"FBC" (space) message & send to 7575

نااہلی یا عذاب؟

اپنے فرائض سے غفلت برتیں ہم اور مصیبت کو نام دے دیں عذاب کا۔ دریاؤں کے راستوں میں تعمیرات کریں ہم اور پھر نام دے دیں عذاب کا۔ دریاؤں کے راستوں کے بہاؤ میں رکاوٹیں پیدا کریں ہم اور پھر نام دے دیں عذاب کا۔ ڈیمز تعمیر نہ کریں ہم اور جب مشکل آن پڑے تو نام دے دیں عذاب کا۔ آج ایک مرتبہ پھروہ لوگ بھی اِس صورت حال کو ہمارے گناہوں کونتیجہ قرار دے رہے ہیں جو خود کرپشن میں گھٹنوں گھنٹوں تک دھنسے ہوئے ہیں۔ آج ہمیں وہ لوگ بھی سیلاب زدگان کی مدد کا درس دے رہے ہیں‘ زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے دیا جانے والا قیمتی ہار جن کے پاس سے برآمد ہوا تھا۔ اِس نازک ترین صورتحال میں ذرا وڈیروں کے انداز دیکھیں‘ جنہیں دیکھ خون کھولنے لگتا ہے۔ اِن ذمہ داران سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ کیا تم یہ بتانے کے لیے بیٹھے ہو کہ 90فیصد علاقہ پانی میں ڈوب چکا ہے یا یہ کہ فصلیں پوری طرح سے تباہ ہوچکی ہیں۔ تباہی آتی ہے تو سج دھج کر میڈیا کے سامنے آکر تباہی کی مختلف توجیہات پیش کرنے لگتے ہیں۔ این ڈی ایم اے وارننگز جاری کر کے اپنے تئیں اپنی ذمہ داری پوری کر دیتی ہے مگر کس نے ذمہ داری کس طور نبھائی‘ اس سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ عوام کی بھی کیا قسمت ہے۔ پانی نہ ہو تو خشک سالی سے مرتے ہیں اور پانی آجائے تو ڈوب کرہلاک ہو جاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس بار سیلابوں سے بہت تباہی ہوئی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ محکمۂ موسمیات نے اِس تباہی کے بارے میں وقت سے کافی پہلے آگاہ کرنا شروع کردیا تھا۔ جون کے آغاز میں ہی یہ بتا دیا گیا تھا کہ اِس مرتبہ بارشیں بہت زیادہ ہوں گی جس سے ندی نالوں اور دریاؤں میں طغیانی آسکتی ہے۔ جب جون کے شروع میں یہ وارننگز جاری ہونا شروع ہوئی تھیں تو متعلقہ ادارے کیا کر رہے تھے؟چلیں‘ پنجاب کی حد تک تو یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ تب یہاں وزارتِ اعلیٰ کی جنگ جاری تھی جس میں فریقین کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہ جنگ جیتنا بن چکا تھا۔ اُن کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں تھی کہ وہ اِن وارننگز کی طرف دھیان دیتے۔ سندھ، کے پی اور بلوچستان میں تو ایسی کوئی صورت حال نہیں تھی۔ وہاں کی حکومتوں نے قبل از وقت اقدامات کیوں نہیں کیے؟
یہ بارشیں‘ یہ سیلاب عذاب نہیں بلکہ تباہی کا بڑا حصہ ہماری کوتاہیوں کے نتیجے میں وارد ہوا ہے۔ اب کمائی کرنے والے اِس صورت حال سے بھی بھرپور فوائد اُٹھائیں گے۔ یہ عذاب ہے تو صرف غریبوں پر ہی کیوں آتا ہے؟اُن پر کیوں نہیں آتا جو ملکی خزانوں کووارثتی مال کی طرح ڈکار جاتے ہیں؟عوام کوملاوٹی اشیا کھلانے والے دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں۔ بدعنوان عناصر بہترین زندگی بسر کرتے ہیں۔ بھاری رقوم لے کر ناجائز تعمیرات کرانے والے زندگی کی تمام آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اِن پر تو کبھی ایسے عذاب نہیں آتے۔ یہاں تو لوگ بیت المال کی رقم بھی ہڑپ کرجاتے ہیں لیکن پھربھی محفوظ رہتے ہیں۔ ''عذاب‘‘ آتا ہے تو اُن پر جو پسماندہ علاقوں سے پوش علاقوں میں نقل مکانی کرنے کی بساط نہیں رکھتے۔ ہے کوئی پوچھنے والا کہ دریائے سوات کے بیچ میں بڑے بڑے ہوٹل تعمیر کرنے والے یہ تعمیرات کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟کیا اس امر میں کوئی شک ہے کہ متعلقہ اداروں اور اہلکاروں کو جیب گرم کی گئی ہو گی۔ نتیجتاً اِن اہلکاروں نے آنکھیں موندے رکھیں اور جب دریانے اپنی زمین '' ری کلیم‘‘ کی تو سب کچھ تنکوں کی طرح بہا لے گیا۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ سیلابی ندی‘ نالوں اور دریاؤں کے بہاؤ کے قدرتی راستوں پر تجاوات کیسے قائم ہو گئیں؟ کوئی منصوبہ بند ی ہے نہ کوئی احساس اور جب مصیبت آتی ہے تو اِسے عذاب کا نام دے دیا جاتا ہے۔
یاد پڑتا ہے کہ لاہور سے مریدکے جاتے ہوئے ایک مقام پر سوموریہ پل ہوا کرتا تھا۔ یہ پل نالہ ڈیک کے سیلابی پانی کے گزرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ آج یہ کہیں بھی نظر بھی نہیں آتا، کیونکہ اِسے بند کردیا گیا ہے۔ اِسے بند کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اب عین اِس مقام پر ایک بڑا رہائشی منصوبہ بن چکا ہے۔ خدا نہ کرے‘ لیکن اگر کبھی نالہ ڈیک بپھرتا ہوا اِس مقام تک پہنچے گا تو ہم رونا دھونا شروع کردیں گے کہ عذاب آگیا۔
اب سوال یہ ہے کہ سیلاب کا پانی اُترنے کے بعد آگے کیا ہوگا؟ٹوٹ پھوٹ جانے والی شاہراہوں کی تعمیر و مرمت کے ٹینڈرز جاری ہوں گے۔ تباہ ہوجانے والے پلوں کی نئے سرے سے تعمیر کے لیے رقوم منظور ہوں گی۔ اندازہ ہے کہ اِس تمام چاک چکر میں کم از کم درجنوں ارب روپوں کی کرپشن ہو گی۔ اب تو باہر سے بھی بڑے پیمانے پر امداد آنا شروع ہوچکی ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں ملنے والی امداد کا استعمال ہمارے ہاں کس طرح کیاجاتا ہے۔ اِس فن میں تو ہم یکتا ہوچکے ہیں۔ اب میڈیا پر سیلاب سے متعلق رپورٹس کے بعد جگہ جگہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کیمپس لگ چکے ہیں۔ یہ کیمپ کن لوگوں نے لگا رکھے ہیں اور یہاں سے حاصل ہونے والی امداد کہاں جائے گی، کوئی نہیں جانتا۔ بڑے بڑے لوگوں کی طرف سے عوام سے اپیلیں کی جارہی ہے کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے سامنے آئیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ بڑی بڑی شخصیات خود اِس معاملے میں پہل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کیا بڑے بڑے امیر کبیر لوگوں نے ابھی تک امداد کے کوئی اعلانات کیے ہیں؟ یہ اعلانات آپ کبھی سنیں گے بھی نہیں کیونکہ جنہیں ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے کی عادت پڑ چکی ہو، وہ بھلا کہاں اپنی رقم تقسیم کریں گے۔ یہاں تو ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آرہے ہیں کہ ایک ایم این اے سیلاب سے انتہائی متاثرہ علاقے میں پہنچتا ہے۔ وہاں کے مکین اپنی تباہ حالی کے باوجود اُس کے لیے کہیں سے چارپائی کا بندوبست کرتے ہیں۔ چارپائی پر پھولوں والی چادر بچھاتے ہیں اور وہ ایم این اے چارپائی پر بیٹھ کر سگریٹ کے مرغولے اُڑاتا دکھائی دیتاہے۔ منرل واٹر سے اپنے پاؤں دھوتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک گدی نشین صاحب کی ایک وڈیو سامنے آئی ہے جو بھوکے‘ بے بس بچوں کی طرف گوشت کے پارچے اُچھالتے دکھائی دیتے ہیں اور پھر اس کھانے کے لیے بچوں کی باہمی چھینا جھپٹی سے لطف اُٹھاتے ہیں۔ اگر یہ بارشیں عذاب ہیں تو یقینا ایسے لوگ سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ اپنے خوابوں کے حوالے سے مشہور ایک سیاستدان صاحب کشتی میں بیٹھ کر سیلاب سے متاثرہ علاقے میں پہنچتے ہیں۔ جب کمرکمر تک پانی میں ڈوبے متاثرین موصوف کے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ اُنہیں حقارت سے دھتکارتے دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب سیاسی جماعتوں کی جانب سے جو اربوں روپے اکٹھے کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں‘ یہ محض اعلانات کی حد تک ہیں اور ہماری تاریخ گواہ ہے کہ بیشتر صورتوں میں ایسے اعلانات صرف اعلانات کی حد تک ہی محدود رہتے ہیں۔ ہم بس گفتار کے غازی ہیں۔ اِسی لیے تو ہمیشہ کسی نہ کسی مشکل کاشکار رہتے ہیں اور جب وقت گزر جاتا ہے تو ایک مرتبہ پھر اپنی بے ڈھنگی سی چال چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا ہمار ے ہاں کوئی تصور ہی نہیں۔ کم از کم اتنا تو کرہی سکتے ہیں کہ جو لوگ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں‘ جہاں سیلاب کا سب سے زیادہ خدشہ ہوتا ہے‘ اُنہیں تربیت دی جائے کہ سیلاب کی صورت میں اُنہیں کیا کرنا چاہیے۔ انہیں یہ بتایا جائے کہ مون سون کے شروع ہونے سے پہلے اُنہیں کیسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ کیا ہمارابس اتنا ہی کام رہ گیا ہے کہ جب بھی کوئی مصیبت آئے تو ہم امدا دطلب کرنے کیلئے نکل کھڑے ہوں۔ پھراس امداد میں سے اپنا حصہ وصول کرنے سے بھی نہ چوکیں؟کون نہیں جانتا کہ جب 2005ء کے زلزلہ متاثرین کیلئے بڑے پیمانے پر بیرونی امداد آئی تھی تو ایک اعلیٰ افسر صاحب انتہائی اعلیٰ کوالٹی کے کمبل اپنے گھر لے گئے تھے۔ بعد میں یہ کمبل موصوف کے گھر سے برآمد بھی ہوئے تھے۔ جہاں اعلیٰ عہدے پر فائز کوئی افسران ایسی نیچ حرکتوں پر اتر آئیں‘ وہاں باقیوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ براہ کرم اِس مس مینجمنٹ‘ اس نااہلی کو عذاب کا نام دینے والوں کی باتوں میں ہرگز نہ آئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں