"FBC" (space) message & send to 7575

ایسا مت کریں!

وفاقی وزیر داخلہ صاحب اپنے بیانات کی وجہ سے آئے دن شہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔ گزشتہ حکومت کے دور میں سیاسی بنیادوں پر جب ان پر جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا تھا اور انہیں اس کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑی تھیں تو اس وقت تمام سنجیدہ سیاسی و غیر سیاسی طبقات کی ہمدردیاں اُن کے ساتھ تھیں۔ اب وقت گزر گیا ہے تو موجودہ اطوار دیکھ کر کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا کہ یہ وہی صاحب ہیں۔ گزشتہ روز وہ یہ کہتے سنائی دیے کہ وہ ملزمان‘ جو اب تک گرفتار نہیں ہوئے‘ اُن کے اہل خانہ کو گرفتار کر لینا کوئی غلط بات نہیں ہے۔ جب خود پر پڑی تھی تو قانون کی بالادستی کی دہائی دی جاتی تھی مگر آج جب وہ وقت گزر گیا ہے تو اندازِ گفتگو بالکل ہی تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔
صرف وزیر داخلہ پر ہی کیا موقوف‘ وزرا کی فوج ظفر موج باجماعت اپنے بیانیے کی حمایت میں عدلیہ کے خلاف محاذ کھولے نظر آتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ سیاست میں جوش اور جذبات سے بھی کام لینا پڑتا ہے لیکن جوش میں ہوش کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ سب سے زیادہ افسوس عدلیہ پر کیے جانے والے زبانی حملوں پر ہے۔ ایک سے زائد مواقع پر عرض کر چکے ہیں کہ اگر انصاف کا یہ جیسا تیسا نظام بھی اپنی افادیت کھو بیٹھا تو کیا ہو گا؟ کیا ہمیں ذرا سا احساس بھی نہیں کہ وقت بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ معلوم نہیں ہم یہ کیوں بھول گئے کہ ایسے ہی رویوں کا مظاہرہ جانے والے بھی کیا کرتے تھے اور آج اُن کی حالت دیکھ لیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہی عدالتیں ہیں جہاں سے بے شمار مواقع پر پی ڈی ایم اتحادیوں کو بھی ریلیف ملتا رہا ہے۔ مسلم لیگ کے قائد ایک عدالتی فیصلے ہی کے نتیجے میں بیرونِ ملک روانہ ہوئے تھے۔ سب سے بڑھ کر‘ موجودہ حکومت تو سراسر ایک عدالتی فیصلے کی مرہونِ منت ہے، لہٰذا عدلیہ کو اِس طرح دباؤ میں لانے کا طرزِ عمل سراسر غلط ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آج کل صحیح اور غلط سے کسی کو کوئی غرض نہیں رہ گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عدلیہ کو دباؤ میں لانے کے لیے خود حکومتی اتحاد نے سپریم کورٹ کے باہر ایک سیاسی پاور شو کا انعقاد کیا۔ پھر وہاں‘ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے دروازے کے سامنے جس طرح کی گفتگو کی گئی‘ اُسے سن کر سر شرم سے جھک گیا تھا۔ اس دھرنے نما جلسے میں کی جانے والی تقریریں سن کر احساس ہوا کہ ایک موقع پر پی ٹی آئی کے سربراہ نے ایک خاتون جج کے خلاف ایک تقریر کی تھی جس پر اُن کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ ہوگیا تھا۔ ایک طرف تو یہ عالم اور دوسری طرف سرعام ججز کو نشانے پر رکھنے والوں کو داد دی گئی۔
آج جس طرح ریاست کے ایک اہم ادارے یعنی عدلیہ کو بے توقیر کیا جا رہا ہے، اُسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ شاید آزاد عدلیہ ہمیشہ سے ہی حکمرانوں کے راستے کا کانٹا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسے کمزورکرنے کی کوششیں ہمیشہ اور ہر دور میں جاری رہتی ہیں۔ آج کل یہ کوششیں کچھ زیادہ ہی تیز ہوگئی ہیں۔ ایسا کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ وقت اب زیادہ دور جب موجودہ حکمران عدلیہ سے ریلیف حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آئیں گے۔ ابھی تو راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے چنانچہ وہ جذبات کے گھوڑے پر سرپٹ بھاگتے چلے جا رہے ہیں‘ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اگر وقت تبدیل ہو گیا تو کیا ہوگا؟ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہی ہے کہ ہمارے سیاستدان ہمیشہ ہی غیر جمہوری طاقتوں کے لیے اپنا کندھا پیش کرتے رہے ہیں اور آپس میں مل بیٹھنے کو عار یا عیب سمجھتے رہے ہیں۔ جب ایک اقتدار میں آتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اقتدار ہمیشہ اُس کے گھر کی باندی بنا رہے گا۔ ماضی قریب تک حکمرانی کرنے والے یہی خیال کیا کرتے تھے اور آج اُن کی دہائی سبھی کو سنائی دے رہی ہے۔ جانے والوں نے بھی کئی مواقع پر ایسی ہی روش اپنائی جیسی روش آج والے اختیار کیے بیٹھے ہیں۔ آج والوں کو تو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ یہ تین مرتبہ پہلے بھی وقت سے قبل اقتدار سے محروم کیے جا چکے ہیں۔ فی الحال تو سب ایک مشترکہ مخالف کے خلاف اکٹھے ہو چکے ہیں لیکن اس کے بعد کیا ہو گا؟ دور کی نظر رکھنے والوں کو ابھی سے جوتیوں میں دال بٹتی نظر آ رہی ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ براہِ کرم نظام عدل سمیت اداروں کو ان کا کام کرنے دیں۔ یہ تسلیم کہ متعدد مواقع پر عدالتوں کی کارکردگی قابل رشک نہیں رہی۔ اِس حوالے سے بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ متعدد سابق چیف جسٹس صاحبان اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے رہے ہیں۔ اِس کی دو نمایاں مثالیں افتخار محمد چودھری اور ثاقب نثار ہیں۔ افتخار چودھری صاحب نے پیپلز پارٹی حکومت کو زچ کرکے رکھ دیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے دور میں اتنے از خود نوٹسز لیے کہ خدا کی پناہ! یہی حال جسٹس ثاقب نثار کا تھا۔ ایسی کتنی ہی مثالیں دی جا سکتی ہیں جب عدلیہ کے فیصلوں میں واضح طور پر جانبداری کا عنصر دکھائی دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اِس کی ایک بڑی مثال ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ ٹھیک لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی آڑ میں رہے سہے نظام کو مزید خراب کیوں کیا جائے؟ حکومت کی کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ وہ نظام عدل کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے نہ کہ عدالتوں کو مزید زیر بار کرے۔ حالات یہ ہو چکے ہیں کہ دنیا کے 128ممالک میں ہمارے ملک کا نظام عدل 120ویں نمبر پر ہے۔ جس ملک میں نظام عدل کی یہ صورتحال ہو‘ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں لوگوں کو کس طرح کا انصاف مل رہا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ اِس نظام کو ہمیں بہتر بنانا ہے یا اِسے مزید خراب کرنا ہے؟ موجودہ اربابِ اختیار کا طرز عمل سراسر غلط ہے جس کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔ کسی بھی برسر اقتدار جماعت کو ایسا طرزِ عمل اختیار کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ ہمارا یہ طرز عمل بیرونی دنیا میں بھی شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔ آج یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم گہرے گڑھے کے کنارے پر کھڑے ہیں۔ اِس کے باوجود بھی اگر ہم نہ سوچیں تو پھر ہماری تنزلی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
اگر دیکھا جائے تو اتنے سنگین حالات کے باوجود ہمارا طرزِ عمل کس طور بھی سنجیدگی کا عنصر لیے ہوئے نظر نہیں آتا۔ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہے‘ اس سے قطع نظر ہم اپنے آپ میں ہی مگن ہیں۔ ہمیں اِس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ امریکہ‘ بھارت گٹھ جوڑ ہمارے لیے کیسی کیسی پریشانیاں لے کر آنے والا ہے۔ اُن کی طرف سے نام لے کر کہا گیا ہے کہ ہمیں دہشت گردی کو روکنا ہے۔ جو کچھ ہم سیاسی جماعتوں کو تنہا کرنے اور اپنے مخالفین کے خلاف کرتے رہے ہیں‘ آج وہی سب کچھ ہمارے خلاف ثبوت بن چکا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں مزید کسی آزمائش سے بچائے لیکن ہمیں خود بھی تو نیک نیتی کے ساتھ کچھ تدبیر کرنی چاہیے۔ ہم آج بھی نت نئے تجربات میں مصروف ہیں۔ پہلے لیبارٹری میں ایک تجربہ کرتے ہیں‘ اس کے نتائج توقع کے برخلاف بلکہ تباہ کن نکلتے ہیں تو پھر اس کے نقصان کی بھرپائی کرنے نکل پڑتے ہیں۔ بس یہی رنگا رنگ تجربات ہیں جنہوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور باز ہم پھر بھی نہیں آ رہے۔ آج کل حکومتی توجہ کا واحد نقطہ ایک سیاسی جماعت ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نہ تو مہنگائی ہمارا بڑا مسئلہ ہے اور نہ ہی ہمیں معاشی بدحالی سے کوئی خطرہ ہے۔ نہ تو ہمیں امریکہ، بھارت گٹھ جوڑ کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی بدلتے عالمی حالات سے کوئی پریشانی ہے۔ بس کسی طرح سیاسی میدان صاف ہو جائے تو وارے نیارے ہو جائیں۔ عدلیہ کو نشانہ بنانے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ اُس کی طرف سے مخالفین کو کوئی ریلیف نہ مل سکے۔ ریلیف تو کیا ملنا ہے‘ عدالت اگر کسی کو رہا کرتی ہے تو عدالت کے دروازے پر ہی رہا ہونے والے کو دوبارہ کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ کئی افراد کو تو چھٹی‘ ساتویں بار گرفتار کیا گیا ہے۔ جن کے خلاف جائز مقدمات ہیں‘ ان سے قانون کے مطابق نمٹیں مگر اس طرح ذاتی بغض، عناد اور تعصب کا مظاہرہ کر کے معاشرے میں نفرت کو ہوا مت دیں۔ نفرتوں نے پہلے ہی معاشرے کی خلیج میں بے انتہا اضافہ کر دیا ہے، خدارا! اب ایسا مت کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں