"FBC" (space) message & send to 7575

نئے بیانات‘ نئے پینترے

آخرکار میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے تاریخ کا باقاعدہ اعلان کیا جاچکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی بھرپورکوشش ہے کہ وطن واپس پر میاں نواز شریف کا شاندار استقبال کیا جائے۔ نواز شریف صاحب چار ہفتوں کے لیے ضمانت پر علاج کے لیے لندن گئے تھے‘ ہوتے ہوتے یہ چار ہفتے چار برس پر محیط ہوگئے۔ لندن میں اپنے قیام کے دوران اُنہوں نے متعدد ممالک کا سفر کیا‘ کچھ ہفتے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں بھی گزارے لیکن جب بھی پاکستان واپسی کی بات ہوتی تو (ن) لیگ کے ذرائع کی جانب سے یہی بتایا جاتا کہ ڈاکٹرز نے اُنہیں پاکستان جانے کی اجازت نہیں دی۔ پی ڈی ایم کی حکومت‘ جو عوامی حلقوں میں نواز لیگ کی حکومت سمجھی جاتی ہے‘ کے دوران قوم کو جو زخم دیے گئے اُن کو پسِ پشت ڈالنے کے لیے اب یہی حل بچا ہے کہ نواز شریف کو وطن واپس بلا کر عوامی جذبات کی شدت میں کمی لائی جائے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ یہی ہے کہ حکومت میں صرف ان کی جماعت شامل نہیں تھی بلکہ حکمران اتحاد تیرہ سے زیادہ پارلیمانی جماعتوں پر مشتمل تھا، لہٰذا تمام خرابیوں کیلئے اسے ذمہ دار ٹھہرانا کسی طور بھی انصاف نہیں۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی اپنی صفائیاں پیش کررہی ہے اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن کے پاس اپنے دلائل ہیں۔ مجموعی طور پر سابقہ حکمران اتحاد میں شامل کوئی ایک جماعت بھی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے اور اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سولہ ماہی حکومت کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) ہی کو پہنچا ہے۔ پنجاب‘ جسے مسلم لیگ (ن) کا گڑھ قرار دیاجاتا تھا‘ اب یہاں پر اِس جماعت کے ووٹ بینک میں واضح طور پر کمی آچکی ہے۔ مسلم لیگ کو اب یہ خدشہ ستا رہا ہے کہ اگر پنجاب ہی اُس کے ہاتھ سے نکل گیا تو وہ تو کہیں کی نہیں رہے گی۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے اس صورتحال پر خوب تبصرہ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہی اس کے لیے گڑھا بن گیا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ اب نواز لیگ کو اُمید ہے کہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے اُس کے لیے کسی حد تک صورتحال بہتر ہوجائے گی لیکن ایسا شاید ممکن نہ ہوسکے۔ آج پوری قوم مہنگائی کی چکی کے دونوں پاٹوں میں پس رہی ہے اور غالب اکثریت کے نزدیک اِس کی سب سے بڑی وجہ شہباز شریف کی وزارتِ عظمیٰ ہے۔ عوام کو ان باریکیوں کا کیا علم کہ حکمران اتحاد میں تمام فیصلے اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے ہوا کرتے تھے‘ اُنہیں تو بس اتنا علم ہے کہ اگر مہنگائی بڑھے تو اِس کی براہِ راست ذمہ داری وزیراعظم پر عائد ہوتی ہے۔
مہنگائی ایک الگ مسئلہ ہے‘ دراصل پی ڈی ایم کی حکومت میں آئین اور قانون کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا‘ اُس نے بھی عوامی سطح پر کافی ردعمل پیدا کیا ہے۔ سولہ ماہ کی حکمرانی کے دوران پارلیمنٹ سے سو کے لگ بھگ بل پاس ہوئے، ایک ایک دن میں درجنوں بل پاس ہوئے۔ یہ اپنی طرز کی واحد حکومت تھی جسے کسی قسم کی اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اتنا بڑا حکومتی اتحاد عوامی فلاح و بہبود کا ایک بھی بل نہ لاسکا۔ اس پورے دورِ حکومت میں اپنے اور اپنے عزیزوں کے خلاف قائم مقدمات ختم کرانے پر زور دیا گیا اور اس کے لیے قانون بدلنے اور سرے سے ختم کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ نیب قوانین میں متعدد بار ترامیم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایسے ایسے قوانین بھی منظور کرائے گئے جن سے شخصی آزادی کو زک پہنچی۔ ایک جانب مہنگائی اور آئے روز بجلی‘ تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھا کر لوگوں کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل بنا دیا گیا تھا تو دوسری جانب اُن پر سخت قوانین بھی لاگو کردیے گئے۔ کسی کو بھی‘ کسی بھی وقت‘ بغیر وجہ بتائے گرفتار کیا جاسکے گا۔ کسی کے بھی گھر میں بغیر وارنٹ چھاپہ مارا جا سکے گا، کسی بھی فرد کو نوے روز تک حراست میں رکھا جاسکے گا اور اِسی طرح کے دیگر قوانین۔ اگرچہ بعد میں عوامی دباؤ پر اِن قوانین میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں لیکن ایسے کون سے ہنگامی حالات تھے کہ حکمران اتحاد کو یہ قوانین منظور کرانا پڑے؟بظاہر اِس کا ایک ہی مقصد تھا کہ اپنے مقدمات ختم کرائے جائیں اور دوسری طرف مخالفین کے گرد شکنجہ کسا جائے۔ اب مسلم لیگ چاہے نواز شریف کی وطن واپسی کا ٹرمپ کارڈ کھیلے یا کوئی اور بیانیہ اختیار کرے‘ اسے سولہ ماہ کی حکومت کا جواب تو دینا ہی ہوگا۔ یہ بتانا پڑے گا کہ ایک طرف آپ معاشی تنگدستی کا راگ الاپتے رہے اور دوسری طرف ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنائی گئی۔ وزیرخزانہ بلند بانگ دعوے کرتے تھے کہ میں ڈالر کو دوسور وپے سے نیچے لا کر دکھائوں گا، آج وہ کہہ رہے ہیں کہ میں ڈالر کو دو سو روپے تک لا سکتا تھا لیکن مجھے منع کر دیا گیا تھا۔ کس نے منع کیا تھا‘یہ وہ نہیں بتا سکتے۔
دوسری طرف حکومت کے خاتمے کے بعد پیپلزپارٹی نے بھی جلد سے جلد انتخابات کرانے کا بیانیہ اختیار کر لیا ہے۔ اگر وہ محض آئینی تقاضوں کی وجہ سے یہ مطالبہ کرتی کہ آئین کے مطابق نوے روز کے اندر انتخابات ہونا ضروری ہیں تو دورانِ اقتدار پنجاب اور کے پی میں بھی انتخابات وقت پر کرانے کی بات کرتی۔ اُسے بھی شاید یہ خوف ستا رہا ہے کہ انتخابات میں تاخیر سے کہیں سندھ اُس کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ ظاہری بات ہے کہ اگر نگران سیٹ اَپ طوالت اختیار کرتا ہے تو شاید اُس کے لیے سندھ میں دوبارہ حکومت بنانا اتنا آسان نہ رہے۔ اِس لیے اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئین اور قانون کی بالادستی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ قبل ازیں اپنی وزارتِ خارجہ کے دوران وہ بیرونی دنیا سے پاکستان کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ اُنہوں نے تاریخ ساز غیرملکی دورے کیے۔ یہ الگ بات ہے کہ اِن دوروں کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا؛ البتہ معاشی طور پر وینٹی لیٹر پر پڑے ملکی خزانے سے اچھی خاصی رقم ان دوروں پر خرچ کی گئی مگر آج بھی دوست ممالک کے سربراہان پاکستان آنے سے کترا رہے ہیں۔ اب انتخابات میں پیپلزپارٹی کو بھی بہت سے سوالات کا جواب دینا پڑے گا۔ کیوں پیپلزپارٹی والے اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہے‘ جن پر آج وہ کرپشن کے الزامات لگا رہے ہیں۔ کیوں ایسے قوانین کو پاس کرانے کے لیے ووٹ دیا گیا جن کا مقصد عوام کے آئینی حقوق پر قدغن لگانا تھا۔ ایک جانب مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا اور پھر ان تحفظات کے باوجود اس کی منظوری دے کر انتخابات کے التوا کا راستہ کیوں ہموار کیا گیا۔ کیا پیپلز پارٹی کو اس فیصلے کے مضمرات کا علم نہیں تھا؟
پی ڈی ایم کے تیسرے بڑے اتحادی مولانا فضل الرحمن تھے جو گاہے گاہے اپنے خیالاتِ عالیہ کا اظہارکرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اُنہوں نے ایک اجتماع میں ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں پر کافی ناراضی کا اظہار کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں کہ عوام بالخصوص نوجوان ایک ہی جماعت کے پیچھے کیوں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کافی تلخ باتیں کیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ تحریکِ عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اپنے دس اراکین کو ووٹ دینے سے منع کر دیتے تو یہ تحریک منظور ہی نہیں ہو سکتی تھی۔ بہرحال اُن کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ نے کے پی میں اُن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا اشارہ دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اِس سے دونوں کو ہی کچھ سہارا مل جائے لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں ٹف ٹائم ملنے والا ہے۔ ایک جھلک استور کے ضمنی انتخابات میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ یہ الگ بات کہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد نتیجہ حاصل کرنے کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کرنا پڑی۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ نگران وزیراعظم گزشتہ دنوں جب جی بی کے دورے پر گئے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ بولیاں لگانے نہیں بلکہ بولیوں کا گلا گھونٹنے کے لیے آئے ہیں۔ شاید وہ گلگت بلتستان میں سابق حکومت کے خاتمے کے پس منظر سے واقف نہیں تھے۔ بہرحال اب سبھی سیاسی جماعتیں نئے بیانیے بنا رہی اور نئے پینترے بدل رہی ہیں، اس سارے منظر نامے میں اہم سوال یہ ہے کہ الیکشن کب ہوتے ہیں اور کیا الیکشن تک عوام پی ڈی ایم کے دورِ اقتدار کی مشکلات کو فراموش کر چکے ہوں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں