"TSC" (space) message & send to 7575

توبہ

احمد ندیم قاسمی مرحوم نے کہاتھا: اب تیرے فردوس پہ میرا حق ہے تونے اس دور کے دوز خ میں جلایا ہے مجھے ہم وہ گنہگار ہیں جنہوں نے اپنا دوزخ اپنے ہاتھوں سے دہکایا۔ ہمارے ہاں ہر ناجائز کام کو جائز طریقے سے کرنے کا رواج پراناہے۔وطنِ عزیز میں یہ رواج اس قدر فروغ پاگیا کہ جائز کام کرنے کی گنجائش نہ رہی اورناجائز کام کو ہی جائز سمجھا جانے لگا۔ناجائز کو جب جائز قرار دے کر عظمتوں کے سنگھاسن پر سجایا گیا تو جھوٹ کو سچ بنا کر تخت پر براجمان کر کے سچ کو سولی پر چڑھا دیاگیا۔ ملک کے پانچوں موسموں کا رنگ خزاں جیسا زرد ہوگیا۔ تیز ہوائوں میں بھی حبس اورگھٹن کا احساس رہا۔ جاڑے کی نرم دھوپیں تن من کے ساتھ ساتھ شعور اورآگہی کو جلاتی رہیں۔بہار کی آمد بھی مردہ دلوں میں زندگی کی روح نہ پھونک سکی‘ برکھا رُت میں ناانصافی کے بادل چھائے رہے، کرپشن کی گھنگھور گھٹائوں اورظلم و بربریت کی موسلادھار بارشوں کوبارانِ رحمت قراردیاجاتارہا۔ بحیثیت قوم ہمارا پہلاگناہ کیاتھا؟ نشاندہی کرنے بیٹھیں تو ریاست کا امریکہ اورروس میں سے امریکی لابی میں شامل ہونا ہمارا پہلا ’’گناہ کبیرہ‘‘ لگتاہے۔ اس کے بعد بنگالیوں، پشتونوں، پنجابیوں اورسندھیوں سمیت تمام پاکستانیوں کو اردو قومی زبان کے طور پر قبول کرنے کے فیصلے کی طرف دھیان جاتاہے۔ پھر قائد ملت لیاقت علی خان کے قتل کی واردات بڑا قومی سانحہ تھا۔ میرے ایک صحافی دوست نے لیاقت علی خان کے قتل کے حوالے سے تحقیقی مضمون میں اہم انکشافات کئے ہیں۔قتل کی یہی وہ واردات تھی جس کے بعد پاکستان ایک رفاہی، فلاحی اورپر امن ریاست بننے کے بجائے دفاعی ریاست کہلانے لگا۔ اس ضمن میں بھارت کے ساتھ جنگیں اور ’’افغان جہاد‘‘ میں شامل ہونااہم واقعات تھے۔پاکستان کے امریکی لابی میں شامل ہونے کا فیصلہ مئی1947ء میں کرلیاگیاتھا۔اس وقت روس اورامریکہ دونوں سپر پاورزتھیں۔ خارجہ امور اور دفاعی ماہرین کے مطابق چاہیے تو یہ تھاکہ ہم دونوں ملکوں سے اپنے تعلقات بہتر رکھتے، لیکن پاکستان نے روس کو یکسر نظر انداز کرکے امریکہ کے ساتھ ’’پیار کی پینگیں‘‘ بڑھائیں۔وقت نے فیصلہ سنا دیا کہ ہماری سیاست کا قبلہ درست نہیںتھا۔ 1953ء میں راولپنڈی میں ظاہر ہونے والا خون آلود منظر کچھ یوں تھا کہ لیاقت علی خان کا قاتل سید اکبر افغان باشندہ تھا۔ 1944ء میں برطانوی حکومت کے ایما پر افغانستان میں گڑبڑکی ناکام کوشش کے بعد یہ فرنگی ایجنٹ بن کر اپنے خاندان کے ساتھ صوبہ سرحد میں آباد ہوگیا۔گویا صوبہ سرحد کو دہشت گردی کا ’’بیس کیمپ ‘‘ بنانے کااہتمام شروع سے کردیاگیاتھا۔لیاقت علی خان کا قاتل برطانوی حکومت کا وظیفہ خوار تھا اوراسے یہ ’’محنتانہ‘‘ پاکستان کے ایک ادارے کے اہلکار ہونے کی حیثیت سے مل رہاتھا۔سید اکبر کے بارے میں یہ بھی بیان کیاگیاہے کہ وہ پر اسرار آدمیوں سے ملتا جلتاتھا۔14اکتوبرکو وہ راولپنڈی پہنچا تو اس نے کسی سے استخارے کی درخواست کی۔ اسے تحریری جواب ملا جس میں لکھا تھاکہ بہشت میں حوریں تمہاری منتظر ہیں۔تم ہماری خوشنودی پائوگے۔کیسی عجیب بات ہے کہ دہشت گردی کی جنگی انڈسٹری کا ’’خام مال ‘‘آج بھی اسی قسم کے استخاروں اور فتووں سے پیدا کیاجارہاہے۔دہشت گردی کی جنگ کاایندھن بننے والے کم سن خودکش بمبارانہی کے ذریعے ’’راہ راست‘‘ پر لائے جاتے ہیں۔ دہشت گردی ایک منافع بخش کارپوریٹ بزنس ہے جس کے سٹیک ہولڈرز بظاہر مخصوص مذہبی وضع قطع رکھتے ہیں۔ یہ افراد خودکُش حملوں کے لیے افراد کی کھیپ ان علاقوں سے بھرتی کرتے ہیںجہاں غربت کی کوکھ سے محرومیاں اورجہالت پھل پھول رہی ہوتی ہے۔ایسے حقائق بھی سامنے آئے ہیںکہ غریب والدین سے ان کے کم سن بچوں کو یہ کہہ کر لے لیاجاتا ہے کہ یہ ’’شہید‘‘ ہو کر آپ کی سات نسلوں کے جنت میں داخل ہونے کا اہتمام کردیں گے۔ یہ ایک دلخراش حقیقت ہے کہ ان خودکُش بمباروں کا انتخاب ہمیشہ غریب بستیوں سے کیاجاتاہے‘ آج تک کسی امیر کا بچہ خودکش نہیں بنا۔ ہماری اس نیشنل ٹریجک سٹو ری کے سکرین پلے میں یہ اتفاق بھی معنی خیز ہے کہ ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل راولپنڈی میں ہوا ، پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ’’عدالتی قتل ‘‘ بھی راولپنڈی میں ہوااورپھر پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی اسی شہر میں سرعام قتل کردیا گیا۔ تاریخی حقائق کے مطابق لیاقت علی خان اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کی قتل کی تحقیقات پولیس سمیت خفیہ اداروں نے بھی کی لیکن اصل سازش گروں کا سرا غ نہ لگایا جاسکا۔ یہ بھی تاریخی حقائق ہیں کہ لیاقت علی خان اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات سکاٹ لینڈ یارڈ سے کرائی گئیںمگر عالمی شہرت یافتہ اس ادارے کے جاسوسوں کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا۔ غالباََ یہ جملہ وارداتیں ان سے بڑے ’’کاری گروں ‘‘ نے کی تھیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہاہے کہ دہشت گردی کا تحفہ قوم کو پرویز مشرف نے دیا جس کو ختم کرنے میں وقت لگے گا۔پرویز رشید صاحب اس ملک کی سیاسی تاریخ سے واقف ہیں۔وہ ایک ہی وقت میں پاکستان کی اس خون آلود، پر اسرار اورنعمت افروز سیاست کے متاثر بھی ہیں اور مستفیض بھی۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیںکہ دہشت گردی کے بیج آغاز سے ہی بو دیے گئے تھے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل محمد ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف اپنے اپنے ادوار میں ان فصلوں کی ’’پیداوار‘‘ بڑھانے میں مصروف رہے۔یہ بھی ہماری سیاست کا طرہ امتیاز ہے کہ ایک لیڈر کا ’’ڈیڈی‘‘ دوسرے لیڈر کے لئے ڈکٹیٹر رہا۔آغاز سے ہی پاکستان کو اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آہنی پنجوں اور سنہری پروں سے ڈھانپ لیا تھا۔ لیڈروں کی ساخت وپرداخت بھی انہی کے زیر سایہ ہوئی۔ لیڈر شپ پیدا کرنے کی نرسریاں اور ڈیری فارم چونکہ ایک ہی ’’کمپنی‘‘ کے تھے اس لئے ہماری جملہ اقسام کے رہنما کی جنم بھومی یہی ایک مقام ٹھہرا۔ سابق آئی جی پنجاب چودھری سردار محمد نے ملک کا نظریہ اورجغرافیہ ٹوٹتے پھوٹتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔4 جولائی 1977ء کے دن نواب زادہ نصراللہ خان نے قومی اتحاد کے لیڈر کی حیثیت سے بھٹو حکومت سے سمجھوتہ کا اعلان کردیاتھا‘ اس کے باوجود آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لانافذ کردیا۔ اس سے قبل16دسمبر 1971ء کے دن پاکستانی فوج نے ہتھیار پھینکے اورمشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوا تو اس عظیم سانحے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے بنائے گئے حمود الرحمان کمشن کے سامنے جب جنرل یحییٰ خان پیش ہوئے تو انہیں اپنے کئے پر کوئی شرمندگی نہ تھی‘ البتہ ایئر مارشل نورخان نے کہاکہ نچلی سطح پر جرأت اور بہادری کا اعلیٰ معیار برقرار تھا لیکن مارشل لا نے اوپر کی سطح پر اخلاق کو تباہ کردیاتھا۔ وہ خود پسند‘ متکبر‘ لالچی اورکرپٹ ہوگئے تھے۔ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاکے بعد کم از کم پورا ایک میلینیم (ہزار سال) وطن عزیز کو مارشل لاسے محفوظ رکھنا چاہیے تھا مگر جنرل محمد ضیاء الحق جیسے ’’مرد مجاہد‘‘ اور جنرل پرویز مشرف جیسے لبر ل کمانڈو انیس سال ملک پر مسلط رہے۔ہماری ستم ظریفی یہ رہی کہ ہمار ا ایک سپہ سالار ’’اسلام پسند‘‘ اور دوسرا ’’لبرل کمانڈو‘‘ تھا‘ لہٰذا قوم کی تقدیر سے نظریاتی فیوژن کرکے ایک دنیا سے اوردوسرا اپنے تمام عہدوں سے علیحدہ ہوگیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے ان پیش روئوں کے کئے کا قدرے ’’کفارہ‘‘ ادا کیاہے۔آنے والے فوجی سربراہوں کو جنرل کیانی اور آئین کے متعین کئے گئے رستے پرچلتے رہنا ہوگا۔سیاستدانوں کو بھی فوجی سربراہوں کے سر وں پر دس بار تاج سجانے کی ’’جمہوری بدعت‘‘ سے توبہ کرنی چاہیے۔ یہاں یہ توبہ کرلی گئی تو ممکن ہے اگلے جہان میںعوام فردوس کے حق دار ٹھہریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں