"TSC" (space) message & send to 7575

زندہ بھاگ؟

سانحہ پشاور میں خودکش بمباروں نے 81بے گناہ مسیحی بھائیوں کی جان لے لی۔ دہشت گردی کی اس آگ نے اقلیتوں کی جان ومال کی حفاظت کی روح تک کو خاکستر کردیا۔ ایسی صورت حال میں بھی جنرل حمیدگل صاحب کاکہناہے کہ پاکستان کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے فیصلے پر قائم رہنا چاہیے ۔جنرل صاحب انٹیلی جینس شیئرنگ کرتے ہیں کہ طالبان کے 25گروپ مذاکرات پرتیار اور 5مخالف ہیں۔ مخالف گروپ کو بھارت، اسرائیل اورامریکہ سے امداد مل رہی ہے۔ کیا یہ پانچ گروپ 20 کروڑ سے زائد پاکستانیوں پر بھاری ہیں؟ کبھی یہ سارے طالبان ہمارے ’’اثاثے ‘‘ ہوا کرتے تھے پھر پانچ ہمارے مخالف ہوگئے۔ اپنے بیگانے کیسے ہوگئے؟اگر وہ بیگانے ہوگئے ہیں اور بیگانے بن کر وہ ہمیںبرباد کررہے ہیںتو ظلم کا یہ ہاتھ کاٹا کیوں نہیں جا رہا؟ آخر اس میں کیاحکمت ہے؟محسن نقوی نے کہاتھاکہ ؎ گھر کس نے جلایا ہے‘ کسے کون بتائے؟ منصف ہے یہاں آگ‘ گواہوں میں دھواں ہے اسلام میں غیر مسلموں کی جان ومال اورعزت و آبرو کی حفاظت ریاست یا حکومت کا فرض اور ذمہ داری سمجھی جاتی ہے‘ لیکن ریاست کی رٹ کو ایک عرصہ سے نہ صرف چیلنج کیاجارہا ہے بلکہ ایک طرف طالبان رہنمائوں کو ماورائے آئین رہا کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف وہ مسجدوں، مدرسوں، ہسپتالوں، مزاروں، آستانوں، جنازوں، قبرستانوں اور گرجا گھروں پر حملے کرکے بے گناہوں کو قتل کررہے ہیں۔وطن عزیز میں دہشت گردی کو ڈرون حملوں کا نتیجہ اوربدلہ قرار دیاجاتاہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ ڈرون حملے بند نہیںکرے گا‘ وہ جب بھی خطرہ محسوس کرے گا کہ اسے نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے وہ اس مقام اورمنصوبہ کاروں کو ٹارگٹ بنائے گا۔ دوسری طرف طالبان امریکہ سے براہ راست جنگ کرنے کے بجائے پاکستان کے نہتے، بے گناہ اورمعصوم شہریوں کو شہید کرتے رہتے ہیں۔چند روز قبل طالبان نے پاک فوج کے میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کودیر کے مقام پر شہید کیا۔ یہ سلسلہ عرصہ سے جاری ہے، طالبان ہمارے شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔ ہمارے اثاثے اورمعیشت برباد کرتے ہیں۔ انہوں نے حساس فوجی مقامات اورہمارے مہنگے اوربہترین جنگی آلات کو بھی تباہ کیا۔ اس کے بعد بھی طالبان کو آخر اس قدر لاڈلاکیوں سمجھا جاتا ہے؟ کیا والدین اپنے ناخلف بچوںکو عاق نہیں کردیاکرتے؟اور کیاکوئی ایسا بھائی بھی ہوتاہے جو اپنے بھائی کو قتل کرنے کے بعد بھی والدین کے ساتھ ایک گھر کی چھت تلے رہ سکے؟ سانحہ پشاور کے دکھ کے موقعہ پر میں نے اپنے مسیحی دوست احباب سے ٹیلی فون پر یک جہتی کا اظہار کیا۔گلوکار اے نیئر اوربنجمن سسٹرزسے بات ہوئی‘ ان سب کا کہنا تھاکہ یہ حملہ عیسائیوں پر نہیںبلکہ پاکستان کی سالمیت اور اس بھائی چارے پر کیاگیاجو ہم میں قائم ہے۔ اپنے مسیحی دوستوں کی یہ بات سن کر میں گہری سوچ میں ڈوب گیاکہ ہماری ریاست اورحکومت ملک میں آباد سب سے بڑی اقلیت کی جان ومال کی حفاظت کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے مگر ان کے لبوں پر کوئی گلہ بھی نہیں ہے۔ میرے دوست گلوکار اے نیئر کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ میں نے نیئر صاحب سے کہاچرچ پر حملے کا مجھے دلی صدمہ ہوا ہے ۔اس پر نیئر صاحب کا جواب تھا ان لوگوں نے کہاں حملہ نہیںکیا؟ مسجدیں، درگاہیں اور آستانے کچھ بھی ان سے محفوظ نہیں‘ اس جنگ میں ہم آپ سے علیحدہ نہیںہیں‘ ہم اکٹھے جئیں گے اکٹھے مریں گے۔ اے نیئر کے منہ سے آج کے اس لہورنگ پاکستان کے لئے محبت ،ایثار اورقربانی کے جذبات سن کر میری آنکھیں بھیگ گئیں ۔میں سوچ رہاتھاکہ جس ملک کو اقلیت بھی اس قدر محبت کرنے والی میسر آئی ہواس کا یہ حال کیسے ہوگیا؟ بابائے قوم نے 11 اگست 1947ء کے دن اپنے خطاب میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتوںکے حقوق کے حوالے سے وضاحت سے فرمایاتھاکہ آپ کا تعلق کسی کمیونٹی سے بھی ہو، آپ کو عقیدے ،ذات پات اوررنگ کے خانوں میں تقسیم ہر گز نہیںکیاجائے گا۔ریاست بلاامتیاز سب کے حقوق اورمراعات کی ضامن ہوگی ،یہ ممکن بنا لیا گیا تو پھر آپ اس قدر ترقی کریںگے جس کی کوئی حد نہیںہوگی۔ لیکن افسوس قائد کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر نہ کیاگیا۔ پاکستان میں عیسائی سب سے بڑی اقلیت ہیں ۔پنجاب کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے شہروں میں آباد عیسائیوں کی تعداد 28لاکھ بیان کی جاتی ہے۔پاکستان کے 90فیصد سے زائد مسیحی پنجاب میں رہائش پذیر ہیںجو صوبے کی بھی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔صوبہ پنجاب میں آباد 60 فیصدعیسائی دیہات میں آباد ہیں جن کی کثیر تعداد ہمارے زرعی نظام کے ساتھ ہراول دستے کے طورپر منسلک ہے۔ بڑے دکھ اورافسوس سے کہناپڑتاہے کہ پاکستان میں بعض دوسری اقلیتوں کی طرح عیسائیوں سے بھی اکثر امتیازی سلوک روا رکھا جاتاہے۔ 1997ء میں ملتان ڈویژن کے ضلع خانیوال سے 12کلومیٹر مشرق میں واقع دوجڑواں دیہات شانتی نگر اورٹبہ کالونی میں عیسائیوں کے گھروںکو جلایا گیا۔ 28اکتوبر 2001ء کو بہاولپورمیں ایک چرچ پر حملہ کیا گیا جہاں بچوں سمیت16افراد جاں بحق ہوئے۔ 17مارچ 2002ء کو اسلام آباد میں سفارت خانوں کے لئے مخصوص چرچ پر دستی حملہ کیاگیاجس میں ایک امریکی خاتون‘ اس کی پانچ سالہ بیٹی سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ 2002ء میں کراچی اورٹیکسلا کے گرجاگھروں پر حملے کئے گئے جہاں گیارہ ہلاکتیں ہوئیں۔ 2005ء میں سانگلہ ہل ضلع ننکانہ صاحب کے مسیحی عوام کو تشدد اورلوٹ مارکا نشانہ بنایاگیا۔31جولائی اوریکم اگست کو گوجرہ کے دودیہات کوریاں 95ج ب اور362ج ب میں ایک بار پھر سے ایسے واقعات کو دہرایاگیا۔گوجرہ میں عیسائیوں کے خلاف انتہائی بربریت کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس واقعہ میں 9افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے جبکہ ان کے سات سے زائد گھر جلادئیے گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ اٹھارہ ماہ میں وطن عزیز میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوسو تین واقعات رونما ہوئے ہیںجن میں سات سو سے زائد افراد ہلاک اورگیارہ سو زخمی ہوئے ۔ان حملوں میں دہشت گرد تنظیموں نے خاص طور پر شیعہ برادری کو نشانہ بنایااورکچھ حملے مقدس مقامات پر کئے گئے۔جنوری 2010ء سے جون 2013ء کے اعداد وشمار کے مطابق مذہبی اقلیتوں پر 203 حملے ہوئے جن میں سے 77حملے شیعہ ،37عیسائیوں 54 احمدیوں، 16ہندوئوں 3سکھوں اورسولہ دیگر مذہبی گروہوں پر کئے گئے۔ واقعات اورشواہد کے مطابق وطن عزیز میں ایک عرصہ سے کوئی بھی محفوظ نہیں‘ مسلمان ہو یا عیسائی ،ہندو ہویاسکھ، احمدی ہو یا پارسی؟ جب یہ سب ایک ایسی اقلیت سے غیر محفوظ ہیں جو کسی مذہب کا احترام نہیں کرتی‘ جس کے نزدیک ریاست، سیاست، حکومت اور جمہوریت سب بے معنی ہیں تو پھر ان انوکھے لاڈلوں کی رسی دراز کیوں کی جارہی ہے؟ پاک فوج کے جرنیلوں سے لے کرعام پاکستانی تک جب ان کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں تو مزید انتظار کرنے کے بجائے اب حشر اُٹھا دینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔ ٹاک شوز میں ’’دفاعی تجزیہ کار‘‘ وزیر اعظم نوازشریف اور عمران خان پر برس پڑے ہیں۔ ان کا کہناہے جب ان کے پاس طالبان سے نمٹنے یا مذاکرات کرنے کا’’ مینڈیٹ ‘‘نہیںتھا تو دونوں نے انتخابات میں یہ تاثر کیوں دیاکہ برسراقتدار آکر وہ سب ٹھیک کرلیںگے؟ تجزیہ کار جوبھی کہتے رہیںپیپلز پارٹی کے قائم علی شاہ جو اپوزیشن لیڈر ہیںانہوں نے ٹھوک کر کہاہے ’’کچھ بھی ہوہم منتخب جمہوری حکومت کے ساتھ ہیں‘‘۔یہ ہوتاہے جمہوریت پسند ہونا‘ پیپلزپارٹی کے لوگ مخصوص میڈیاکی نظر میں جیسے بھی ہیں یہ میمو گیٹ سکینڈل کی آڑ میں رٹ پٹیشن لے کر سپریم کورٹ نہیں جاتے۔ یہ وہ گھڑی ہے جب عوام اور پاک فوج سب کومل کر جمہوری حکومت کو ہلاشیری دینا چاہیے کہ وہ دہشت گردوں کے مقابلے میں ڈٹ جائے اگر ایسانہ ہوا تو بے گناہ انسانوں کا خون بہتا رہے گا۔ قبل اس کے کہ لوگ اس نعرے ’’زندہ بھاگ‘‘ کو آخری راستہ سمجھ لیں‘ ریاست اورحکومت کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں