یہ امر بہرحال خوش آئند ہے کہ واقعے کااعلیٰ ترین سطح پر نوٹس لیا گیا ہے۔ اُمیدِ واثق ہے کہ بات صرف نوٹس تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ذمہ داروں کو اِس کی سزا بھی ملے گی ورنہ یہ تاثر مضبوط ہوتا چلاجائے گا کہ صحافت سے وابستہ افراد کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حیرت انگیز بلکہ قدرے افسوسناک بھی کہہ لیں کہ وفاقی دارالحکومت اِس حوالے سے خطرناک ترین مقام کے طور پر اُبھرا ہے جہاں ملک بھر میں پیش آنے والے واقعات کے 37فیصد واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ یہاں سے اندازہ لگا لیجئے کہ اگر وفاقی دارالحکومت میں یہ صورت حال ہے تو پھر ملک کے باقی حصوں کی کیا صورت حال ہوگی۔ ایاز امیرصاحب کے ساتھ مارپیٹ کا جو واقعہ پیش آیا ہے‘ صحافتی حلقوں میں اِس کے اثرات بہت شدت کے ساتھ محسوس کیے جارہے ہیں۔ ایک عمومی رائے بن چکی ہے کہ حکومتیں یا پھر کچھ قوتیں جان بوجھ کر حالات کو بہتر بنانے کی طرف توجہ نہیں دے رہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں