"TSC" (space) message & send to 7575

طعنہ

وزیر اعظم میاں نوازشریف نے قوم سے خطاب میں کہاکہ ’’مذاکرات یا ریاستی طاقت کااستعمال ، دہشت گردی کا خاتمہ چاہتاہوں‘‘۔ دہشت گرد ہمارے 50ہزار سے زائد شہریوں کو شہید کرچکے ہیںجن میں لگ بھگ پانچ ہزار سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں ہماری معیشت کوناقابل تلافی نقصان پہنچا ،وطن عزیز کے شہروں، قصبوں، دیہات، بازاروں ،کوچوں اورگلیوں سے ہم نے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائیں۔ان سنگدلوں نے قبروں اورجنازوں کو بھی ٹارگٹ بنایا،معصوم بچوں کے سکول اور گرلز کالج بھی ان سے محفوط نہ رہے،درگاہوں اورآستانوںمیں بھی انہوںنے خون کی ہولی کھیلی۔ ہمارے یہ دشمن آئین، قانون، پارلیمنٹ، عدالت اورمعیشت سے جڑے کسی ضابطے کونہیںمانتے ،ان سے کس بات اورکس ایشو پر بات ہوسکتی ہے؟ان کا پہلا کلمہ ہی یہ ہے کہ وہ کسی آئین، جمہوریت، پارلیمنٹ اورعدالتی نظام کونہیںمانتے۔ وہ سکولوں اور کالجوں میں پڑھائے جانے والے نصاب اور طریقۂ تعلیم کو بھی نہیں مانتے۔ وہ تصویر سے لے کر تحریر تک کو حرام سمجھتے ہیں ،ان کے نزدیک تو پولیو کے قطرے بھی حلال نہیں۔ ان بنیادی تضادات کے ہوتے ہوئے ہم کن مشترکہ مسائل اور تنازعات پر بات کریں گے، ان سے مذاکرات کا ایجنڈا کیاہوگا،کیاوہ واقعی کسی ایسی تبدیلی کے داعی ہیںجس سے انسانوں کی تقدیر بدل سکتی ہے یاپھردہشت گردی کی اس جنگ کے پیچھے‘ جو صرف ان کی نظر میں ہی ’’جہاد‘‘ ہے‘ کسی مایا اور کسی لکشمی دیوی کا بھی ہاتھ ہے؟ شکیب جلالی نے کہاتھا ؎ کاسۂ سر کو ان سے کچھ پتھر خیرات ملے روپ کی مایا جن کو کر کر لمبے ہات ملے وزیرا عظم نے کہاہے کہ حکومت کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ایک سے زیادہ آپشن موجود ہیںمگر دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایساراستہ اختیار کیاجائے جس میں مزیدمعصوم جانیں ضائع نہ ہوں۔ عمران خان نے دہشت گردوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کوآخری آپشن قرار دیا ہے۔ عمران خان ہمیشہ یہ تجویز کرتے ہیںکہ دہشت گردوں سے مذاکرات کئے جائیں۔ خاں صاحب کا موقف ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردی ، بم اورخودکش دھماکوں میں شدت اس وقت آئی جب ڈرون حملوں کا آغاز ہوا۔ خاں صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز روس کے خلاف امریکہ کی جنگ کے نتیجہ میں ہواتھا جو افغانستان میں 24دسمبر 1979ء سے لے کر 15 فروری 1989ء تک جاری رہی۔ 9سال ایک ماہ 3ہفتے اور ایک دن تک لڑی جانے والی امریکی جنگ کا ہراول دستہ افغان مجاہدین تھے ۔مذکورہ جنگ امریکہ،برطانیہ اور بعض مسلمان ممالک نے ’’جوائنٹ ونچر‘‘ سمجھ کر لڑی تھی ۔دنیا کی معیشتوں پر قبضہ کرنے کے اس گھنائو نے کھیل کا ہم نہ صرف مہرہ بنے بلکہ یہ خوفناک بساط اپنے ہاں بچھا لی گئی۔ عمران خان دہشت گردی کے کینسر کی تشخیص کرتے ہوئے اس کا سبب ڈرون حملوں کوقراردیتے ہیںجو درست نہیںہے۔د کھوں کے قومی کیلنڈر کامطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وطن عزیز میں دہشت گردی کا آغاز روس کے خلاف ’’امریکی سپانسرڈ جہاد‘‘ کے نتیجہ میں ہواتھا۔اس نسبت سے قراردیاجاسکتا ہے کہ ہمارے دکھوں اورمصیبتوں کے ’’بانی‘‘ صدر جنرل محمد ضیاء الحق تھے ۔ 17 اگست کے دن مرحوم کی 25ویں برسی خاموشی سے گزر گئی۔ یہ خاموشی اس خاموشی سے ملتی جلتی تھی جو ان کے منعقد کرائے گئے ریفرنڈم کے دن وطن عزیز پرطاری تھی ۔میں نے وہ ریفرنڈم اپنی آنکھو ں سے دیکھا ہے۔ اس دن شہر اور گائوں سائیںسائیں کررہے تھے لیکن اگلے روز جنرل محمد ضیاالحق صدر پاکستان بھی بن گئے تھے ۔ حبیب جالب نے اس ’’وقوعے‘‘ کا نقشہ اپنی نظم ’’ریفرنڈم‘‘ میں یوں کھینچا تھا: شہر میں ہو کا عالم تھا جن تھا یا ریفرنڈم تھا قید تھے دیواروں میں لوگ باہر شور بہت کم تھا کچھ باریش سے چہرے تھے اور ایمان کا ماتم تھا مرحومین شریک ہوئے سچائی کا چہلم تھا د ن انیس نومبر کا بے معنی بے ہنگم تھا یا وعدہ تھا حاکم کا یا اخباری کالم تھا جنرل ضیا کی برسی کے دن سترہ اگست کو نون لیگ نے پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی کہ آنے والے بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔غیر جماعتی انتخابات ڈکٹیٹروں اورآمروں کی یادگار کے طور پر ہمارے افسوسناک ماضی کا حصہ ہیں۔غیر جماعتی انتخابات سے ہی آرڈر پر مال تیار کرنے کی تکنیک سے من پسند لیڈر شپ تیار کی گئی ۔ مارکیٹ میں اس وقت 70سے لے کر 90فیصدسیاسی لیڈر شپ ’’غیر جماعتی ٹکسال‘‘ کی پیداوار ہے۔ سیاسی لیڈر شپ کے مینوفیکچرر جنرل ضیاالحق گیارہ برس تک ایک ہی راگ الاپتے رہے کہ ملک کو سیاسی جماعتوں اورمغربی جمہوریت سے خطرہ ہے ۔ایسا کہتے ہوئے وہ یہ بھول جایا کرتے تھے کہ اس ملک کی تخلیق کا عمل ایک سیاسی جماعت( آل انڈیا مسلم لیگ) ہی کے ذریعہ مکمل ہوا اور قائداعظم ؒ نے جمہوریت ہی کو اس ملک کے بقا کی ضمانت قرار دیا تھا۔ اس حقیقت کو ٹیسٹ کیس کے طور پر نون لیگ کے حکمرانوں اورپالیسی سازوں کو یاد دلانا چاہیے اور فیصلہ ان پر چھوڑدینا چاہیے کہ انہوں نے کس رستے پر آگے بڑھنا ہے ؟غیر جماعتی اورغیر جمہوری رستے پر یا پھر اس راہ پر جسے اختیار کر کے قائد اعظمؒ جنوبی ایشیا میںبسنے والے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن حاصل کرپائے تھے؟ اگرچہ نون لیگ کا خمیر بھی اسی مٹی سے گُندھا ہوا ہے جو ہمارے ہاں وافر مقدار میں پائی جاتی ہے ۔لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اس نے جنرل پرویز مشرف کے 9 سالہ دور میں جمہوریت کی ’’مہابھارت ‘‘ لڑی ہے۔ایک عرصہ سے نون لیگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اور’’تندی بادِ مخالف‘‘ والی سیاست کررہی تھی لیکن یکایک اس نے پلٹا کھایااور بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی کرانے کا نعرہ لگایا۔بلدیاتی انتخابات کے ایشوپر پیپلز پارٹی کا کہناہے کہ نون لیگ کی قیادت ایک عرصہ تک ڈکٹیٹر ضیاالحق کی جانشینی کرتی رہی ہے لہٰذا ان سے بعیدنہیںکہ آئندہ عام انتخابات بھی غیر جماعتی بنیادوں پر کرانے کے انتظامات کریں۔ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے بلدیاتی نظام اورآنے والے انتخابات کی مخالفت کرتے ہوئے کہاہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں ’’انگریز کا نظام‘‘ نافذ کر دیا ہے۔ اس پر پیپلز پارٹی کا جواب تھا ’’حیرت ہے کہ برطانیہ کا شہری برطانوی نظام کی مخالفت کررہاہے‘‘۔ پیپلز پارٹی کاکہنا ہے ہماری لیڈر شپ ملک چھوڑ کر نہیں جاتی چاہے اس کا عدالتی قتل کیاجائے یا اسے سرعام شہیدکردیاجائے… وہ عوام میں جیتی اورمرتی ہے لہٰذا اسے غیر جمہوری طعنہ نہ دیاجائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں