"SQC" (space) message & send to 7575

قابلِ فخر دن

آج 14 اگست ہے۔ پاکستان کا یوم آزادی...کبھی یہ تاریخ ساز دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں کے باوجود،14 سکولوں، کالجوں اور دوسرے تعلیمی اداروں میں بزم ادب کے پروگرام ہوتے، ملی نغمے گائے جاتے، سبز جھنڈیوں سے درودیوار کو سجایا جاتا۔ اگست کا مہینہ آغاز ہوتے ہی ملی نغموںکی آوازیں سماعتوں میں رس گھولتی تھیں۔ آزادی کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی شہر کو سبز جھنڈیاں سبز پوشاک کی طرح پہنا دی جاتیں۔ ایسے ہی کسی منظر کو دیکھ کر شاعر نے یہ دعا دی تھی ؎
ہر آنکھ تجھے پیرہن سبز میں دیکھے
کاش کہ تادیر یہ پوشاک نہ بدلے!
آج بھی 14 اگست ہے مگر کیسے کہ ہر طرف بے یقینی کی فضا ہے۔ خوف ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ ہنگامہ برپا ہے۔ تحریک انصاف آزادی مارچ کو لے کر اسلام آباد کا رخ کر رہی ہے۔ حکومت اسے روکنے کے لئے کنٹینرز پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ آزادی مارچ کے ساتھ ساتھ علامہ طاہرالقادری کا انقلاب مارچ یا پھر انقلاب دھرنا بھی جاری ہے۔ 
2014ء تک آتے آتے، بہت کچھ بدل گیا ہے۔ پاک سرزمین شادباد کشور حسین شادباد پر اب اور طرح کے ہنگامے برپا ہیں۔ عوام کا سکون اور نارمل زندگی اور اس کے معمولات ہنگاموں کی نذر ہو چکے ہیں۔ کنٹینروں سے راستے بند کئے تو بزرگ شہری اور خواتین تک کو ان کے نیچے سے رینگ رینگ کر گزرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ تحریک انصاف کے قافلوں کو روکنے کیلئے بھی حکومت نے کئی طرح کے ایسے اقدامات کیے جس سے عام شہریوں نے اذیت اٹھائی۔ اس پر حکومت پنجاب کروڑوں روپے کے اشتہارات دے کر ٹی وی چینلز پر یہ اعلان بھی کرتی پھرتی ہے کہ یہ سارے اقدامات عوام کی حفاظت کیلئے کیے گئے ہیں۔ عوام کی حفاظت یا پھر اپنے اقتدار اور مفادات کی حفاظت یا پھر سیاسی انتقام کے جذبات ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟۔
تحریک انصاف کے آزادی مارچ میں ایک ڈرامائی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ جاوید ہاشمی آزادی مارچ کے اس بے ہنگم جلوس سے علیحدہ ہو کر اب تک کی خبروں کے مطابق وہ واپس ملتان اپنے حلقے میں جا چکے ہیں۔ وہاں جا کر بیان دیا کہ جب بھی سیاسی سفر میں کسی مشکل مرحلے کا سامنا ہوتا ہے میں اپنے حلقے کے لوگوں میں آ کر سکون محسوس کرتا ہوں۔ لیکن یہ سکون جو ملتان کا باغی سیاستدان محسوس کر رہا ہے‘ اس نے تحریک انصاف کے اندر بہت ارتعاش پیدا کیا ہے۔ آزادی مارچ کے اس مرحلے پر جاوید ہاشمی کی علیحدگی بہت معنی خیز ہے۔ جاویدہاشمی چونکہ تحریک انصاف کے مرکزی صدر بھی ہیں،اس لئے اس اہم رہنما کا اس وقت آزادی مارچ کے منظر سے ہٹ جانا، کارکنوں کے اندر بے چینی اور بے یقینی پیدا کر رہا ہے۔انجم سلیمی کی ایک نظم کے ابتدائی مصرعے یاد آتے ہیں:
بہت سی آوازیں جمع کر کے
ایک چیخ بنائی جا سکتی ہے
بہت تھوڑے لفظوں سے
ایک باغی نظم بُنی جا سکتی ہے...!
لیکن اگر اپنے اصولوں کے مطابق سیاست کرنے اور سٹیٹس کو (Status quo) سے بغاوت کرنے کی بات ہو تو پھر جاوید ہاشمی تنہا ہی اپنی ذات میں انجمن ہے۔ یقیناً جاوید ہاشمی کا عمران خان کے مطالبات خصوصاً ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے قیام کے مطالبے سے اصولی اختلاف اوراس موقع پر آزادی مارچ کو چھوڑنا تحریک انصاف کیلئے بڑا دھچکا ہے۔ خبریں یہی ہیں کہ ہاشمی صاحب وزیراعظم کے اس اعلان سے مطمئن تھے کہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیق کیلئے سپریم کورٹ کمیشن بنائے گا۔ دوسری جانب عمران خان کا غیر لچکدار اور انتہاء پسند رویہ جس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں حالات مزید تنائو کا شکار ہو سکتے تھے۔ پھر علامہ طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کی آزادی مارچ کے ساتھ شمولیت پر بھی جاوید ہاشمی نالاں ہیں۔ طاہرالقادری کی مارو اور مار دو پر اکسانے والی پُرتشدد سیاست پر ہر حلقے میں تنقید ہو رہی ہے۔ وہ سسٹم کا حصہ بھی نہیں ہیں اور ان کے دھرنوں، احتجاجی جلسوںاور انقلابی مارچ کا ایجنڈا اور مطالبہ بھی کسی پر واضح نہیں جبکہ عمران خان سسٹم کا حصہ ہیں۔ جمہوریت اور جمہوری اداروں پر یقین رکھتے ہیں۔ آئین پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں پھر ان کا مطالبہ بہت واضح ہے۔ انتخابی اصلاحات اور الیکشن 2013ء میں ہونے والی دھاندلیوں کی تحقیقات۔ یہ مطالبات عین سیاسی اور جمہوری ہیں۔ اس لئے ان جماعتوں کے درمیان نظریاتی اختلاف کی ایک خلیج حائل ہے۔ عمران خان نے اگر عوامی تحریک کو آزادی مارچ میں شمولیت کاگرین سگنل دیا تو اس پر جاوید ہاشمی کا اختلاف اصولی ہے۔ تمام عمر جمہوریت کیلئے جدوجہد کرنے والا باغی ، کس طرح جمہوریت کی بساط لپیٹنے اور منتخب حکومت کو تہ و بالا کرنے والے ایجنڈے کا حامی ہوسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کے اندر بھی یہ اختلاف موجود ہے لیکن اس مرحلے پر وہ سب خاموش ہیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ عمران خان جو ہمیشہ اس بات کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ تحریک انصاف وہ واحد جماعت ہے جس نے الیکشن 2013ء سے پہلے، اپنی جماعت کے اندر انتخابات کرا کر جمہوری جماعت ہونے کا ثبوت دیا۔ لیکن ٹیکنوکریٹس کی حکومت کا مطالبہ کرنے کے معاملے پر انہوں نے جاوید ہاشمی جیسے اہم لیڈر کو نظرانداز کیا۔ لگتا یہی ہے کہ انہوں نے بغیر کسی مشاورت کے اس مطالبے کو ایجنڈے کا حصہ بنایا۔ وگرنہ اس مطالبے کو اگر وہ اپنی پارٹی قیادت کے سامنے مشورے کیلئے رکھتے تو کم از کم جاوید ہاشمی اسے ضرور ویٹو کرتے کیونکہ جاوید ہاشمی کا عمران خان سے بنیادی اختلاف یہی سے شروع ہوا ہے۔ 
یہ کالم اب تک (13اگست) کی تازہ ترین خبروں پر مبنی ہے۔ کل کیا ہوگا اس کا جواب کل ہی ملے گا۔ لیکن حالات یہی بتاتے ہیں کہ خان صاحب کسی طور بھی آزادی مارچ کوملتوی نہیں کریں گے۔ میرا خیال ہے اس مرحلے پر جب ان کے کارکنوں میں انتہا کا جوش و جذبہ موجود ہے۔ پچھلے کئی مہینوں سے وہ اس مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں، انہیں روکنا بھی نہیں چاہیے۔ امید ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن پرامن رہیں گے جیسا کہ عمران خان بارہا اپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں۔ اگر حکومت جمہوری تدبر کا مظاہرہ کرتی ہے تو عمران خان کو بھی چاہیے کہ بیانات میں تدبر اور ٹھہرائو پیدا کریں۔ ایک مخصوص جگہ پر دھرنے سے یقیناً ان کا احتجاجی حق پورا ہو جاتا ہے۔ ان کا پیغام حکومت تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن اگر صورتحال اس کے برعکس ہوتی ہے تو پھر تصادم کے خطرات کو ٹالا نہیں جاسکتا۔ حکومت اگر مارچ کو کچلنے کیلئے حربے استعمال کرے گی تو بپھرے ہوئے کارکن بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ ہزاروں کے ہجوم کو کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ پنجاب پولیس بے قابو ہجوم پر کیسے ٹوٹتی ہے۔ اس کیلئے سانحہ ماڈل ٹائون کو یاد کرنا کافی ہے۔ ایسے تصادم میں غریب کارکن مارے جاتے ہیں۔ تمام سیاسی رہنما کوشش کریں کہ حالات اس نہج پر نہ پہنچیں۔ ورنہ نفرت کی سیاست میں ہار ہی سب کا مقدر ہوگی۔ پرامن رہنا، کسی سمجھوتے پر پہنچنا، اس لئے بھی ضروری ہے ، آج 14 اگست کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کیلئے پرامن جدوجہداور قائد اعظم کی تدبر بھری شاندار قیادت کی بدولت دیکھنا نصیب ہوا۔ یہ دن پاکستانیوں کا فخر ہے۔ ہم اپنے یوم آزادی کو اسی حوالے سے یاد رکھنا چاہتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ آج کی سیاسی جماعتوں میں نفرت انگیز تصادم، سوکھی ٹہنیوں جیسے غیر لچکدار رویے، تاریخ کے اس قابل فخر دن کو پشیمانی اور پچھتاوے کا کوئی اور حوالہ نہ دے جائیں!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں