"FBC" (space) message & send to 7575

بہت سے بھرم ٹوٹ گئے!

9 مئی کو ملک بھر میں جو کچھ ہوا‘ وہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اُس روز ایسی آگ بھڑکی کہ اُس کے شعلے ابھی تک بہت کچھ جلائے دے رہے ہیں۔ اِس آگ میں جل کر بہت کچھ بھسم ہوگیا اور بہت کچھ بھسم ہورہا ہے۔ ایک طرف نجی و سرکاری املاک جلیں تو دوسری طرف سیاسی اخلاقیات بھی اس روز خاکستر ہوگئیں۔ بہت سی قومی روایات بھی جل گئیں۔ جو ہماری ملکی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا‘چشم فلک نے اُس کانظارہ بھی کرلیا۔ عسکری املاک پر حملوں اور انہیں جلانے کے افسوس ناک ترین واقعات بھی پیش آئے۔ علاوہ ازیں خواتین کے احترام کو بہرصورت مقدم رکھنے کی روایت تو جیسے دم ہی توڑ گئی۔ اُس دن کے بعد سے یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ہمارے ملک کا کیا بنے گا؟آگے کیا ہونے والا ہے؟ملک میں جو شعلے بھڑکائے گئے ہیں اُنہیں کون بجھائے گا؟ انتظامیہ کو جس راستے پر لگا دیا گیاہے‘ اُس کے منطقی نتائج کیا برآمد ہوں گے؟سیاسی مخالفین کے ساتھ تھانوں میں جو سلوک ہورہا ہے، کیا کل کلاں کو اُس کی کوئی توجیہ و توضیح پیش کی جاسکے گی؟گھروں پر چھاپوں کے دوران توڑ پھوڑ کی جو نئی روایت متعارف کرائی گئی ہے، کیا کل کو اس کا ردِعمل نہیں آئے گا؟ خواتین سے ناروا سلوک کی داستانیں بھی زبان زدِ عام ہیں۔ سپریم کورٹ پر بھی نشانہ سادھا جاچکا ہے اور ایسی زہرآلود زبان استعمال کی جارہی ہے کہ ماضی میں اِس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ شدید حیرانی ہے کہ یہ کیسے جمہوری لوگ ہیں جنہیں اپنے زبان و بیان پر بھی اختیار نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے باہر ہونے والے جلسے میں سیاسی رہنمائوں نے جس طرح کی زبان استعمال کی‘ اُس پر سوائے اظہارِ افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ کل تک جو ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے آج وہ الیکشن کے انعقاد سے گریزاں ہیں۔ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر ایک جماعت کے کارکنوں پر لاٹھیاں اور آنسو گیس کے شیل برسائے جاتے ہیں اور دوسری جماعت کو پوری سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ پوری کی پوری حکومتی مشینری مخالفین کو کچلنے اور سب کچھ روند دینے میں لگی ہوئی ہے۔ سیاسی مخالفین کو دبانے اور نیچا دکھانے کے پرانے حربے پورے جوش و خروش سے آزمائے جا رہے ہیں۔ وہی روایتی حربے‘ جو ہمیشہ سے ہمارے ملک کی سیاست میں استعمال ہوتے آئے ہیں۔ان اقدامات کو ''جمہوریت بچانے‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ ماضی میں بھی یہ سب کچھ ہوتا رہا لیکن جمہوریت آج بھی اپنی بقا کی فکر میں مبتلا ہے۔
ہمارے یہاں جمہوریت قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہی اپنی بقا کے لیے فریاد کناں رہی ہے۔ 23 سالوں تک تو عام انتخابات ہی نصیب نہیں ہو سکے تھے۔ اِس کی وجہ یہ رہی کہ جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہونے والا ہمارا ملک اپنے قیام کے فوراً بعد ہی جمہوی اور سیاسی پٹڑی سے اُتر گیا تھا۔ آزادی کے نو برسوں بعد تک ایک عبوری دستور کی حکمرانی رہی جو انگریز دور میں بنائے ہوئے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء پر مشتمل تھا۔ 1956ء میں خدا خدا کر کے ملک کو پہلا آئین نصیب ہوا۔ قیام پاکستان کے چند سال بعد صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات تو ہوئے لیکن مرکزی حکومت کے لیے عام انتخابات کی نوبت ہی نہ آئی‘ یا نہ آنے دی گئی۔ تب تک اُنہی اراکین اسمبلی سے کام چلایا جاتا رہا جو 1945ء کے متحدہ ہندوستان کے عام انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ کام چلایا جاتا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ راتوں رات پرانی جماعتوں کو تحلیل کر کے نئی جماعتوں کی تشکیل کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ ۔ ہوتے ہوتے 1970ء کا سال آ گیا اور قیام پاکستان کے 23 سالوں بعد یہ پہلے عام اور شفاف انتخابات کا سال ثابت ہوا۔ سات دسمبر 1970ء کو انتخابات منعقد ہوئے۔ خیال تو یہ تھا کہ یہ انتخابات ملکی ترقی کے نئے راستے کھولیں گے لیکن افسوس کہ پہلے عام انتخابات کے بعد ہی ایسی صورتحال پیدا ہوگئی کہ ملک دولخت ہو گیا۔ تب انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا تھا اور آج انتخابات کرانے ہی سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ایک آئینی تقاضے کو پورا کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ جو ادارہ (عدلیہ) اِس آئینی تقاضے کو پورا کرنے کے احکامات دے رہا ہے، اُس پر تنقید کے ایسے نشتر برسائے جا رہے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے‘ نہ پیر۔ یہ سب کچھ 1970ء کے عام انتخابات کے بعد بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تب بھی جو لوگ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے پر زور دیتے تھے‘ اُنہیں دشمن گردانا جاتا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کیے جانے کی روش نے ہی تقسیم کی رفتار کو مہمیز دی تھی۔ افسوس کہ اتنا بڑا سانحہ ہو جانے کے باوجود آج بھی ہمارا وہی چلن اور وہی روش ہے۔ آثار اور قرائن بتاتے ہیں کہ ہم اِس روش کو تبدیل کریں گے بھی نہیں۔ یہ سب کچھ جیسے چلتا آیا ہے‘ ویسے ہی چلتا رہے گا۔ کبھی یہ نہیں سوچیں گے کہ یہ سب کچھ کرکے حاصل کیا ہو رہا ہے؟ کیا ملک ترقی کی منازل طے کر رہا ہے یا پھر ہر گزرنے والے دن کے ساتھ تنزلی کا شکار ہو رہا ہے؟ ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ یہ تصور کرتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرتا رہے‘ اُس کی چالاکیوں اور چالوں کو کوئی نہیں سمجھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ سب لوگ سب کچھ جانتے ہیں کہ کون کیا کرہا ہے‘ کون سا قدم کس مقصد کے لیے اُٹھایا جارہا ہے۔ البتہ جو اپنے گمان اور قیاس کا اسیر رہنا چاہیں‘ انہیں کیسے سمجھایا جا سکتا ہے؟ جس ڈگر پر حکومت چل رہی ہے‘ محسوس ہوتا ہے کہ اب شاید اصول و ضوابط برائے نام حد تک بھی باقی نہ رہیں کیونکہ آگ گھر کی دہلیز تک پہنچ چکی ہے۔ شاید اِسی لیے حد سے بڑھی ہوئی مخالفت میں بھرم برقرار رکھنے کی روایت کو ہی فراموش کر دیا گیا ہے۔ پکڑ دھکڑ کا ایسا سلسلہ جاری ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بظاہر یہ سلسلہ جلد ختم ہونے کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے‘ کیونکہ مخالفین کو سبق سکھانا سیاسی بقا کی ضرورت بن چکی ہے۔ اِسی ضرورت کی تکمیل کے لیے ہرممکن حربہ آزمایا جارہا ہے۔ جمہوریت کے تیرہ چیمپئنز اِس غیر سیاسی و غیر جمہوری عمل میں پوری طرح حصہ لے رہے ہیں۔ تازہ پیش رفت یہ ہے کہ قومی اسمبلی نے اب پارلیمنٹ کی توہین کا قانون بھی منظور کرلیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنے دورِ اقتدار میں دوسروں کی زبان بندی کے لیے مختلف حربے اپنانے والے اپنی باری آنے پر شور کیوں مچاتے ہیں؟
موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں ملک کے اندر خوف کی ایک فضا پیدا ہوچکی ہے۔ گمان ہے کہ سخت اقدامات سے سیاسی مخالفین کو کچل کر رکھ دیا جائے گا لیکن ایک بہت بڑااور اہم سوال یہ ہے کہ ماضی میں جن سیاسی جماعتوں کے خلاف اِسی طرح کے اقدامات کیے گئے تھے‘ کیا وہ ختم ہو گئیں؟ عوامی لیگ کو کچلنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ ایک موقع پر میانوالی جیل میں شیخ مجیب الرحمن کی قبر بھی کھود لی گئی تھی لیکن پھر وہی شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش کا صدربنا اور نہ صرف اُس کی حکومت بلکہ ملک کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔ ضیاء الحق دور میں پیپلزپارٹی کے خلاف کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی تک دے دی گئی۔ پیپلز پارٹی کے مقابل لسانی بنیادوں پر ایک جماعت قائم کی گئی۔ یہ الگ بات کہ پھر اُس جماعت کازور توڑنے کے لیے کئی مرتبہ آپریشن کرنا پڑا۔ بہرکیف‘ پیپلزپارٹی پوری قوت سے اپنی جگہ قائم رہی اور بعد میں بینظیر بھٹو دو بار ملک کی وزیراعظم اور آصف علی زرداری صدرِ مملکت بنے۔ اِس سے پہلے نیپ بھی حکومتی عتاب کی زد میں آئی تھی لیکن بعد میں یہ نام بدل کر ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرتی رہی اور اب تک کر رہی ہے۔ مختصراً یہ کہ آج اگر ایک سیاسی جماعت کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے تو کیا ایسا کرنے سے یہ جماعت ختم ہوجائے گی؟یقینا نو مئی کو پیش آنے والے واقعات انتہائی افسوس ناک ہیں اور اِس سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ سانحہ نومئی کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے لیکن وقت کا تقاضا یہ ہے کہ شفافیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ محض سیاسی مخالفین کو پھنسانے یا اپنی سیاست کو بچانے کے لیے اس سانحے کو استعمال نہ کیا جائے۔ سیاسی مخالفت میں اخلاقیات پامال نہ کی جائیں اور جمہوریت کا بھرم برقرار رہنے دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں