"SQC" (space) message & send to 7575

تم اسکول سے لوٹ کر کیوں نہیں آئے

دسمبر کا وسط شروع ہونے والا ہے ۔یخ بستہ ہوائیں چل رہی ہیں راستوں پر دُھند بسیرے ڈال رہی ہے اور دل شہر ماتم کا منظر پیش کر رہا ہے۔
گزشتہ برس سولہ دسمبر کو میرے ملک پر قیامت بیت گئی تھی۔ کہیں سے صدا آتی ہے‘ سولہ دسمبر اس بار جب لوٹے گا تو اپنے ساتھ یادوں کا کون کون سا سامان لائے گا۔ کوئی کہتا ہے سولہ دسمبر لوٹ آیا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ حرماں نصیب مائیں جن کے گودوں کے پالے شہزادے اس خون آشام دوپہرگھروں کو لوٹ کر نہیں آئے وہ تو آج بھی سراپا انتظار گھر کی دہلیز سے لگی بیٹھی ہیں۔ ان کے لیے سولہ دسمبر گیا ہی کب تھا۔ وہ قیامت خیز دن‘ وہ لہو میں ڈوبی پشاور کی دوپہر کبھی ان کے وجود سے باہر نکلی ہی نہیں۔ جب ان کے طالب علم شہزادے سفید یونیفارم میں سکول گئے تھے مگر پھر گھروں کو ہنستے مسکراتے لوٹے نہیں۔ واپس آئے بھی تو لکڑی کے تابوت میں، تابوتوں میں بند ان کے شہزادوں کے سردوجود‘ وہ جو کبھی سنہری وجود تھے۔ نوجوانی کی امنگ سے سجے۔ اس روز لہو میں ڈوبے سرد پڑے تھے۔ وہ گھروں کو پلٹتے ہی مائوں سے لپٹ جاتے۔ آج مائیں بلکتی ہوئی ان کے سرد جسموں سے سے لپٹ رہی تھیں۔ کیسی قیامت کی گھڑی تھی۔ یہ وہ قیامت تھی جس نے 
قوم کے رویوں اور سوچ کو بدل ڈالا۔ وہ لوگ جو دہشت گردی کی جنگ میں واضح نقطہ نظر نہیں رکھتے تھے‘ بچوں کے بہیمانہ قتل پر سوچ بدلنے پر مجبور ہو گئے۔ اس ہولناک سانحہ نے اندر اور باہر بہت کچھ بدل ڈالا۔ نیشنل ایکشن پلان کو ازسرِنو تشکیل دیا گیا۔ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا تہیہ کر لیا۔ دنیا نے بھی دیکھا کہ سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے پشاور کی حرماں نصیب مائوں سے جو عہد کیا اسے پورا کر رہے ہیں۔ اسی دسمبر کی دو تاریخ کو دہشت گردی کی بہیمانہ واردات میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے والے چار مجرموں کو جہنم واصل کیا گیا۔ اس پر ایک شہید بچے کی ماں نے کہا کہ ان درندوں کو آسان موت نہیں دینی چاہیے کہ انہوں نے قوم کے جگر گوشوں کو اذیت دے دے کر شہید کیا۔ میری آواز بھی اس ماں کی آواز کے ساتھ شامل ہے کیونکہ جس درد اور اذیت سے وہ شہید بچے گزرے ‘اسے احاطۂ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ جس بدنصیب آڈیٹوریم میں آگ اور خون کا یہ کھیل کھیلا گیا اس کی مکمل تصاویر چند غیر ملکی ویب سائٹس پر موجود ہیں۔ پاکستانی میڈیا ان مناظر کو پوری طرح دکھا نہیں سکا۔ برطانوی اخبار گارڈین کی ویب سائٹس پر موجود تصاویر لہو رنگ مناظر‘ لہومیںبھیگے پتے ‘کتابوں کے جلے ہوئے اوراق اور ڈیسکوں کے درمیان کرسیوں میزوں پر ہمارے معصوم طالب علموں کا بکھرا ہوا خون ‘ اورکٹے ہوئے اعضاء‘ پتھر دل بھی دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ درد‘ یہ تڑپ آج بھی دل میں محسوس ہوتی ہے۔ مائیں آج بھی اپنے شہزادوں کو آواز دے رہی 
ہیں۔ میرے اسفندیار‘ میرے مبین‘ میرے اسد‘ میرے عمر حیات‘ ایمل خان‘ کہاں ہو تم !یہ کوئی عمر تھی جانے کی‘ یہ عمر تو کھیلنے کھانے کی تھی‘ سکول جانے کی تھی‘ ماں سے لپٹ کر اپنی ضدیں منوانے کی‘ یونیفارم پہننے کی اور تم نے کفن اوڑھ لیا!! پشاور کی غمزدہ مائوں کے دلوں کو سولہ دسمبر نے ایک آکٹوپس کی طرح جکڑا ہوا ہے۔ انہیں اس قیامت خیز دن کا پل پل یاد ہے جب اس صبح اپنے حسین شہزادوں کو اپنے ہاتھوں تیار کر کے سکول بھیجا۔ کیا خبر تھی آج مائیں بچوں کو سکول یونیفارم میں مقتل بھیج رہی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں سولہ دسمبر لوٹ آیا ہے مگر پشاور کی غمزدہ مائوں کے لیے گیا ہی کب تھا۔ پشاور کی مائیں اپنے بچوں کو آج بھی پکارتی ہیں:
میرے بچے تم سکول سے لوٹ کر کیوں نہیں آئے
تمہیں خبر ہے نا کہ ذرا سی دیر ہو جائے
تو ماں کس قدر بے چین ہوتی ہے
تو پھر تم نے اتنی دیر کیوں لگا دی!
میرے لعل! میں نے تو تمہیں اجلا یونیفارم پہنا کر
مکتب بھیجا تھا...اور تم خوشی خوشی
مکتب گئے تھے...!
پھر چھٹی کی گھنٹی کیوں نہیں بجی
تم گھر لوٹ کر کیوں نہیں آئے
یہ کون ہے جو لکڑی کے تابوت میں بند ہے؟
سرد آنکھیں اور زرد چہرہ!
موت کی بانہوں میں زندگی سے عاری
تم تو نہیں ہو...!
تمہاری آنکھوں میں تو ہمہ وقت شرارت جاگتی تھی
اونچے اونچے قہقہوں سے
تم سارے گھر کو بھر دیتے تھے
آج مگر یہ سناٹا سا
گھر کے سارے کمروں میں کیوں پھیل گیا!
اور یہ میرے اندر باہر
جانے کیوں کہرام مچا ہے!
لکڑی کے تابوت میں بند‘ تم تو نہیں ہو!
آ جائو نا...
دیکھو تم اسکول سے واپس آ جائو نا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں