"FBC" (space) message & send to 7575

کسی سے کیا گلہ کرنا!

ملک میں پہلی بار پیش آنے والے واقعات پر ہمارے ہمسایہ ملک کا میڈیا بندر کے ہاتھ میں ماچس والی کہاوت کو درست ثابت کرنے پر تُل چکا ہے۔ صبح سے شام تک بھارتی میڈیا میں نہ صرف مخصوص مناظر کو بار بار دکھایا جا رہا ہے بلکہ اُس کے تجزیہ کار انہیں اپنی مرضی کا رنگ دے کر زہر افشانی بھی کر رہے ہیں۔ اِس پر ہمارے تجزیہ کاروں کی طرف سے بھرپورغصے کا اظہار سامنے آیا ہے۔ قرار دیا گیا ہے کہ بھارت جیسا ہمارا دشمن ہماری ملکی صورتحال پر خوش ہورہا ہے‘ اُسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ہم ایسی آرا سے پوری طرح متفق ہیں کہ بھارتی میڈیا کا یہ رویہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ جب بھارت ہمیں اپنا ازلی و ابدی دشمن قرار دیتا ہے تو پھر وہ کیونکر دشمنی نبھانے میں پیچھے رہے گا؟ آج تک کون سا موقع ہے جو اس نے پاکستان پر وار کرنے میں کوئی رعایت برتی؟ اس نے پوری دنیا میں جھوٹی خبروں کا ایک پورا نیٹ ورک بچھا رکھا ہے جس کا کام دن رات پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنا ہے۔ پاکستان ہی نہیں‘ عالمی تحقیقاتی ادارے بھی متعدد بار ان فیک فورمز کی نشاندہی کر چکے ہیں مگر مجال ہے کہ اس نے اپنی روش میں ذرا بھی تبدیلی کی ہو۔ ویسے بھی بھارت میں 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے کمر کسی جاچکی ہے۔ ایسے میں ہمارے ملکی حالات پر تبرا بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے آبِ حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بی جے پی اقتدار میں آئی ہی مذہب اور پاکستان دشمنی کی سیڑھیاں استعمال کرکے ہے۔ اس تناظر میں مودی کے گودی میڈیا نے ہمارے ملک میں پیش آنے والے واقعات کو خوب بڑھا چڑھا کر اور مرچ مسالا لگا کر پیش کیا تو کیسا تعجب۔
بی جے پی نے سیاست میں ہندو کارڈ کے استعمال اور پاکستان دشمنی کی جو روش اختیار کی تو اُسے بہت ہی شاندار نتائج حاصل ہوئے۔ 2002ء میں گجرات میں ہونے والے ہولناک مسلم کش فسادات سے نریندر مودی قومی سطح پر مقبول ہوئے اور پھر سیاست میں مذہب کا کھلے عام استعمال کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ یہ فسادات موصوف کے لیے مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کی پہلی سیڑھی ثابت ہوئے۔ اِس پر پہلا قدم رکھنے کے بعد نریندرمودی نے 2014ء میں اپنا مقصد حاصل کرلیا جب بھارت کے عام انتخابات میں بی جے پی کے ووٹ بینک میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیاجس کے نتیجے میں نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم بن گئے۔ اِس کے بعد 2019ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد بھی بھارت کی وزارتِ عظمیٰ کا ہما نریندر مودی کے سر پر ہی بیٹھا۔ اب محسوس یہ ہورہا ہے کہ 2024ء میں ہونے والے انتخابات میں بھی وہ کامیابی حاصل کرلیں گے اور اِسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی مسلسل مسلم دشمنی اور پاکستان مخالفت پر مبنی بیانیہ اپنائے ہوئے ہے۔
بھارت کے گرما گرم سیاسی ماحول میں جب ہمارے ہاں گڑبڑ کا سلسلہ شروع ہوا تو فوراً ہی بھارتی میڈیا نے اِسے بھرپورطریقے سے اپنی سکرینز کی زینت بنانا شروع کردیا۔ اِس دوران پیش کیے جانیوالے تجزیوں کے دوران انتہائی زہرآلود تنقید کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ایسی ایسی درفنطنیاں چھوڑی گئیں جن کا حقائق سے دور دور تک بھی کوئی واسطہ نہ تھا۔ کئی بھارتی ٹی وی چینلز اپنے پروگرامز میں پاکستانی تجزیہ کاروں کو مدعو کرکے اُن سے انتہائی چبھتے ہوئے سوالات کرتے رہے۔ غرضیکہ موقع سے فائدہ اٹھانے میں بھارتی میڈیا نے کوئی کسر اُٹھانہیں رکھی۔ بھارتی میڈیا کا سب سے زیادہ زور یہ بات ثابت کرنے پر رہا کہ پاکستان میں حالات انتہائی غیریقینی کا شکار ہوچکے ہیں اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے اور عوام آمنے سامنے آچکے ہیں۔ بھارتی میڈیا پر کئی دن تک مسلسل یہی سب کچھ چلتا رہا۔ پاکستان دشمنی کا بیانیہ جو بھارتی ذرائع ابلاغ کی پہچان بن چکا ہے‘ اپنے جوبن پر نظر آیا۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ انتہائی زہریلا پروپیگنڈا کررہے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس کے لیے کسی حد تک مواد اُسے ہم ہی فراہم کررہے ہیں۔ کسی بھی مواد کو اپنے حق میں موڑنے اور اس پر مرچ مسالا لگانے کا کام بھارتی میڈیا خوب اچھے طریقے سے کر لیتا ہے اور اب ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹنگ کو لے کر ہمارے ہاں ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کاش یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا اور ہم نے بروقت ہوش کے ناخن لے لیے ہوتے۔ کاش ہم سمجھ جاتے کہ ہماری باہمی لڑائیاں دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع فراہم کریں گی۔ کاش ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے ملکی مسائل کو حل کرنے کے لیے مل بیٹھتے اور صورتحال میں بہتری کی بابت سوچتے۔
اب ہم لاکھ کہتے رہیں کہ جو ہوگیا‘ سو ہوگیا، اب ہمیں مستقبل کی بابت سوچنا چاہیے۔ مگر یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ ہم عجیب لوگ ہیں کہ پے درپے سانحات کا سامنا کرتے ہیں اور پھر تان اِسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ اب ہمیں آگے کا سوچنا چاہیے۔ قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے کے بعد ایک دوسرے کے خلاف محلاتی سازشوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور ہرکوئی دوسرے کی ٹانگ کھینچتا رہا تو اِسی کھینچا تانی میں 1958ء میں پہلی مرتبہ ایک طالع آزما نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی اور اپنے اقتدار کے دوام کے لیے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے بیج بو ڈالے۔ عام آدمی اِسی بات پر خوش ہوگیا کہ ملک میں استحکام تو آیا اور کسی نے ذخیرہ اندوزوں کو نکیل تو ڈالی۔ ایوب دور میں معاشی ترقی کا بھی خوب غلغلہ رہا لیکن جب آنکھ کھلی تو مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان خلیج بہت بڑھ چکی تھی۔ ایوب خان نے جاتے جاتے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار یحییٰ خان کو سونپ دیا۔ تب بھی یہی بیانیہ تراشا گیا کہ ہمیں سب کچھ بھول کر ملک کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ پھر اِس شخص نے پاکستان کے ساتھ جو کیا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا۔ آخری وقت تک حقائق کو جھٹلایا جاتا رہا۔ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سانحے کے بعد اقتدار جمہوری قوتوں کے پاس آیا تو وہ ایک بار پھر باہمی کشمکش کا شکار ہو گئیں اور بالآخر معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جا پہنچے۔ ایسے میں ضیاء الحق بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹ کر برسرِاقتدار آ گئے تو ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے اُنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو ہی تختہ دار پر لٹکا دیا۔ پرویز مشرف بھی برسراقتدار آنے کے بعد سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاتے رہے مگر تب تک اقتدار سے چمٹے رہے جب تک اقتدار سے بے دخل نہ کر دیے گئے۔ وہ بھی ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے کی باتیں کیا کرتے تھے۔
نجانے ہم نے کون سا ٹریک پکڑ لیا ہے جس پر کوئی منزل ہی دکھائی نہیں دے رہی۔ مسائل کے سلجھاؤکا کوئی سرا ہی ہاتھ نہیں آرہا اور حالات ہیں کہ بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ چشم فلک نے اس دوران وہ نظارے بھی دیکھ لیے جو اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اب لاکھ حقائق کو جھٹلاتے رہیں‘ لیکن بہت کچھ ایسا ہوچکا ہے جو ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جو کچھ گزشتہ چند دنوں کے دوران دیکھنے میں آیا ہے، اُس سے روح تک کانپ کر رہ گئی ہے۔ آج بھی ہم اپنی غلطیوں سے سیکھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ماضی کے سانحات سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ملک کے بدترین معاشی حالات کے باوجود اپنی روش ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم خود ہی دشمنوں کو خود پر ہنسنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور پھر گلے شکوے کرتے ہیں۔ اگر ہم خود کو ٹھیک کرلیں تو کسی کی کیا جرأت کہ وہ ہم پر اُنگلی بھی اُٹھا سکے۔ ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ ہم خود کیا کر رہے ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے مخالفین کو ایسا کوئی موقع فراہم نہ کریں کہ وہ ہمیں کوئی نقصان پہنچا سکے۔ اگر ہم اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض آئین اور قانون کے مطابق سرانجام دیتے رہیں تو پھر حالات بہتر رہیں گے‘ ملکی مسائل حل ہوں گے اور ملک ترقی بھی کرے گا۔ ورنہ یہی سب کچھ چلتا رہے گا اور ہم دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں