"TSC" (space) message & send to 7575

او مائی گاڈ!

عید کا چاند نظر آنے سے پہلے مہنگائی کا آفتاب پوری آب وتاب سے چمک بلکہ دمک بھی رہاہے۔اس عید پر پاکستان کے غریب عوام کو مہنگائی کے دو،دوچاند دکھائی دیںگے۔ایک سوئی گیس کی بڑھی ہوئی قیمت کاچاند ،دوسرا بجلی کے ہوشربا مہنگے ٹیرف کا چاند۔ مہنگائی کے اس دوہرے چاندکی چاندنی میں غریب عوام کی زندگی تو قیامت کا پرومو (تشہیری مہم) ہوگی مگریہ طے ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی زندگیاں ہمیشہ کی طرح راک سٹار جیسی ہوںگی جو اقتدار کے چاندپر ’’مون واک‘‘کرتے ہوئے یہ عید سپیشل سونگ گاتے دکھائی دیںگے۔ چن ،چن دے سامنے آگیا اینا ں دونواں توں صدقے جاواں سوہنیو، ہیریو عید مبارک، سوہنیو ہیریو خیر مبارک حکمرانوں کی طرف سے اس بار عوام کو عیدپیکج کے طور پر عید کے تین یوم بجلی فراہم کرکے ’’الیکٹرک عیدی‘‘ دی جائے گی۔ ایک سرکاری اعلان کے مطابق9اگست کوعید ہوئی تو8اگست کی شام6بجے سے 11اگست تک بجلی مسلسل فراہم کرکے ’’بابائے وزارت پانی وبجلی‘‘ اور الیکٹرک سٹی کے حاتم طائی کی قبر پر لات بلکہ فلائنگ کک ماری جائے گی ۔واپڈا کے ذرائع کاکہناہے کہ اگر کوئی فنی خرابی پیدانہ ہوئی توعید کے دنوں میںبجلی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے وزارت پانی وبجلی نے مکمل اقدامات کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے۔دعا ہے کہ کوئی فنی خرابی پیدا نہ ہو اورمیاںبرادران کی حکومت کے عید،ٹرواورمرو کے تین شوز کامیاب رہیں۔کبھی ہمارے ہاں عید ،ٹرواورمرو کے تین شوز بڑے اہم ہواکرتے تھے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے ہاں لالہ سدھیر اورسلطان راہی کی فلمیںنمائش ہوا کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہے لالہ سدھیر کی ’’سلطانہ ڈاکو‘‘ اور ’’لاٹری‘‘ دونوں فلمیں عید پر نمائش کے لئے پیش کی گئی تھیں اورکامیاب ہوئیںتھیں۔ اسی طرح سلطان راہی مرحوم کی ’’چن وریام‘‘ ’’شیر خان ‘‘ اور ’’سالاصاحب‘‘ بھی ریلیز ہوئیںاوران فلموں نے جوبلیاں منائی تھیں۔ ہمارے ہاں ایک عرصہ سے فلمی ہیروز کے بجائے سیاسی ہیروز سٹارز اورمیگاسٹارز بن گئے ہیں۔سیاستدانوں کے ساتھ، ساتھ بعض صحافیوں کے سٹارڈم میں بھی اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ انہیںبھی سٹارز ہی سمجھا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں تو صحافت کنگ میکرز اورگاڈ فادرزکا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ماضی میں ایسا بھی ہوتا رہاکہ کنگ میکرز اورگاڈ فادر ز نے جو بت تراشے وہ تابع فرمانی کرنے کے بجائے بت خانوں میں بھگوان بن بیٹھے اوراپنے ہی ’’مینوفیکچرز ‘‘ کو آڑے ہاتھوں لینے لگے۔ماضی میں ایسے واقعات رونماہوتے رہے جب پتھر کے ان اصنام کے خلاف مینوفیکچرز اور کاریگر سراپہ احتجاج بھی ہوتے رہے۔ میرے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں بھگوان بنانے کی ’’میڈیاٹکسال‘‘ کاانچارج صرف کاری گر نہیںہوتا بلکہ یہ پراجیکٹ انڈسٹری اورگروپ ہینڈل کررہاہوتا ہے۔ پنجابی میںکہتے ہیںکہ ’’کلے بندے دا کم نئیں‘‘مراد یہ ہے کہ بھگوان بنانے کاکام اکیلے بندے کانہیںہوتاایسے کام ہمیشہ گروپ کیاکرتے ہیں۔ ان د نوں بھی بھگوان بنانے کا ’’مشنری‘‘ کام جاری ہے۔ یہ وضاحت کرنا ضر وری ہے کہ یہاں بھگوان سے مراد بھگوان داس نہیںہے۔رانابھگوان داس صاحب کو تو حکومت اوراپوزیشن نے متفقہ طور پر نیب کاچیئرمین منتخب کرلیاہے۔جسٹس ریٹائرڈ بھگوان داس کی پیشہ ورانہ ساکھ اس قابل ہے کہ انہیںیہ عہدہ سونپا جاتا۔قحط الرجال کے اس زمانہ میں بھگوان داس جیسے انسان دستیاب ہوناکسی نعمت سے کم نہیں۔رانابھگوان داس کو تو قحط الرجال کے اس دور میںبھی جگر مراد آبادی کے لہجے میں یوں خوش آمدید کہنے کو جی چاہتاہے : تیر ا خلوصِ دلبری‘ جان نہ ڈال دے اگر نالہ بھی میرا مضمحل‘ نغمہ بھی میر ا بے اثر ہندوستانی معاشرے میں انسانوں کو بھگوان بنانے کاکام ظاہری طور پر مذہبی اورعقیدت سے جڑے جاہلانہ تصورات کے تابع دکھائی دیتا ہے۔بالی وڈ میں امیتابھ بچن المعروف بگ بی جبکہ سائوتھ انڈین فلم ٹریڈ میں رجنی کانت بھگوان سمجھے جاتے ہیں۔دونوں بھگوانوں کویہ درجہ ان کے پرستاروں نے دیا ہے ۔ممبئی کے مضافات میںامیتابھ بچن مندر تو میں نے بھی دیکھ رکھاہے۔بھگوان بنانے اورثابت کرنے کی روایت اگرچہ ہندوانہ ہے مگر دلچسپ اتفاق ہے کہ یہاں اوروہاں دونوں اطراف یہ کام کاروباری اورسیاسی بنیادوں پر ڈالاجاتاہے۔ گذشتہ دنوں بھارتی فلم ’’او مائی گاڈ‘‘دیکھنے کااتفاق ہوا جس میں ہمارے فیورٹ ایکٹرپاریش راول نے ایک گجراتی کاکردار ادا کیا ہے۔ ہندوستانی معاشرے میںگجراتی قوم کاروباری اورمحنتی سمجھی جاتی ہے۔فلم کی کہانی کے مطابق پاریش راول کو اچانک سیلاب آجانے کے باعث شدید نقصان کا اٹھاناپڑتاہے۔پاریش راول انشورنس کمپنی سے کاروباری نقصان ادا کرنے کیلئے رجوع کرتاہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ ناگہانی آفات سے ہونے والے نقصان کی ذمہ دار انشورنس کمپنی نہیںہوسکتی کیونکہ یہ سب بھگوان کی طرف سے ہوتاہے۔ پاریش راول واویلاکا کرتاہے کہ انشورنس کمپنی ہی اسکا نقصان ادا کرے مگر کمپنی کاموقف یہ ہوتاہے کہ بھگوان کے کاموں اورناگہانی آفات کی ذمہ دار نہیں ہوسکتی۔بالآخر پاریش راول بھگوان کیخلاف مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کرتاہے جس پر انڈین میڈیا اس رٹ پٹیشن کو سر پر اٹھا لیتاہے اوریوں راتوں رات یہ گجراتی پٹیشنر پورے ملک میں بدنام ہو جاتا ہے۔ بھگوان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے پر پنڈت اورسوامی گجراتی بابو کی جان کے دشمن بن جاتے ہیںاوراسے اپنی جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔انتہا پسندہندو بھگوان کیخلاف مقدمہ درج کرانے پر گجراتی بابو پر قاتلانہ حملہ کردیتے ہیں جس پر اچانک بھگوان کرشن نمودار ہوتے ہیں اور گجراتی بابو کی جان بچا لیتے ہیں۔ کرشن بھگوان کا کردار اکشے کمار نے ادا کیا جوفلم کے پروڈیوسر بھی ہیں۔کرشن مہاراج کی انٹری ہیوی موٹرسائیکل پر ہوتی ہے اور انہیں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے بھی دکھایا گیا ہے۔ کرشن بھگوان، گجراتی بابو کو انتہا پسندوں سے چھڑا کر موٹرسائیکل پر سوار کرتے ہوئے اسی طرح ون وے ڈرائیو کرتے ہیںجیسے ٹام کروز اپنی فلم ’’مشن ایمپاسیبل‘‘ میں کیاکرتے ہیں۔ دیکھاجائے تو ہمارے ہاں بھی بھگوان اورہیروز سے اسی طرح کے سیاسی سٹنٹ منسوب کردئیے جاتے ہیں۔ خبر ہے کہ ’’وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنا ہیلی کاپٹر سیلاب متاثرین کے لئے وقف کردیا‘‘۔ وزیراعلیٰ نے راجن پور سیلاب کے متاثرہ علاقوں کادورہ بھی کیاہے۔ہمارے تیزگام وزیر اعلیٰ نے کہاکہ سیلاب اوربارشوں سے متاثرہ افراد کی امداد اوربحالی میںکوئی کسر اٹھانہیںرکھی جائے گی۔حالیہ سیلاب کسی قیامت سے کم نہیں ،متاثرین کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے ۔مگر یہ اللہ کی جانب سے اپنے پیاروں بندوں کے لئے امتحان ہوتاہے۔ ماہر ارضیات اورکائنات کے اسرارورموز کی سائنسی بنیادوں پر کھوج لگانے والوں کاکہناہے کہ زمین کو سورج سے جداہوئے کئی ارب سال گذر چکے ہیں۔کائنات،زمین اورموجودہ زندگی نے ہم تک پہنچتے ہوئے اربوں سال کی مسافت طے کی ہے ۔لہذا ہزاروں اور لاکھوں صدیاں گزر جانے کے بعد عوام کو ناگہانی آفات کے نام پر غچہ دینامناسب بات نہیںہے۔یہ درست ہے کہ سیلاب تو امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی آجاتاہے مگر اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ یہ وہاںکس قدر تباہی کاباعث بنتاہے؟ساون بھادوں سوسال بعد نہیںہرسال آتاہے وہ کونسی حکومت ہوگی جو غریب عوام کی جان ومال کو اپنانقصان تصور کرتے ہوئے خشک مہینوں میں اس ناگہانی آفات سے بچنے کی منصوبہ بندی کرے گی؟چیونٹی وہ ننھی جاندار ہے جو گرم موسموں میں سردموسموں کے لئے اناج جمع کرتی ہے۔کیاہم چیونٹی سے منصوبہ بندی سیکھیں گے؟ حکمرانوں کومشورہ ہے کہ اپنے شہ دماغ مشیروں کی صف میں کچھ چیونٹیاں بھی شامل کرلیںجو انہیں ’’ڈیزاسٹرمینجمنٹ‘‘ کی تربیت دے سکیں۔ کالم میں مقطع کے طور پر خبر ملاحظہ ہو ’’وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اپنے معمول کے میڈیکل چیک اپ کرانے کے لئے آج دوپہرلندن روانہ ہورہے ہیں،وہ برطانیہ میں دوروز تک قیام کریںگے اورواپسی پر اپنے فرائض منصبی اسی تندہی سے سرانجام دیںگے‘‘۔ پروردگار وزیراعلیٰ پنجاب کو صحت دے اورعوا م کو ناگہانی آفات سے محفوظ رکھے… آمین۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں