"SQC" (space) message & send to 7575

ادھورا کالم

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مصور کا برش اس سے بغاوت پر اتر آتا ہے‘ رنگ اپنی دلربائی کے ساتھ سامنے بکھرے پڑے ہیں۔ ادھر خالی کینوس پکارتا ہے کہ کوئی خاکہ کوئی شبیہ اس پر اتاری جائے۔ کبھی تو ایسی کیفیت میں کینوس خالی ہی رہ جاتا ہے اور کبھی ایک ادھوری تصویر اپنی تکمیل کا انتظار کرتی رہ جاتی ہے‘ مگر مصور کے ہاتھ میں موجود برش خاموش رہتا ہے‘ اگرچہ اس کے ذہن میں سینکڑوں تصویروں کے خاکے موجود ہوتے ہیں‘ ان گنت خیال تصویر میں ڈھلنے کو بے تاب ہوتے ہیں‘ مگر پھر بھی کینوس خالی رہ جاتا ہے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شاعرقلم تھامے‘ اپنی سوچ کی وادی میں ان گنت نظموں کے چہرے بُنتا ہے‘ مگر کوئی نظم اس خالی کاغذ پر نہیں اترتی۔ کوئی خیال لفظوں کے پیرہن میں نہیں ڈھلتا۔ احساسات کا دریا تو زوروں پر ہوتا ہے مگر تخلیقی پیاس بجھانے کو کوئی بوند میسر نہیں آتی۔ ایک بے انت خموشی ہے جو اندر‘ باہر سرایت کر جاتی ہے۔ کوئی سرپھری نظم خیال سے کاغذ پر چلی آئے تو ادھوری رہ جاتی ہے۔ شاعر اُلجھے ہوئے بنجر لمحوں کا اسیر ہو کر اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک اعتراف یاسمین حمید نے اپنی ایک نظم کتھارسس میں کیا۔
جو گہری شام جیسا ہو
زمین کی لوح پر اس رنگ سے لکھا نہیں جاتا
جو پوری بات کہہ ڈالے
قلم کی نوک پر وہ لفظ رکھا ہی نہیں جاتا
مجھے لکھنا نہیں آتا
کہانی لکھنے والا بھی بعض اوقات ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔ کہانی کار خود کردار تراشتا ہے مگر کبھی کبھی یہ کردار اس سے روٹھ جاتے ہیں۔ اس کی بات نہیں مانتے۔ کہانی رک جاتی ہے۔ آگے نہیں بڑھتی۔ اورکہانی کار بے بس ہو کر قلم تھامے سوچتا رہتا ہے‘ جانے کہانی کب مکمل ہو گی۔
اور ایک موسیقار بھی اپنے بنجر لمحوں سے گزرتا ہے۔ وہ سماعتوں میں رس گھولنے والی دھنیں ترتیب دینا چاہتا ہے‘ مگر جب وہ اپنے سازوں پر ان دھنوں کو بجانا چاہے تو ساز کے تار اس سُر کو سمجھنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ موسیقار کی پوروں اور ساز کے تاروں کے درمیان ایک اجنبیت حائل ہو جاتی ہے۔ کوئی سُر ہاتھ نہیں آتا۔
تخلیقی کام کرنے والے سبھی افراد ایسے بنجر لمحوں سے گزرتے ہیں۔ لکھاریوں کے لئے اس کیفیت کا نام رائٹرز بلاک (Writer`s Block) رکھا گیا ہے۔ لیکن لکھاریوں کی بھی اقسام ہیں جنہیں ایک امریکی مصنف جارج مارٹن نے بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کچھ لکھاری آرکیٹیکٹ ہوتے ہیں اور کچھ باغبان لکھاری ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کے لکھاری ایک آرکیٹیکٹ کی طرح کام کرتے ہیں‘ جو پہلے سے طے کرتا 
ہے کہ کس سائز کے پلاٹ پر کتنے کمرے ہوں گے‘ ان میں کون سا رنگ ہوگا اور ان میں کس قسم کی سجاوٹ ہوگی۔ دوسری قسم کے لکھاری ایک باغبان کی طرح کام کرتے ہیں‘ محبت سے زرخیز مٹی کی تیاری کی جاتی ہے۔ بیج بونے کے لئے مناسب موسم کا انتظار ہوتا ہے۔ پھر بیج کو توجہ سے پانی دینا‘ بیج سے کونپل نکلنے کا انتظار کرنا۔ ایسے لکھاریوں کے لئے لکھنا ایک خالص آرٹ ہے۔ یہ دو اور دو چار والا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک تپش کو برداشت کرنا اور ایک ریاضت سے گزرنا ہے۔ کسی پوچھنے والے نے بانو قدسیہ سے سوال کیا کہ راجہ گدھ جیسا دوسرا ناول کب لکھیں گی۔ باوقار ادیبہ نے جواب دیا: مجھ میں اب اُس تپش کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں ہے‘ جو راجہ گدھ جیسی تحریر کو لکھنے کے لئے چاہئے۔ نظم کہنا‘ کہانی بُننا‘ افسانہ تراشنا‘ ناول لکھنا تو باغباں لکھاری جیسا کام ہے۔ ایک ریاضت‘ ایک تخلیقی تنہائی اس کی خاص ضرورت ہے‘ جبکہ کالم لکھنا جارج مارٹن کے الفاظ میں ایک آرکیٹیکٹ جیسا آرٹ ہے‘ یعنی دو اور دو چار والا معاملہ۔ اس میں اندرونی احساسات اور محسوسات کی مداخلت سے بیرونی حقائق اور واقعات کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے‘ جنہیں سامنے رکھ کر کالم نگار اپنا تجزیہ کرتا ہے۔ کسی نے کہا کہ ''کالم کو سمجھنا بھی ایک آرٹ ہے‘ یہ وہی جانتا ہے جو "Between the Lies" بات سمجھنے کا ہنر جانتا ہو‘‘۔ شاید آپ نے اسے جلدی میں Between the Lines پڑھا ہو‘ یعنی بین السطور‘ مگر یہ Lines نہیں Lies ہے۔
ہمارے ہاں ہر صبح اردو اور انگریزی اخباروں میں کالم نگاروں کی ایک پوری کھیپ اپنے تجزیوں اور حالات حاضرہ پر تبصروں کے ساتھ نظر آتی ہے۔ بیشتر کالم ایسے لکھے ہوتے ہیں جیسے کیمسٹری کا کوئی فارمولا لگا کر سوال حل کر دیا جائے‘مگر ایسے کالم بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں ندرت خیال ہو‘ تازگی ہو اور ایک تخلیقی سچائی کی خوشبو محسوس ہو۔ کالم چونکہ ایک مخصوص سپیس میں مکمل کرنا ہوتا ہے تو لکھتے ہوئے کالم نگار کو یہ خیال بھی دامن گیر رہتا ہے۔ جیسے مجھے اچانک یہ خیال آیا ہے کہ میں بھی تو ایک عدد کالم لکھنا چاہتی تھی مگر آج اس کیفیت کا سامنا تھا‘ جس کا تذکرہ میں نے کالم کے آغاز میں کیا۔ میرے خیالات کی رو بھی کہاں سے چلی اور کہاں پہنچ گئی۔ آج میرا حال بھی اس شاعر کا ساہے‘ جو ادھوری نظم کو مکمل کرنا چاہتا ہے مگر مصرعے ہاتھ نہیں آتے۔ یا پھر اس مصور جیسا‘ خیالات کا ہجوم ہونے کے باوجود کسی خیال کا ہاتھ تھام کر اس کو کینوس پر تصویر نہیں کر سکتا۔
کہنے کو تو آج ان گنت موضوع تھے اور ان کی ایک فہرست بھی میں نے ترتیب دے رکھی تھی۔ چلیں کالم ختم کرے سے پہلے اس فہرست پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ اس فہرست میں پہلا موضوع یہ ہے کہ کراچی آپریشن پر کراچی کے عوام خوش ہیں تو ایم کیو ایم ناراض کیوں ہے یعنی عوام اورسیاستدانوں کے مفادات میں ایک خلیج حائل ہے۔ سیاستدان خوش تو عوام ناخوش‘ عوام خوش تو سیاستدان ناخوش...!
اس فہرست میں دوسرا موضوع تحریک انصاف کی ہیٹ ٹرک ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد عمران خان پر کچھ کڑا وقت آیا تھا اور اب ایسا لگتا ہے کہ کپتان پھر سے کامیابی کے سرور میں ہیں۔ مگر ریحام بھابھی کا یہ کہنا جہاں دیدہ لوگوں کو نہیں بھایا کہ کپتان تو پیدا ہی جیتنے کے لئے ہوئے ہیں۔ اس فہرست میں تیسرا موضوع بہت اہم ہے۔ الیکشن ٹربیونل کے فیصلے اپنے موافق نہ آئے تو ن لیگ عدلیہ پر ہی چڑھ دوڑی۔ جسٹس کاظم ملک کے حوالے سے رانا ثناء اللہ اور پرویزرشید صاحب کے بیانات افسوسناک ہیں۔ حکومت میں ہو کر اپنے ہی ادارے کے وقار کو داغدار کرنے والی بات ہے۔
لیجئے‘ موضوعات کی فہرست میں تو ابھی چند موضوع اور بھی تھے‘ مگر کالم کی مقررہ جگہ اب اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اور ایک کالم نگار کو اسی جگہ میں اپنے خیالات بیان کرنا ہوتے ہیں۔ ادھوری نظم اور ادھوری تصویر کی طرح آپ بھی اس ادھورے کالم پر گزارا کر لیجیے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں