"FBC" (space) message & send to 7575

تاریخ کے چاقو چھریاں

جس کی لاٹھی‘ اُس کی بھینس کے اصول کی بھرپورعکاسی کرنے والے ہمارے نظام کے تاروپودبری طرح سے بکھر چکے ہیں۔ ریاستی ادارے باہم دست و گریباں ہیں۔ سب کچھ اِس بری طرح سے گڈ مڈ ہوچکا کہ شاید اب خود کو عقلِ کل سمجھنے والوں کا علم بھی جواب دے چکا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے‘ اب اُس کے نتائج سے کیسے نبردآزما ہوا جائے۔ دیکھا جائے تو یہ سب کچھ ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا۔ کھوکھلے نعروں اور دلاسوں کا اثر ایک دن ٹوٹنا ہی تھا۔ ہمیشہ ہمارے کانوں میں یہی آوازیں پڑتی رہیں کہ سب مل کر ملک کو لوٹ رہے ہیں لیکن یہ پھر بھی چل رہا ہے، کیونکہ یہ خدا کی چڑھائی ہوئی دیگ ہے، لیکن اب تو جیسے برتن ہی اوندھے ہوگئے ہیں۔ یقینا اب سینوں میں ٹھنڈ پڑ گئی ہوگی۔ کہا تو یہی جاتا رہا کہ ہمارا ملک رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں وجود میں آیا تھا اِس لیے کوئی اِس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ 1971ء میں یہ نظریہ بھی غلط ثابت ہوچکا۔ جہاں بھی جبر کی حکومت ہو‘ وہاں حقائق بعد میں ہی منظرِ عام پر آتے ہیں کہ دکھایا کیا جاتا رہا اور پسِ پردہ ہوتا کیا رہا۔ یہی قانونِ قدرت ہے کہ جب تاریخ حقائق کو جانچتی ہے تو پھر سب کچھ سامنے آن موجود ہوتا ہے۔
ایک مشہور تاریخی واقعہ یاد آرہا ہے۔ 1258ء تک اسلامی سلطنت کا پایۂ تخت ہونے کی وجہ سے بغداد کو عالمی سطح پر مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ تب یہی گمان کیا جاتا تھا کہ اِس سلطنت پر قدرت کی خاص کرم نواز ی ہے۔ یہ تک مشہور تھا کہ جو بھی مسلمانوں کے خلیفہ کو قتل کرے گا اُسے خدا کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب ایسے تصورات نے جڑ پکڑی تو سب کچھ پٹڑی سے اُترتا چلا گیا لیکن کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ خلیفہ کو یا حکومت کو حقیقت کو آئینہ دکھا سکتا۔ وجہ یہی تھی کہ اپنی جان سب کو پیاری تھی۔ اگرچہ اندر ہی اندر یہ کھسر پھسر بھی چلتی رہتی کہ یہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہورہا لیکن بات کبھی سرگوشیوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ عمائدینِ سلطنت کو گمان تھا کہ اگر سلطنت پر حملہ ہوا تو قدرت خود اِس کی حفاظت فرمائے گی۔ پھر وہی ہوا جو اِن حالات میں ہوا کرتا ہے۔ 1258ء میں ہلاکوخان نے بغداد کو فتح کرنے کے بعد اِس شہرِ بے مثال کو اس طرح سے برباد کیا کہ آج تک یہ شہر اپنی عظمتِ رفتہ کو کھوجتا پھر رہا ہے۔ پورے شہر کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ لاکھوں افراد کو قتل کردیا گیا۔ قتلِ عام اتنے وسیع پیمانے پر ہوا کہ کئی روز تک دریاؤں میں خون بہتا رہا۔ نادر و نایاب کتب خانے جلا دیے گئے اور ہر وہ ظلم روا رکھا گیا‘ جو کیا جاسکتا تھا۔ سلطنتِ عباسیہ کا آخری خلیفہ مستعصم باللہ منگولوں کا قیدی بن چکا تھا جس کی حالت یہ تھی کہ اُسے کئی روز تک کچھ بھی کھانے کو نہ دیا گیا۔ چند روز کے بعد جب خلیفہ مستعصم باللہ کو پابجولاں ہلاکوخان کے سامنے پیش کیا گیا تو ہلاکوخان نے ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ایک تھال منگوایا اور حکم دیا کہ یہ ہیرے جواہرات کھاؤ۔ خلیفہ نے کہا کہ وہ اِنہیں کیسے کھا سکتا ہے؟ ہلاکو خان نے کہا کہ جب تم اِنہیں کھا نہیں سکتے تھے تو پھر اِنہیں سینت سینت کر جمع کیوں کر رکھا تھا۔ ہلاکو خان کو یہ معلوم تھا کہ خلیفہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جو بھی زمین پر اس کا خون بہائے گا‘ اُس پر عذاب نازل ہوگا۔ روایات میں ملتا ہے کہ ہلاکو خان نے اسی خیال کے پیشِ نظر خلیفہ کو ایک موٹے نمدے (قالین) میں لپیٹنے کا حکم دیا جس کے بعد اِسے گھوڑوں کے ٹاپومار مار کر دردناک طریقے سے قتل کردیا گیا۔ تب ہلاکو خان نے بھرے دربار میں کہا کہ میں ہی وہ عذاب ہوں جسے تم پرنازل کیا گیا ہے۔ جب بغداد میں خون کی یہ ہولی کھیلی جارہی تھی تو کسی طرف سے کوئی امداد نہ آئی۔ یہ تو تاریخ کا صرف ایک واقعہ ہے‘ ورنہ تاریخ ایسے عبرت ناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دور کیا جانا‘ برصغیر میں صدیوں تک قائم رہنے والی مغل سلطنت کا کیا حال ہوا تھا؟ قدرت کے اپنے اصول ہیں اور اِن اصولوں پر عمل کرنے والا ہی فتح یاب ہوتا ہے۔
آج سلطنتِ عباسیہ اور سلطنتِ مغلیہ کو تاریخ کا حصہ بنے ہوئے کئی صدیاں بیت چکی ہیں۔ آج جب تاریخ اِن واقعات کے بخیے اُدھیڑتی ہے‘ ان کا پوسٹ مارٹم کرتی ہے تو وہ کسی کو نہیں بخشتی۔ ہر اُس شخص کے کردار کا باریک بینی سے جائزہ لیتی ہے جو اِس زوال کا باعث بنا۔ تاریخ کو ئی تمیز رکھے بغیر بتاتی ہے کہ سلطنتوں کی زوال پذیری میں کس حکمران کا کتنا ہاتھ تھا، کون سے جرنیل، کون سے وزیر، کون سے مشیر اور کون سے مصاحب اِس کے ذمہ دار تھے یا عام شہریوں کا اُس وقت کیا کردار تھا۔ اُس دور کے قاضی و منصفین یا محراب و منبر کا طرزِ عمل کیسا تھا۔ معاشرے میں انصاف کی صورتحال کیا تھی، مارکیٹ کا نظام کیسا تھا۔ تاجر طبقہ اس زوال میں کتنا حصے دار تھا۔ جب تاریخ نویس قلم تھامتے ہیں تو پھر ایک ایک کردار کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں، اور تاریخ نویسوں کے اس ''آپریشن‘‘ سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ جب تک پردہ پڑا رہا‘ پڑا رہا لیکن آج جب سانحہ مشرقی پاکستان کا جائزہ لیا جاتا ہے تو کئی بے رحمانہ حقائق سامنے آتے ہیں۔ دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کس طرح ہم جھوٹے نعروں کی آڑ میں اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچاتے رہے۔ مسئلہ البتہ وہی ہے کہ ہر کسی کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے۔ آج بھی ہمارے اندر حقائق کو قبول کرنے کی رتی برابر بھی جرأت نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے‘ آج ہمیں جن حالات میں پہنچا دیا گیا ہے‘ انہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آج بھی کوئی سمجھنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ آج بھی ہمیں یہی بتایا جا رہا ہے کہ فلاں ملک ہمارے خلاف ہے‘ فلاں دشمن ہمیں ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ یقینا یہ باتیں درست ہوں گی مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا ہے؟ اپنے عوام کو آٹے جیسی انتہائی بنیادی ضرورت پورا کرنے کے لیے لائنوں میں کھڑا کر کے موت کے گھاٹ اُتارنا شروع کردیا۔ پوری قوم کو آٹے کی لائنوں میں لگا کر دنیا بھر میں جو رسوائی کمائی گئی‘ ہے کوئی جو اِس کا حساب لے؟ہم پاکستان کو ایک زرعی ملک قرار دیتے ہیں اور عوام روٹی جیسی بنیادی ضرورت کو ترس رہے ہیں۔ پچھلے سات‘ آٹھ ماہ میں ملک کے بالائی علاقے دوسری بار سیلابی کیفیت کا سامنا کر رہے ہیں مگر ہم اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے کاربن کے اخراج پر ترقی یافتہ ممالک کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ آج سر پر پڑی ہے تو سب کی عقل جواب دے گئی ہے۔ ہرکسی کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں لیکن حالات ہیں کہ بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
حکومت ببانگِ دہل کہہ رہی ہے کہ عدالت کی دی گئی تاریخ پر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ وکلا بھی مختلف دھڑوں میں بٹے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ عدلیہ اختیار ات سے تجاوز کررہی ہے یا پارلیمنٹ ہٹ دھرمی پر اڑی ہوئی ہے۔قصہ مختصر یہ کہ قصور کسی کا بھی ہو لیکن حالات بڑی حد تک پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکے ہیں۔ اب کوئی یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ حالات کو یہاں تک پہنچانے میں اُس کا بھی قصور ہے۔ اِس بات کا فیصلہ اب تاریخ ہی کرے گی۔ بالکل ویسے ہی جیسے آج تاریخ سلطنتِ عباسیہ اور سلطنتِ مغلیہ کے زوال کا بے رحمانہ تجزیہ کرتی ہے۔ ایسے ہی جب کل کو تاریخ آج کے واقعات کی جانچ کرے گی تو پھر کسی کیلئے راہِ فرار اختیار کرنا ممکن نہ رہے گا۔یہ الگ بات کہ معلوم نہیں تب تک حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہوں۔ اِس تمام تر صورتحال کا بس ایک ہی مثبت پہلودکھائی دیتا ہے کہ کسی حد تک ہم بے سروپا باتوں کے سحر سے نکل رہے ہیں۔ آج ہم اِس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ صرف نعروں سے کام چلنے والا نہیں۔ آج کم از کم ہمیں اِس بات کا ادراک ہو رہا ہے کہ آگے بڑھنا ہے تو پھر نعروں سے بڑھ کر ہمیں عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا۔ تبھی دربدر بھٹکنے سے نجات مل سکے گی۔ ایک دوسرے پر انگلیاں اُٹھانے سے پہلے ہمیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا تبھی حالات کے بہتر ہونے کی کوئی اُمید پیدا ہوسکتی ہے۔ ورنہ تاریخ تو اپنے چاقو چھریاں تیز کیے بیٹھی ہے جو ایک دن سب کا پوسٹ مارٹم کرے گی اور بتائے گی کہ کس طرح حقائق کو مسخ کیا گیا اور ریاست کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں