"SQC" (space) message & send to 7575

لیاری میں بل فائٹنگ

اس تہذیب یافتہ دنیا میں، آج بھی ایسے کھیل کھیلے جاتے ہیں، جس میں تفریح طبع کی خاطر، انسانوں کی جان چلی جاتی ہے۔ لوگ مارے جاتے ہیں، لیکن اس تمام قتل وغارت کو کھیل کا حصہ سمجھ کر اس سے حظ اٹھایا جاتا ہے ۔ اگر آپ کو اس بات پر یقین نہیں آتا تو بل فائٹنگ (Bull Fighting) کے بارے میں کوئی تفصیلی مضمون پڑھیے‘ اندازہ ہوجائے گا یہ کیسا خونی کھیل ہے جس میں ایک بپھرے ہوئے بیل کو میدان میں اتارا جاتا ہے‘ تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ بیل بپھر ا ہوا ہے اور کچھ بہادر جوان اس وحشی بیل سے مقابلے کے لیے میدان میں اترتے ہیں، انہوں نے ہاتھوں میں سرخ کپڑا پکڑا ہوتا ہے جسے دیکھ کر بیل ان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس کھیل میں کوئی ناتجربہ کار شخص بیل کی زد میں آجائے تو وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، جبکہ بیل سے لڑائی کرنے میں پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے بہادر جوان، اس لڑائی میں بالآخر بیل کو ڈھیر کردیتے ہیں۔ صدیوں سے یہ کھیل سپین اور لاطینی امریکہ کے کچھ ملکوں میں کھیلا جارہا ہے۔ سپین میں اسے وہاں کے کلچر کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اس خونی کھیل کے خلاف آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ اس وحشیانہ سرگرمی پر پابندی لگانی چاہیے۔ کیونکہ اس میں معصوم لوگوں کی اور بیل کی جان چلی جاتی ہے۔ اس کھیل میں بظاہر یہی دکھایا جاتا ہے کہ بیل بہت طاقتور اور بپھرا ہوا ہے‘ اس کا مقابلہ کرنا کسی شیردل کا ہی کام ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اترے۔ لیکن اس کھیل کی اصل حقیقت بہت مختلف ہے، بل فائٹنگ کے لیے جس بیل کو میدان میں اتار جاتا ہے‘ اسے کئی دن بالکل اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے کانوں میں گیلے اخبار ٹھونس کر اس کی سماعت کو ختم کیا جاتا ہے، اس کی آنکھوں میں ویسلین لگاکر بینائی کو دھندلا کردیا جاتا ہے، اسے کئی روز تک بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔ اس کی طاقت کو سلب کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد اسے میدان میں اتار جاتا ہے ہزاروں افراد کا مجمع یہ وحشیانہ کھیل دیکھنے کے لیے وہاں موجود ہوتا ہے۔ بیل، روشنی کے لیے اِدھر اُدھر بھاگتا ہے، بل فائٹر، تیروں کے ساتھ اس کے جسم پر حملہ کرتے ہیں‘ تیر بیل کے جسم میں پیوست ہوتے رہتے ہیں، خون بہتا رہتا ہے۔ اور مجمع اس منظر سے محظوظ ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ بیل کے جسم سے خون بہہ بہہ کر اسے کمزور کردیتا ہے، اس پر تیروں کی بوچھاڑ۔ بیل بے بسی کی حالت میں مارا جاتا ہے اور یہی اس خونی کھیل کا کلائمیکس ہے۔ تالیوں کی گونج میں ایک بے بس جانور پر اتنا ظلم کرنا اور اسے قابل فخر روایتی کھیل کا نام دینا اہل سپین ہی کا کارنامہ ہے۔ کہتے ہیں کہ دنیا بھر سے سیاح سپین آئیں تو بل فائٹنگ دیکھے بنا ، ان کی سپین کی سیاحت مکمل نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دوسری بار اس وحشیانہ کھیل کو دیکھنے کی ہمت کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے کیونکہ بیل کے ساتھ بعض اوقات اس کھیل کی زد میں آنے والے ناتجربہ کار تماشائی بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن کھیل دیکھنے والے دوسرے تماشائی اس منظر سے بھی لطف اٹھاتے ہیں۔ حیرت ہے کہ آج بھی یہ کھیل سپین میں کھیلا جارہا ہے۔ اگرچہ اس پر پابندی لگانے کے لیے بھی عالمی سطح پر آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ یہ بات تو انسانی نفسیات کے ماہرین ہی بتاسکتے ہیں کہ آخر یہ کس قسم کے انسان ہیں جو خون، لڑائی اور موت کے اس وحشیانہ کھیل سے لطف اٹھاتے ہیں، اور کیا یہ قابل علاج ہیں ؟ لیکن مجھے یہ وضاحت ضرور کرنا ہے کہ آج میرے کام کا آغاز بل فائٹنگ کے موضوع سے کیوں ہوا۔ مجھے تو لیاری کی صورت حال پر لکھنا تھا۔ وہی لیاری جو کبھی پیپلزپارٹی کا گڑھ تھا، جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سیاست کا آغاز کیا، 1967ء میں کراچی میں پہلا آفس لیاری میں قائم ہوا۔ بے نظیر بھٹو، نے جلاوطنی کے بعد سب سے پہلے لیاری میں پبلک میٹنگ کی۔ پھر اپنی شادی کے یادگار موقع پر لیاری کے غریبوں کو یاد رکھا اور یہاں کے مشہور ککری گرائونڈ میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی ہوئی۔ لیاری جہاں بہت ساری قومیتوں کے غریب محنت کش لوگ بستے ہیں، مگر آج وہی لیاری گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج رہا ہے، چھوٹے چھوٹے خستہ حال مکانوں میں رہنے والے لیاری کے غریب باشندوں پر زندگی تنگ ہوچکی ہے، گھروں پر راکٹ فائر کیے جارہے ہیں، ہرروز لیاری میں بے گناہوں کی لاشیں اٹھتی ہیں، معصوم لوگ گولیوں کی زد میں آکر زخمی ہوتے ہیں، بچے سہمے ہوئے مائوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ کب تک گھروں میں بند رہیں ، کچھی برادری کے حوالے سے خبریں عام ہیں کہ اس برادری کے تقریباً ساٹھ سے ستر ہزار افراد اپنے گھروں کو چھوڑ کر بدین، ٹھٹھہ اور عمرکوٹ کے نواحی علاقوں میں پناہ گزین ہیں۔ لیاری پر یہ ظلم کیوں۔ ایسا کون سا ایشو ہے جسے سندھ حکومت حل نہیں کرسکی اور رینجرز کی موجودگی معاملے کو سلجھانے کی بجائے الجھا رہی ہے۔ بدقسمتی سے لیاری میں اس وقت طاقت کا کھیل جاری ہے اور اس کٹھ پتلی کھیل کے سرے جن طاقتوروں کے ہاتھ میں ہیں، ان کی نفسیات بھی بالکل وہی جو بل فائٹنگ کے کھیل سے لطف اندوز ہونے والوں کی ہے۔ بے بس بیل جتنا تڑپتا ہے، تالیوں کی گونج بڑھتی ہے۔ لیاری میں سرگرم مختلف حریف گروپوں کے گینگ وار بھی بل فائٹنگ کے بظاہر بپھرے ہوئے بل کی طرح ہیں، جوحقیقت میں بے بس ہے، جس کی آنکھوں کو دھندلا اور سماعتوں کو ناکارہ کردیا گیا ہے۔ طاقتور مافیاز کے ہاتھوں میں کھیلنے والے گینگ وار میں لیاری کے غریب ، بے روزگار نوجوان شامل ہیں، جنہیں آپس میں اس لیے لڑوادیا گیا ہے کہ مبادا وہ اپنے مسائل، غربت اور بے روزگاری کے حوالے ان لوگوں کے سامنے سوال نہ اُٹھائیں جو ان کے کاندھوں پر بیٹھ کر طاقت کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں، جو لیاری کے مظلوم لوگوں کو مرتے، تڑپتے، اور بے گھر ہوتے دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں، طاقت کے اس گھنائونے کھیل میں یہ سب کچھ تو ان کی تفریح طبع کے لیے ہورہا ہے‘ ورنہ وہ جہاں ہیں وہاں گولیوں کی آوازیں، لاشوں پر بین ڈالنے والوں کے نوحے سنائی نہیں دیتے۔ ان کی محفوظ پناہ گاہیں بل فائٹنگ کے اس میدان جنگ سے بہت دور ہیں، لیاری کبھی پیپلزپارٹی کا گڑھ تھا اور بے نظیر کہا کرتی تھیں،’’ لیاری والے ہمارے لاڈلے ہیں‘‘۔ آج ایم کیوایم بھی لیاری کے میدان میں اتر چکی ہے۔ لیاری کے رہائشیوں کی غربت، اور بے بسی کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ جس دن طاقت کے دیوتائوں کا دل اس وحشیانہ کھیل سے بھر گیا لیاری میں بل فائٹنگ کاخونی کھیل بند ہوجائے گا۔ لیاری والوں کو امن مل جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں