"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ تبدیل ہوا‘ نہ ہوگا

ہماری قومی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا دور گزرا ہو جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ وہ بہت اچھا اور مثالی تھا۔ صورتِ حال ہمیشہ ہی سے ایسی رہی کہ ملک کے نازک دور سے گزرنے کی باتیں ہمیشہ سنائی دیتی رہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی روش، وہی من مانیاں، وہی مافیاز کی لوٹ مار، وہی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا چلن، وہی سیاسی جماعتوں کی توڑ جوڑ اور اپنے مفادا ت کے لیے مختلف گروہوں کی پرورش اور وہی دن رات عوام سے جھوٹ و فریب۔ آج صورتِ حال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ حالات قابو سے مکمل باہر ہو چکے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا عفریت بھی مسلسل پروان چڑھتا جا رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ ملنے والی مغربی سرحد سے مسلسل تشویش ناک خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ حال ہی میں چترال میں بعض چوکیوں پر دہشت گردوں نے ایک بڑا حملہ کیا۔ دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے ہمارا غیر متزلزل عزم اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب دہشت گردی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ بلوچستان سے آنے والی خبریں بھی دل دہلا رہی ہیں۔ حالیہ عرصے میں سب سے بڑا ستم یہ ہوا کہ آئین اور عدالتوں کو بے توقیر کرکے رکھ دیا گیا۔ عدالتیں کسی فرد کی رہائی کا حکم جاری کرتی ہیں لیکن رہا ہونے والوں کو فوراً ہی کسی دوسرے کیس میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارا عدالتی نظام قابل فخر ہرگز نہیں ہے۔ انصاف کی فراہمی میں دنیا بھر میں ہمارا عدالتی نظام 130ویں نمبر پر ہے۔ حصولِ انصاف کے لیے نسلوں کی نسلیں کھپ جاتی ہیں لیکن انصاف نہیں مل پاتا۔ یہ بھی درست ہے کہ یہاں پر تاخیری حربے اس قدر تواتر سے استعمال کیے جاتے ہیں کہ سالہا سال گزر جانے کے باوجود بھی کیسز کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ پھر عدالتی نظام کے سقم‘ کبھی وکیل بیمار‘ کبھی جج چھٹی پر اور کبھی عدالتی تعطیلات۔ مگر حالیہ ڈیڑھ‘ دو سال کے عرصے میں جو کچھ دیکھنے کو ملا ہے‘ اس کے بعد سے اس نظام پر سے بھروسہ بالکل ہی اٹھ گیا ہے۔ ہرکوئی اب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہا ہے اور یہی پوچھتا نظر آتا ہے کہ آخر اِس ملک کا کیا بنے گا؟ پے درپے تجربات نے ہمیں اُس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب بہتری کی اُمید بھی ختم ہونے لگی ہے بلکہ بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے۔ گزشتہ روز ہی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا کے 30 ممالک میں کیے گئے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی حمایت عالمی اوسط سے کہیں کم ہے اور 30 ممالک میں پاکستان جمہوریت کی حمایت کے حوالے سے 28ویں نمبر پر ہے۔ اس خطے میں بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا سمیت سبھی ممالک میں جمہوریت کی حمایت زیادہ ہے مگر پاکستان کا شمار آخری ملکوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے بعد سعودی عرب اور روس ہی رہ جاتے ہیں۔ اوپن سوسائٹی کے اس سروے میں ایک اور بات یہ سامنے آئی کہ نوجوان جمہوریت سے زیادہ مطلق العنانیت کو بہتر نظامِ حکومت تصور کرتے ہیں۔ یہ نکتہ ہمارے لیے اس اعتبار سے اہم ہے کہ پاکستان میں نوجوان ووٹرز کا تناسب دو تہائی کے قریب ہے۔ بلاشبہ یہ صورت حال اِس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ کہیں پر کوئی بہت بڑی غلطی ہوئی ہے جس نے سب کچھ اُلٹ پلٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ افسوس کہ اتنی خراب صورت حال کے باوجود ہمارے رویوں میں کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔یادش بخیر! پرویز مشرف نے اپنے دور میں جب کالاباغ ڈیم بنانے کے لیے راہ ہموار کرنے کی عوامی رابطہ مہم شروع کی تو اُنہوں نے سندھ میں منعقدہ کئی عوامی اجتماعات میںخود شرکت کی اور وہاں کے عوام کو کالاباغ ڈیم کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔ ایسے ہی ایک اجتماع کی سرکاری ٹی وی نے لائیو کوریج کی تھی۔ پرویز مشرف نے اپنی تقریر میں کہا کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے سندھ کے حصے کے پانی میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور اگر سندھ کے عوام چاہیں تو اِس کے لیے اُنہیں آئینی ضمانت فراہم کی جا سکتی ہے۔ آئین کو معطل کر کے اقتدار سنبھالنے والے پرویز مشرف آئینی ضمانت کی بات کر رہے تھے۔ ان کی تقریر کے بعد وہاں کے مقامی رہنمائوں کو تقاریر کا موقع دیا گیا۔ اِن میں سے ایک مقرر نے اپنی تقریر میں برملا اِس بات کا اظہار کیا کہ سر! آپ کس آئین کی بات کر رہے ہیں۔ یہاں تو آئین کو ہی پامال کر دیا جاتا ہے‘ ایسے میں آئینی ضمانت ہمارے کس کام آئے گی؟
یہ قریب دو دہائی پرانا واقعہ ہے۔ آج صورت حال میں کتنا بگاڑ پیدا ہوچکا ہے‘ اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی بہت بحث طلب معاملہ ہے کہ کس کس نے آئین کا حلیہ کیسے کیسے انداز میں بگاڑا اور کیسے بگاڑنے کی کوشش کی۔ کیا سیاسی جماعتیں اور کیا آمر‘ سب نے بقدرِ جثہ اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اگر حالیہ چند برسوں کی بات کریں تو گزشتہ پانچ‘ چھ سال کے دوران کیا کیا کھیل نہیں کھیلے گئے؟ لیکن کون ہے جو ان کھیل تماشوں پر کھل کر بات کر سکے۔ پہلے ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل کیا گیا اور اچھی بھلی چلتی ہوئی حکومت کو رخصت کیا گیا۔ پھر ان سابق وزیر اعظم جلاوطن ہونے پر مجبور کیا گیا۔ اُس کے بعد2018ء کے انتخابات میں جس طرح پسندیدہ افراد کی سرپرستی کی گئی‘ وہ معاملہ بھی اب کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ خاصی کوششوں سے جس جماعت کو اقتدار میں لایا گیا‘ پھر اُس کا ہی اقتدار ختم کرنے کے لیے ہرحربہ استعمال کیا گیا۔ تیرہ‘ چودہ جماعتوں کا ایک غیرفطری اتحاد قائم کرکے حکومت کی باگ ڈور اُس کے ہاتھ میں سونپ دی گئی۔ اِس اتحادی حکومت نے سولہ ماہ میں عوام کے ساتھ ساتھ معیشت کا بھی بھرکس نکال کر رکھ دیا۔ اتحادی حکومت کے کارنامے اب تسلسل کے ساتھ ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرکے عوام کی زندگی اجیرن کردی گئی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے لیے ہرناروا شرط تسلیم کی گئی۔ مہنگائی کی شرح تیس فیصد تک پہنچا دی گئی جو ابھی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ سٹیٹ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہباز حکومت کے پندرہ ماہ کے دوران قرضوں میں 41.7 فیصد کی رفتار سے اضافہ ہوا۔2021ء میں ملک کے معاملات کچھ پٹڑی پر چڑھتے محسوس ہو رہے تھے، کاروباری رفتار میں تیزی آئی تھی، پیداواری عمل کو مہمیز ملی تھی اور کچھ بہتری کی امید اجاگر ہوئی تھی مگر سیاسی بساط پر ایسی چالیں چلی گئیں کہ عوام کی زندگی تو اجیرن ہوچکی، ملکی معیشت بھی بدترین دور میں داخل ہوچکی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں ہمارا اعتبار ختم ہو چکا ہے۔ دنیا میں نئے معاشی اتحاد وجود میں آ رہے ہیں، نئے اکنامک کاریڈورز کی بات ہو رہی ہے لیکن ان میں ہمارا کہیں ذکر ہی نہیں۔ اس سب کے باوجود ہم اپنی روش تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اِن حالات میں اگر کسی کے ذہن میں یہ امید باقی ہے کہ ملکی حالات میں جلد کوئی بہتری آسکتی ہے تو اُسے اپنی یہ غلط فہمی دور کرلینی چاہیے۔ جو احباب جلد انتخابات کی توقع لگائے ہوئے ہیں‘ اُنہیں بھی اِس خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے۔ کسی بھی ملک میں نظامِ انصاف ہی امید کی آخری کرن ہوتا ہے‘ اگر اسے ہی بے توقیر کر دیا جائے تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ ہمارے سیاستدان اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں کسی پر بھی‘ کبھی بھی برا وقت آسکتا ہے اور ایسے میں عدالتیں ہی اُس کی داد رسی کر سکتی ہیں مگر اِس کے باوجود پی ڈی ایم نے عدلیہ بارے انتہائی نامناسب رویہ رکھا۔ ان نامساعد حالات میں بھی آئین پر پوری طرح عمل درآمد ہمیں بحرانوں سے نکلنے کی راہ سجھا سکتا ہے لیکن اُسے ہم تسلیم کرنے کے لیے ہی تیار نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں