"TSC" (space) message & send to 7575

نسوار فروشی یا ون پائونڈ فش ؟

اس وقت ملک اورقوم تبدیلیوں کی زد میںہے۔یہ جملہ تبدیلیاں میاں برادران اور عمران خان والی نہیں ہیں ۔متذکرہ قائدین کی طرف سے پاکستان بدلنے کی باتیں تو ہوتی رہتی ہیںاورانہیںجاری رہنا ہے مگر یہ تبدیلیاں وہ ہیںجو اس سے قبل ہی قوم کے نصیبے میںلکھ دی گئیں۔ راجہ پرویز اشرف آخری گارڈ آف آنر’’ نقد‘‘ وصول پاکر وزیر اعظم کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے ہیں ۔ان کے بعد جسٹس( ریٹائرڈ) میر ہزار کھوسو کو ملک کا نگران وزیر اعظم نامزد کردیاگیاہے ۔دوسری طرف سابق صدر اور ریٹائرڈجنرل پرویز مشرف بھی وطن لوٹ آئے ہیں۔یہ سب کچھ تیزی سے سرانجام پایا ۔نگران وزیر اعظم صاحب کا دیدار ہم نے ٹی وی سکرین اور اخبارات کے صفحات پر کیا۔نامزدوزیر اعظم ایک تصویر میںانتہائی خوشی کے جذبات کے ساتھ موبائل ٹیلی فون پر کسی سے بات کررہے ہیں۔کس سے بات کررہے ہیں؟تصویر کے کیپشن میںبیان نہیں کیاگیا۔ ایجنسیوں اور موبائل نیٹ ورکنگ کمپنیوںمیںبراجمان شہ دماغ اس تصویر کو اپنی کمپنی کی مشہوری کے لئے بطور اشتہار منتخب کرسکتے ہیں ۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے انہیںٹیلی فون کرکے نئی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مبارکباد دی ہے۔میاں شہباز شریف المعروف خادم اعلیٰ پنجاب ملک اورقوم کی حالت ِ زار کے حوالے سے ہر وقت تشویش میںمبتلا رہتے ہیں۔وہ اس وقت تیسری مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں۔اس سے قبل بھی وہ دوبار پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔وزارت ِ اعلیٰ کی یہ ’’دگن ‘‘(موسیقی کی زبان میںایک ہی تال کی دوگنی رفتار)موصوف نے اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دو مختلف ادوار میں سرانجام دی۔ پنجاب کے ون اینڈ اونلی خادم اعلیٰ کی حیثیت سے وزارت ِ اعلیٰ کی ہیڑک کرتے ہوئے بھی انہیںبعض ریاستی اداروں کی ’’آئینی سرپرستی‘‘حاصل رہی۔لیکن پنجابیوں کی خدمت کرنے والے اس مستقل مزاج اورتیز رفتار وزیر اعلیٰ کا دل ابھی بھرا نہیں اوریہ اپنی نئی منزل یعنی صاف الیکشن کی طرف گامزن ہیں۔ قوم جانتی ہے کہ جنر ل ضیاء الحق کے 77ء والے مارشل لا کے دن سے ملک میں’’شریف سیاست‘‘ کی داغ بیل ڈال دی گئی تھی۔یہی وہ’’ ضیائی سیاست‘‘ تھی جس نے 85ء کے غیر سیاسی جماعتوں کی بنیاد پر ہونے والے عام انتخابات میں کرپشن اورلوٹ مار کی دیویاں اوردیوتا تراشے ۔کرپشن کے وہ صنم آج اقتدار کے بت خانوں میںبھگوان بنے بیٹھے تیسری، چوتھی،پانچویں اور چھٹی مرتبہ ’’قوم کی خدمت ‘‘ کرنے کے کاغذات نامزدگی بھر رہے ہیں۔قومی سیاست اورپاور گیم کے افق کا جائزہ لیاجائے تو اس کے 95فیصد کردار ضیاء الحق کی شریف سیاست کا کریڈٹ بن کر قوم کے ماتھے کا جھومر بن کر چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ان میں سب سے پہلے تو شریف برادران کا نام آتاہے ،چودھری برادران کی سیاست کو پھل پھول ضیاء الحق اورجنرل مشرف کے ادوار میںلگے ۔ ایم کیوایم کا ظہور یوں تو جنرل ضیاء الحق کے دور میںہوامگر اس نے متحدہ کا روپ جنرل کمانڈو کے زیر سایہ پایا۔ قصہ مختصر، قومی افق پرچھائے ہوئے زیادہ تر ستاروں اوردم دار ستاروں کی پیدائش جنرل ضیاء الحق کے ’’بگ بینگ ‘‘ سے ہوئی۔کیسی عجیب بات ہے کہ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ پہلے یہ سیاسی بت تراشتی ہے ،پھر انہیںاقتدار کے صنم خانوں میںبھگوان بنا کر بٹھا تی ہے ،پھر کچھ کے حصے جلاوطنی آتی ہے، کسی کے مقدر میںپھانسی لکھی جاتی ہے اورکسی کو سرعام قتل کراکر شہید کا لقب عطا کردیاجاتاہے۔میراذاتی خیال ہے کہ قوم اب یہ ڈرامے سمجھنے لگی ہے۔ اس کا ایک نظارہ اسٹیبلشمنٹ کے ریٹائرڈ بادشاہ پرویز مشرف کا کراچی ائیرپورٹ پر ہونے والا ’’خاموش استقبال ‘‘ بھی ہے۔جنرل (ر) پرویز مشرف کراچی پہنچ کر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ رہے ہیں‘ یقینا اپنی خیر خیریت کے لیے ہی مانگ رہے ہوں گے۔اخبارات نے جنرل صاحب کی دعا مانگتے تصویر کے ساتھ 2008ء کی محترمہ بے نظیر بھٹو کی وہ تصویر بھی شائع کی ہے جب وہ جلاوطنی ختم کرکے واپس وطن لوٹی تھیں۔محترمہ کراچی ائیر پورٹ پر اتریں تو ان کی آنکھوں میںآنسو تھے اوروہ ہاتھ اٹھا کررب کا شکر ادا کررہی تھیں۔ جنرل مشرف اور محترمہ کی جلاوطنی کی نوعیت مختلف تھی۔محترمہ کو جنرل مشرف کی حکومت نے ریاستی اور سیاستی جبر کے نتیجے میں روکے رکھا جبکہ مشرف صاحب کا راستہ لال مسجد اور نواب اکبر بگٹی کی لاش نے بلاک کیے رکھا۔ اب وہ وطن واپس آگئے ہیں‘ الیکشن میں بھی حصہ لینے کو تیارہیں ۔گزشتہ دنوں انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا کہ صرف وہی 62-63 پر پورا اترتے ہیں ‘ شائد وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اب بھی پاکستان کے بلاشرکت غیرے مالک ہیں‘ اسی لیے اپنے نیک کردار کا فیصلہ خود ہی صادر فرما رہے ہیں ورنہ اپنے دور اقتدار میں انہوں نے ایوانِ صدر میں جس قسم کی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھیں اُنہیں مد نظر رکھا جائے تو وہ شاید کونسلر کے الیکشن کے لیے بھی نااہل قرار پائیں۔ نواب محمد اسلم رئیسانی نے فرمایاہے کہ پاکستان میں سیاست کرنے سے بہتر ہے کہ بندہ نسوار بیچ لے۔ صحیح فرمایا‘اتنے عرصے جناب نے نسوار ہی تو بیچی ہے اور نسوار بھی کوئی ایسی سپیشل تھی کہ دیکھتے ہی دماغ کو چڑھ جاتی تھی اور ہیوی بائیک پر گھومنے کو دل کرتا تھا۔رئیسانی صاحب بے فکر رہیں‘ حالات بتا رہے ہیں کہ آئندہ الیکشن کے بعد وہ نسوار ہی بیچیں گے ۔پانچ سال میں 95 ارب کا منافع ہوجائے تو نسوار کا بزنس ایفی ڈرین سے بھی بازی لے جاتاہے۔ہمارے اکثر سیاستدان اپنے اصل کام چھوڑ کر سیاست میں پڑے ہوئے ہیں ورنہ اللہ جانتا ہے اِن میں بہت اچھے اچھے نائی‘ موچی‘ کوچوان‘ لوہار‘ بھنگی ‘ پلمبر اور مکینک موجود ہیں۔بہرحال خدا کا شکر ہے کہ ملک کو نگران وزیر اعظم مل گیا ہے ‘ بے شک کھوسو صاحب کی عمر کچھ زیادہ ہے لیکن اِس سے کیا ہوتاہے‘ فخرو بھائی بھی تو ہیں ناں…بلکہ فخرو بھائی ہی کیا…اسلم رئیسانی اور قائم علی شاہ جیسی بزرگوں کی نشانیاں بھی موجود ہیں۔ حالات جس ڈگر پر جارہے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتاہے کہ آئندہ ہمارے ملک میں سارے اہم عہد ے صرف ’’بابوں‘‘ کے پاس ہوں گے‘ اور بابے بھی وہ جو اپنی عمر کی سینچری مکمل کرنے کے قریب ہوں۔کھیل کے میدان میں سنچریاں بنیں نہ بنیں‘ سیاست میں بننے لگی ہیں۔اس حساب سے اگر دس بارہ سال بعد کے پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو ایسا لگتاہے ہر وزیر وہیل چیئر پر آیا کرے گا‘ مشیر حضرات کے دفاتر سی سی یو میں ہوا کریں گے‘ وزیر اعلیٰ لاٹھی ٹیکتا ہوا آیا کرے گا اور اسمبلی کے اجلاسوں کے موقع پرشہر بھر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہوا کرے گی۔یہ تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ گریجوایٹ اسمبلی تو آزمائی جاچکی ‘کیا ہُوا جوڈگریاں چیک نہیں کرائی جاسکیں۔اگر عمر رسیدہ افراد کو حکومت میں شامل کرنے کا یہ سلسلہ طول پکڑ گیا تو بعید نہیں کہ مختلف محکموں میں بھی 85 کا ہندسہ عمر کے حوالے سے رواج پاجائے ۔پھر پولیس کا ایس ایس پی وہ ہوگا جو دن کو مجرموں سے اور رات کو اپنی بیماریوں سے لڑے گا۔واپڈا کے سارے افسران ہاتھ میں ’’انہیلر‘‘(سانس لینے میںآسانی پیدا کرنے والاسپرے) پکڑے دفتر آیا کریں گے‘ ریلوے کے آفیسرآفس میں گلوکوز کی بوتلیں لگا کر سٹریچر پر کام سرانجام دیں گے…اللہ نہ کرے ایسا ہو‘ اگرہوگیا تو تصور کیجئے کہ نوجوانوں کا کیا بنے گا…پھر تو وہ ’’ون پائونڈفش‘‘ ہی بیچتے نظر آئیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں