"FBC" (space) message & send to 7575

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غورکریں

کرکٹ ورلڈ کپ اپنی تمام تر رنگینیوں، اعتراضات اور نئے ریکارڈز کے ساتھ اختتام پذیر ہو چکا۔ میچ کا فائنل بھارت اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا۔ توقع تو یہ تھی کہ پورے ٹورنامنٹ کے دوران ناقابلِ شکست رہنے والی بھارتی ٹیم فائنل میں بھی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن ایسانہ ہوسکا۔ بھارتی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ پچاس اوورز میں 240رنزبنائے۔ اہم بات یہ ہے کہ آخری بال تک پوری بھارتی ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی۔ اتنا کم ہدف دینے سے ہی معلوم پڑ گیا تھا کہ بھارتی ٹیم کے لیے اب اپنی مخالف ٹیم کو شکست دینا کافی مشکل ہو گا کیونکہ اتنے کم ہدف کا دفاع بہت مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ جس وقت بھارتی ٹیم نے میچ کا آغاز کیا تھا‘ تب اُسے دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھاکہ وہ تین سو سے ساڑھے تین سو تک کا ہدف سیٹ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ بھارتیوں کو بھی پوری توقع تھی کہ پورے ٹورنامنٹ کے دوران ناقابلِ شکست رہنے والی اُن کی کرکٹ ٹیم فائنل کا معرکہ جیتنے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن جب پوری ٹیم صرف دوسو چالیس رنز بناکرآؤٹ ہوگئی تو بھارتی شائقین کے چہرے اُتر گئے۔ اُنہیں معلوم ہوگیا تھاکہ ورلڈ کپ ہاتھ سے گیااور پھر یہی ہوا۔ آسٹریلیا نے چار وکٹوں کے نقصان پر مطلوبہ ہدف آسانی سے حاصل کر کے ایک مرتبہ پھر ورلڈ چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ چھٹی بار آسڑیلیا کرکٹ ورلڈکپ جیتنے میں کامیاب ہوا۔ بلاشبہ یہ سب کچھ بھارتی شائقین کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں لیکن ظاہر ہے کہ جب دوٹیمیں میدان میں اُترتی ہیں تو ایک ٹیم کو ہارنا ہی ہوتا ہے اور اتوارکو ہارنے کی باری بھارت کی تھی۔ البتہ اِس ہار نے پورے بھارت میں سوگ کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ دراصل پورے ٹورنامنٹ کے دوران بھارتی ٹیم نے جس شاندارکارکردگی کامظاہرہ کیا تھا‘ اُس کے باعث بھارتی شائقینِ کرکٹ نے اپنی ٹیم سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلی تھیں اور ایسا کرنے میں وہ حق بجانب بھی تھے۔ بھارتی شائقین کو یقین تھا کہ جس طرح 2011ء میں بھارت میں ہوئے ورلڈ کپ میں ان کی ٹیم فائنل جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی‘ اس بار بھی ایسا ہی ہو گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ بھارتیوں کو اپنی فتح کا خوب یقین تھا‘ خود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی میدان میں پہنچے ہوئے تھے۔ اِسی طرح بہت بڑی تعداد میں بھارتی فلم سٹارزبھی سٹیڈیم میں موجودتھے۔ بیشتر حاضرین بھارتی کرکٹ ٹیم کی کِٹ زیب تن کیے ہوئے تھے لیکن یہ سب کی سب تیاریاں دھری کی رہ گئیں اور آسٹریلیا کی ٹیم ورلڈ کپ لے اُڑی۔
یہ توہواتصویر کاایک رخ‘ اب دوسرا رخ ملاحظہ کیجئے‘ وہ رخ جس میں ہمیں اپنی سوچوں کا عکس بہت واضح طور پر دکھائی دے گا۔ جیسے ہی آسٹریلیا نے میچ میں فتح حاصل کی تو ٹی وی چینلز پر اِس قسم کے ٹکرز چلنے لگے: بھارتی سورما اپنے ہی گھر میں ڈھیر ہوگئے‘ اِسے کہتے ہیں گھر میں گھس کر مارنا۔ آسٹریلیا نے بھارتیوں کو دھول چٹا دی۔اگلے روز اخبارات میں بھی اِسی قسم کی سرخیاں پڑھنے کو ملیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ اور پڑھ کر افسوس ہوا۔ یہ سب باتیں ایک ایسی ٹیم کی بارے میں کی جا رہی تھیں جو دس میچوں میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد فائنل میں پہنچی تھی لیکن وہاں ناکام رہی۔ اِس دوران اِس نے ہماری قومی کرکٹ ٹیم کو بھی شکست دی جبکہ ہماری ٹیم بھارت کے علاوہ افغانستان، آسڑیلیا، جنوبی افریقہ حتیٰ کہ انگلینڈ سے بھی شکست کھا گئی جو پورے ٹورنامنٹ کی سب سے کمزور ٹیم ثابت ہوئی۔ اس کے برعکس بھارتی ٹیم پورے ٹورنامنٹ میں ناقابلِ شکست رہی؛ البتہ فائنل میں وہ اچھی کارکردگی کامظاہر ہ نہ کرسکی لیکن ہمارے ہاں کچھ طبقات اُس کی شکست پر ایسے خوشیاں منا رہے ہیں جیسے اُسے شکست ہم نے دی ہو۔ معاف کیجئے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ طرزِ عمل اُن معاشروں کا ہوتا ہے جو خود کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے‘ اسی لیے وہ دوسروں پر انحصار کرتے ہیں اوراپنی خوشیوں اور غموں کو دوسروں سے وابستہ کرلیتے ہیں۔ ہمیں حقیقت کے آئینے میں اپنی کارکردگی کاجائزہ لینے‘ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ہماری قومی ٹیم کی کارکردگی یہ رہی کہ نہ صرف ٹورنامنٹ کے دوران ہماری ٹیم کوئی قابلِ ذکر کارکردگی نہ دکھا سکی بلکہ ٹیم کی کارکردگی کے نتیجے میں پورا کرکٹ بورڈ ہی اتھل پتھل کا شکار ہو گیا۔ اب بہت سے راز آشکار ہو رہے ہیں کہ ٹیم کی سلیکشن کے دوران کیا کچھ ہوتا رہااور کس طرح کھلاڑیوں کو کھلایا اور باہر بٹھایاجاتارہا۔ دوسری طرف اس سے بھی انکار نہیں کہ ٹیم کی ناقص کارکردگی کے نتیجے میں اب کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتاؤں کو اپنی دبی ہوئی خواہشات کی تکمیل کا موقع مل گیا ہے۔
ورلڈ کپ کے تناظرمیں ہماری خوب دھول اڑ چکی لیکن رگید ہم اُن کو رہے ہیں جو صرف ایک میچ میں شکست کا سبب بنے۔دراصل ایسی سوچیں ایک دن میں پروان نہیں چڑھیں بلکہ یہ دہائیوں کے سفر کا شاخسانہ ہیں۔ اب ہمیں حقائق سے آگاہی حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں‘ لہٰذا جو سبق دہائیوں سے ہمیں پڑھایا جاتا رہا‘ آج اُسی ڈگرپر ہم چلتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کر رہے کہ ہم خود کتنے پانی میں ہیں۔ ہماری کرکٹ ٹیم کے حالات اتنے برے ہو چکے ہیں کہ چیف سلیکٹر کو دورانِ ٹورنامنٹ ہی استعفیٰ دینا پڑ گیا جس سے پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی۔ کرکٹ کے حلقوں میں یہ سوالات پوچھے جاتے رہے کہ ایسی کون سی آفت آن پڑی کہ چیف سلیکٹر کو دورانِ ٹورنامنٹ ہی استعفیٰ دینا پڑ گیا۔ ٹیم واپس آئی تو بابر اعظم بھی کرکٹ کے تینوں فارمیٹس کی کپتانی سے دستبردار ہو گئے۔ وہی بابر اعظم‘ جن کی تعریف میں ہم زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے‘ اب تنقید کے سب نشتر انہی پر چل رہے۔ البتہ اس سب میں اتنا ضرورہوا کہ بورڈ کے کرتا دھرتاؤں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ پہلے انضمام الحق پر اپنے عزیز کو سپورٹ کرنے کے الزامات لگتے رہے اور ہمارے لالہ جی کے داماد ٹی ٹونٹی کے کپتان بن گئے ہیں۔ بابر اعظم کی جگہ شان مسعود اب ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی کے فرائض سرانجام دیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ سب تبدیلیاں ٹی 20ورلڈ کپ میں بہتر کارکردگی کے لیے بہت ضروری تھیں۔ اگر خدانخواستہ ٹیم ایک بار پھر توقعات پر پورا نہ اُتر سکی تودوبارہ سے یہ اُکھاڑ پچھاڑ شروع ہو جائے گی۔ یہ سلسلہ ماضی میں بھی ایسے ہی چلتا رہا اور آئندہ بھی ایسے ہی چلتا رہے گا‘ لہٰذا ایک ہی طرح کے تجربات سے اگر کوئی مختلف نتیجہ اخذ کرنا چاہتا ہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
نہ صرف کرکٹ بلکہ قومی معاملات کی بھی یہی حالت ہوچکی ہے۔ پچیس کروڑ عوام کے فیصلے اُن کے اپنے ملک میں نہیں بلکہ لندن اور دبئی میں ہوتے ہیں۔ ہماری جرأت نہیں ہے کہ ہم بیرونی آقاؤں کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اُٹھا سکیں۔ کیاہی اچھاہو کہ ہم حالات کو حقیقت کی عینک سے دیکھنے کی عادت ڈالیں۔ یہ بات پتھر پہ لکیر ہے کہ حقائق کو جانے بغیر حالت کبھی نہیں سدھر سکتی۔ بدقسمتی سے آج بھی ہم حقائق کو جاننے کے لیے تیار ہیں نہ اپنی حالت میں سدھار لانے کے خواہشمند۔ سب جانتے ہیں کہ آئین و قانون کی حکمرانی ہی کسی معاشرے میں ترقی کی کلید ہوا کرتی ہے مگر ہم اپنے مفادات کے لیے سب کچھ بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حالات میں بہتری کی کوئی اُمید تک دکھائی نہیں دے رہی۔ ملک کے سیاسی حالات ہر شعبے پر اپنے منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ اِن کا ایک نتیجہ تو ہم نے ورلڈ کپ کے دوران دیکھ ہی لیا ۔ یقینا اِن باتوں سے اختلاف ہر کسی کا حق ہے لیکن اختلاف سے پہلے اِن باتوں کو اچھی طرح جانچ ضرور لیجئے‘ اُس کے بعد دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجئے کہ یہ باتیں غلط ہیں یا صحیح؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں