"FBC" (space) message & send to 7575

ایک دن اندرون شہر لاہور میں

لاہور کے اندرون شہر میں آنا جانا تو لگا رہتا ہے۔ یہ وہ عشق ہے جس نے زمانہ طالب علمی میں ہی ہمیں اپنے زیرِ اثر کر لیا تھا۔ فرصت کے اوقات میں اندرون شہر کی گلیوں میں گھومنا اور وہاں سے نان چنے کھا کر ٹھنڈا پانی پینے جیسی عیاشی‘ یہ سب کچھ حقیقتاً بہت شاندار محسوس ہوتا تھا۔ سب سے زیادہ لطف مسجد وزیرخان کے قریب وقت گزارنے میں آتا تھا۔ اِس کی کوئی خاص وجہ تو بیان نہیں کی جاسکتی لیکن اِس مسجد کے اردگرد گھومنا پھرنا بہت بھلا محسوس ہوتا تھا۔ زمانۂ طالب علمی کے دوران اندرون شہر سے استوار ہونے والا رشتہ آج تک برقرار ہے۔ ایک روز فیصلہ ہوا کہ کیوں نا ایک پورا دن اُنہی گلیوں میں گزارا جائے جہاں بچپن کے دنوں میں آنا جانا ہوتا تھا۔ یہ فیصلہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تفصیلاً جائزہ لیا جائے کہ والڈ سٹی اتھارٹی ہمارے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے یا اِسے بہتر بنانے میں کس حد تک کامیاب رہی ہے۔ سو چند روز پہلے کشاں کشاں دہلی دروازے سے اندرون شہر میں قدم رنجہ فرما دیا۔ وہ سب رونقیں اپنے عروج پر تھیں جو ہمیشہ سے شہر لاہور کا خاصا رہی ہیں؛ البتہ دہلی دروازے کے باہر بڑی تعداد میں تجاوزات بھی نظرآئیں۔ کہیں پر چکن فروخت ہورہا تھا اور کہیں چائے کی پتی اور دیگر اشیائے خورونوش کا کاروبار جاری تھی۔ مختلف اشیا بیچنے والے بھی اچھی خاصی تعداد میں دکھائی دیے، بڑی تعداد میں موٹر سائیکل رکشے سڑک کے وسیع حصے کو گھیرے ہوئے نظر آرہے تھے۔ یہ منظر اندرون
شہر کے طلسم کو زائل کر رہا تھا کیونکہ اندرون شہر کے داخلی راستے کی یہ صورت حال یہاں آنے والوں کے لیے حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے۔ یہ سب دیکھ کر دل میں یہی خیال اُبھرا کہ معلوم نہیں اندر کی صورتحال کیسی ہوگی لیکن دہلی دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی صورتحال یکسر تبدیل ہوجاتی ہے۔ واضح رہے کہ مغلیہ دور میں اہم شخصیات لاہور میں آمد و رفت کے لیے اکثر یہی راستہ استعمال کرتی تھیں۔ یہی سبب ہے کہ یہ راستہ شاہی گزر گاہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اندرون شہر میں زیادہ تاریخی عمارتیں اِسی گزرگاہ پر واقع ہیں۔ ایسی عمارتوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں آج بھی بہت سی عمارتیں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
دہلی دروازے سے اندرداخل ہوکرجب شاہی گزرگاہ پر قدم رکھا تو تاریخ کے مختلف مناظر آنکھوں میں گھومنے لگے۔ چشمِ تصور نے پل بھر میں اُس دور میں پہنچا دیا جب اِس گزرگاہ پر ہٹوبچو کا شور بپا رہتا ہوگا۔ اُس دور کی بڑی بڑی شخصیات اُسی شان سے آتی جاتی ہوں گی جس شان سے آج کے حکمران ایک سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں۔ جن کے آگے پیچھے ہوٹر بجاتی ہوئی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ محافظوں کی ایک فوج ظفر موج اُن کی حفاظت پر مامور ہوتی ہے۔ اُس دور میں بھی یہی سب کچھ ہوتا ہو گا۔ ہاتھی‘ گھوڑوں پر سوار حکمرانوں اور شہزادوں کی آمد پر اُن کے محافظوں کی جان پر بن آتی ہوگی۔ عام لوگوں کو کونوں کھدروں میں دھکیل دیا جاتا ہوگاکہ خبردار! جب تک بادشاہ سلامت کی سواری نہ گزرجائے‘ اپنی شکل مت دکھانا۔ آج وہ حکمران اور شہزادے قصہ پارینہ بن چکے ہیں اور آج کے حکمران بھی ایک نہ ایک روز مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گے لیکن معلوم نہیں یہ ''شوآف‘‘ کا چلن کب تبدیل ہو گا۔ حاکموں کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ لوگ ہم سے ڈریں‘ ہمیں دیکھتے ہی اِدھر اُدھر ہوجائیں اور ہم پر کسی عام آدمی کا سایہ بھی نہ پڑے۔ عوام کے پیسوں سے ہی عیاشی کی جاتی ہے اور اُنہی پر رعب ڈالا جاتا ہے۔ شاید جن ممالک میں کوئی قانون اور ضابطہ نہیں ہوتا‘ وہاں یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ گزرے وقتوں میں یہ سب کچھ بادشاہت کی چھتری تلے ہوتا تھا اور ہمارے جیسے معاشروں میں آج اسے جمہوریت کا نام دے دیا گیا ہے۔
یہی سب کچھ سوچتے ہوئے دہلی دروازے سے ملحقہ شاہی حمام میں داخل ہوئے تو وہاں کے انچارج نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ حکیم علم الدین انصاری کا تعمیر کردہ شاہی حمام ماضی کی نسبت کہیں زیادہ صاف ستھر ا اور بہتر حالت میں دکھائی دیا۔ اسے 1635ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ حکیم علم الدین انصاری اپنے دور کی باکمال شخصیت تھے۔ انہیں طب میں خاص مہارت حاصل تھی۔ وزیرخان کے نام سے جانے جانے والے حکیم علم الدین کو مغل دربار تک بھی رسائی حاصل تھی اور وہیں سے اُنہیں وزیرخان سمیت مختلف القابات سے نوازا گیا۔ آج سے کچھ سال پہلے تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ شہر لاہو رمیں شاہی حمام اپنی نوعیت کی واحد تعمیر ہے مگر چند سال پہلے جب لاہور کے شاہی قلعے میں ''اکبری حمام‘‘ برآمد ہوا تو یہ معلوم ہوا کہ شاہی حمام اکبری حمام کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا؛ البتہ یہ اکبری حمام کی نسبت کافی وسیع رقبے پر تعمیر کیا گیا۔ اِس حمام کے طرزِ تعمیر کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جگہ صرف نہانے دھونے کے لیے ہی استعمال نہیں ہوتی تھی بلکہ اِس جگہ کو لوگ باہمی میل ملاقات کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔ اکثر یوں بھی ہوتا تھا کہ رات کے اوقات میں چونکہ شہر کے دروازے بند کردیے جاتے تھے تو دوسرے شہروں سے آئے ہوئے لوگ شہر کے داخلی دروازوں کے قریب بیرونی اطراف میں رات گزارتے تھے۔ صبح کے وقت وہ دوبارہ شہر کے اندر داخل ہوتے؛ البتہ دہلی دروازے سے شہر میں داخل ہونے والوں کو اِس حمام سے قیمتاً استفادہ کرنے کی سہولت حاصل ہوتی تھی۔ آج شاہی حمام میں پانی کو گرم اور ٹھنڈا رکھنے کا مکمل نظام اچھی طرح محفوظ کیا جا چکا ہے۔ اِس حوالے سے یقینا وہ ماہرین داد کے مستحق ہیں جنہوں نے ایک ایک انچ پر انتہائی احتیاط سے کام کیا مبادا حمام کے سٹرکچر کوکوئی نقصان پہنچ جائے۔ شاہی حمام کو دیکھنا ایک اچھا اور خوشگوار تجربہ رہا۔
شاہی حمام کے عین سامنے لاہور کی مشہور اکبری منڈی واقع ہے جہاں تھوک میں اشیائے خور و نوش کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ یہ منڈی چونکہ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں بنی تھی تو اِسی مناسبت سے اِسے اکبری منڈی کا نام دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے مشہور بھارتی فلم جودھا اکبر میں بھی ایک منظر دکھایا گیا ہے کہ شہنشاہِ ہند بھیس بدل کر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ منڈی میں اشیا کے بھاؤ چیک کرتے ہیں۔ یہ کافی عجیب محسوس ہوتا ہے کہ اتنی شاندار عمارت کے سامنے عجیب ہڑبونگ مچی رہتی ہے۔ یہاں آنے والے مختلف اشیائے خورونوش اور مختلف مسالاجات کی خوشبو سونگھتے ہوئے حمام کے اندر داخل ہوتے ہیں اور پھر واپسی پر بھی اِس تجربے کا لطف اُٹھاتے ہیں۔ یہی سب کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا جس کے بعدہم سورجن سنگھ گلی کی طرف بڑھ گئے۔ شاہی حمام سے کچھ ہی آگے مشہور سورجن سنگھ گلی ہے جسے کچھ عرصہ پہلے والڈ سٹی اتھارٹی نے خوبصورت طریقے سے سجا یااور سنوارا ہے۔ یہاں کا سیوریج سسٹم بہتر بنایا گیا‘ بجلی کی تمام تاروں کو بھی کور کردیا گیا۔ گلی کے اندر موجود تمام مکانات کے بیرونی حصوں کی نئے سرے سے مرمت کی گئی اور اسے پھولوں اور پودوں سے سنوارا گیا۔ یقینا اب اس گلی کا وزٹ کسی بہترین تجربے سے کم قرار نہیں دیاجاسکتا۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ سورجن سنگھ ایک حکیم تھے جن کی رہائش اِسی گلی میں تھی اور اُن کا مطب بھی اس گلی کی نکڑ پر تھا۔ اُس زمانے میں طب میں اُن کی مہارت کا بہت چرچا تھا اور لوگ دور دراز علاقوں سے اُن کے پاس آیا کرتے تھے۔ اِس گلی کی ایک انتہائی تنگ ذیلی گلی کے بارے میں ہی مشتاق یوسفی صاحب کا ایک جملہ بہت مشہور ہے۔ یوسفی صاحب کہتے ہیں کہ لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے کوئی خاتون اور دوسری طرف سے کوئی مرد آجائے تو بس پھر نکاح کی گنجائش ہی بچتی ہے۔ سورجن سنگھ گلی سے تھوڑا آگے بڑھیں تو ''مغلاں دا کھوہ‘‘ دکھائی دیتا ہے۔ یہ کنواں 1857ء میں میاں محمد سلطان کے منشی نظام الدین نے تعمیر کرایا تھا۔ میاں محمد سلطان بھی لاہور کا ایک بہت اہم کردار ہیں جن کا تذکرہ ہم آئندہ کالم میں کریں گے۔ اِس کنویں کے حوالے سے جاوید مغل صاحب سے بات ہوئی جنہوں نے اِس بارے کافی تفصیل سے بتایا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں