"SQC" (space) message & send to 7575

ماچس اور پٹرول

حقیقت اور افواہوں کی دھند میں لپٹا سانحہ راولپنڈی ملکی تاریخ کا اذیت ناک باب بن گیا ہے۔ سانحے کو گزرے چھ سات روز ہو گئے ہیں‘ کرفیو اٹھ چکا ہے لیکن حساس علاقوں میں با وردی فورس بدستور موجود ہے۔ کئی روز تک گھروں میں محصور رہنے والے‘ معمولات زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں، سڑکوں پر، گاڑیاں، بسیں،موٹر سائیکلیں، دوڑتی دکھائی دیتی ہیں، ٹریفک کا رش ہے۔ بظاہر زندگی معمول پر آگئی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ راولپنڈی میں یوم عاشور پر آگ اور خون کا جو کھیل کھیلا گیا اس کے بعد بھی وہاں کے شہریوں کی زندگی نارمل ہو سکتی ہے؟ سادا سا جواب یہ ہے کہ حالات نارمل ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔دِل ایسے شہر کے پامال ہو جانے کا منظر بھولنے میں ابھی کچھ دِن لگیں گے۔راکھ سے آج بھی جلی نعش ملی ہے۔ جسے آگ کے شعلوں نے ناقابل شناخت بنا دیا ہے۔ اُس دن بھڑکنے والی آگ میں اور بھی بہت کچھ راکھ ہوا، رواداری، برداشت، انسان کا احترام اور مقدس ہستیوں کا احترام، ہم جن کے قدموں کی خاک بھی نہیں ۔ مگر ہم انہی کا نام لے کر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کو مذہبی فریضہ سمجھنے لگے ہیں۔کس نے آگ جلائی، کس نے شعلوں کو بھڑکایا، اس بارے تحقیقات ابھی ہو رہی ہے ۔ چالیس افراد ایسے گرفتار کئے گئے ہیں جو اس سانحے میں براہ راست ملوّث تھے۔ سانحہ راولپنڈی کے حوالے سے ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات نے قابل تعریف ذمہ داری کا مظاہرہ کیا‘ خصوصاً ٹی وی چینلز نے جو ریٹنگ اور بریکنگ نیوز کی دوڑ میں، بعض اوقات اہم قومی مصلحتوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کا یہ رویہ قابل ستائش ہے۔ اگر سانحہ راولپنڈی کی لائیو کوریج ہو جاتی تو، پورا ملک آگ میں جلنے لگتا؛ البتہ بے خبری نے افواہوں کے طوفان کو بھی جنم دیا ، ایسی ایسی خوفناک خبریں اور واقعات گردش کر رہے ہیں کہ جن کا حوالہ دینا مناسب نہیں۔ سوشل میڈیا پر دونوں طرف کے نظریات کے حامل نوجوانوں کے درمیان ہونے والی بحث میں ایک دوسرے کو گالیوں اور مغلظات سے نوازا جا رہا ہے۔ ہر کوئی دوسرے پر کفر کا فتویٰ صادر کر رہا ہے۔ سبھی فرشتے ہیں یا کوئی بشر بھی ہے۔؟ خام ذہن رکھنے والا کوئی نوجوان اگر فرقہ واریت پر مبنی ان بے مقصد بحث و مباحثے کو پڑھے تو اس کے اندر بہت سی الجھنیں پیدا ہو سکتی ہیں۔اسلام کو سب سے زیادہ نقصان ان واعظوں کے ہاتھوں پہنچا ہے جن کا کاروبار فرقہ واریت پھیلانے سے ہی چمکتا ہے ۔ منبرومحراب کے تقدس کو پامال کرنے والے شر پسند ہیں کیونکہ وہ نفرت اور شرانگیز جذبات پھیلاتے ہیں‘ جس طرح نیم حکیم خطرہ جان ہوتا ہے اسی طرح نیم ملا بھی خطرہ ایمان ہے۔ ناکافی مذہبی علم رکھنے والے معاشرہ کیا، نسلوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ نفرتوں کے بیج دلوں میں بو کر انسان کو انسان کا دشمن بنا سکتے ہیں۔ ایسے شرانگیز عناصر کڑی سزا کے مستحق ہیں۔ اگر سوشل میڈیا پر موجود یہ وہی تقریر ہے جویوم عاشور پر فساد کا موجب بنی تو پھر مقرر کا بھی کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ اب پنجاب حکومت کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح انصاف کرتی ہے۔ کیونکہ انہی کے حامی اسمبلیوں میں بھی موجود ہیں۔ احتساب تو ارباب اختیار کا بھی ہونا چاہئے۔ محرم الحرام جیسے حساس مہینے کے حساس ترین دن عاشورہ کو ،قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ذمہّ داران نے اس بات کو یقینی کیوں نہیں بنایا کہ لائوڈ سپیکر کا استعمال سختی سے منع ہوتا۔قانون نافذ کرنے کے لیے ہوتا ہے انتظامیہ کا فرض تھا کہ وہ لائوڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی لگا دیتی۔ ایک دوسرے کے درمیان شدید اختلافات رکھنے والے دو مختلف مسالک کے لوگوں کا آمنا سامنا ہوا۔ پٹرول کی موجودگی میں ماچس جلانا دانشمندی نہیں کیونکہ ایسی صورت میں آگ بھڑکنا لازمی ہے ۔ جب ہمیشہ سے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اس راستے سے محرم کے جلوس کو پرامن طریقے سے گزارا جائے تو پھر اس بار اتنی سنگین غلطی کیوں ہوئی ایسا لگتا ہے کہ چند عناصر ایسے ملوث تھے جنہوں نے یہ ’’میدان جنگ‘‘ جان بوجھ کر سجایا۔ اِن عناصر کو پہچاننا اور سزائیں دینا ضروری ہے۔ ہم ہر سانحے میں حقائق کو نظر انداز کر کے بیرونی سازش کو تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح اصل اسباب پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ کوئی غیر نہیں یہ اپنے ہی لوگ ہیں‘ جو مذہب کے نام پر معصوم ذہنوں کو سموم کر رہے ہیں۔ جو معصوم ذہنوں میں خناّس بھر رہے ہیں، جو مدرسوں میں بیٹھے معصوم بچوں کو فرقوں میں تقسیم کر رہے ہیں، جو انسانوں کو رواداری نہیں نفرت کرنا سکھاتے ہیں۔ رواداری اسلام کا سنہری اصول ہے جس نے وحشی قوموں کے بھی دِل جیتے۔ اور تیرو تفنگ تھامنے والوں کو ایک دوجے سے محبت اور الفت کرنے پر مجبور کیا۔ مگر ہمارے دنیا دار مذہبی رہنمائوں اور عالموں نے کیا کیا؟ ایسے ہر سانحے کے بعد ایک میز پر بیٹھ کر، بیانات دے کر یکجہتی کا اظہار کردینے سے فرقہ واریت کے بوئے بیج ختم نہیں ہو جاتے۔ علماء کی ذمہّ داری ہے کہ وہ صرف نبی پاک ؐ کی سنت مبارکہ سے روشنی لیں۔ رواداری کی جو سنت آپؐ نے قائم کی اس پر چلنے کی کوشش کریں۔ تاکہ منبرو محراب کی تربیت گاہ سے اچھے روادار مسلمان پیدا ہوں۔ انسانوں کے روپ میں ماچس اور پٹرول نہیں!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں