"TSC" (space) message & send to 7575

لبیک

سابق انسپکٹر جنرل پولیس چوہدری سردار محمد اقبال اپنی خود نوشت’’جہانِ حیرت‘‘ میں لکھتے ہیں… 1972ء کے شروع میں ایک دن کی بات ہے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو بھارت کے ساتھ جنگی تنازعات کے حوالے سے بلائے گئے اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔میں اورمیاں انورعلی ڈی آئی جی شرکت کے لئے گئے ۔اجلاس میں بھٹو صاحب نے ڈائریکٹر آئی بی سے متعدد سوال پوچھے۔ مثلاً کیامقبوضہ علاقوں کی واپسی جنگی قیدیوںکی رہائی سے زیادہ اہم ہے؟جب اندرا گاندھی یہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی قوم کو ایک اورخوشخبری سنائیں گی تو اس سے ان کی کیامراد ہوتی ہے؟ آج کل اتنے جلوس کیوں نکل رہے ہیں؟روس بلوچستان میں اس قدر دلچسپی کیوں لے رہاہے؟آیا کوئی بڑا کھیل کھیلا جارہاہے اوریہ کہ ہم کیاکررہے ہیں؟اس سے پیشتر کہ میاں انورعلی جواب دینے کے لئے منہ کھولتے‘ جلد باز اورتیز طرار بھٹو اگلاسوال داغ دیتے ۔ ڈی آئی جی میاں انورعلی نے کسی نہ کسی طرح تمام مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ بھٹو صاحب نے پوچھا: ’’آیا جنگی قیدیوں کے مسئلہ سے زیادہ خاندان متاثر ہورہے ہیںیا بھارت کے زیر قبضہ علاقہ سے ؟‘‘ ہم سب کی رائے تھی کہ جنگی قیدیوں کامعاملہ زیادہ لوگوں کی پریشانی کا موجب بن رہاہے۔ہمیں محسوس ہوا کہ بھٹو صاحب وہ واحد شخص تھے جو اس اجلاس میں ہوم ورک کرکے آئے تھے۔انہوں نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ دشمن کے زیرقبضہ علاقہ سے متاثر ہونے والے لوگوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے جوجنگی قیدیوں کے مسئلہ سے متاثر ہورہے ہیں۔الگ الگ سیکٹر کی مکمل تفصیلات پیش کیں۔انہوں نے زور دے کر کہاکہ بلاشبہ جنگی قیدیوں کی رہائی کامعاملہ ایک سنگین مسئلہ ہے؛ تاہم مقبوضہ علاقوں سے دشمن کا انخلااس سے بھی اہم ہے۔ دشمن کا ہمار ے علاقہ پر قبضہ معروف معنوں میں فتح ہے۔اگرچہ جنگی قیدی بھی دشمن کے غلبہ کی علامت ہیں۔ان جنگی قیدیوں کا تنازعہ بہت سے اخلاقی و جذباتی پہلو رکھتا ہے‘ جن سے ہم بھارت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اگرہمارے عوام تھوڑے سے صبروتحمل اورمعاملہ فہمی کا مظاہرہ کریں توہم اس مسئلہ کو بھارت کے لئے انتہائی پریشانی کا موجب بنا سکتے ہیں ۔ان کے استدلال کا انداز واقعی مدبرانہ اورقائل کرنے والا تھا۔انہوں نے ہم سب کو ہدایت کی کہ ان کے تجزیہ کے بارے میں ہرگز بات نہ کریں‘ یہاں تک کہ اپنے گھروالوں سے بھی اس کا ذکرنہ کریں۔ بھٹو صاحب نے ہمیں ٹاسک دیاکہ ذرائع ابلاغ اورتدابیر کی مدد سے اس قسم کی فضا تیار کی جائے کہ پوری دنیا خصوصاً بھارت کو باور کرایاجاسکے کہ اگر جنگی قیدیوں کو جلد رہا نہ کیاگیاتو پاکستان اس قدر غیر مستحکم ہوجائے گاکہ اپنے پیروں پر بھی کھڑا نہیں رہ سکے گا۔میاں انورعلی کو اس مہم کا انچارج اورافسر رابطہ مقرر کیا گیا۔ میاں انورعلی نے طالب علموں ‘ جنگی قیدیوں کی بیگمات ‘ محنت کشوں‘ علمائے دین‘ وکیلوں اورسیاسی کارکنوں کی طرف سے زور دار احتجاجی مہم انتہائی ہوشیاری سے اوربڑے موثر انداز میں مکمل رازداری سے چلائی۔کسی نے بھی مقبوضہ علاقوں کے مسئلہ کانام تک نہیںلیا۔بھٹو نے ملک کے مختلف طبقات کے نمائندوں اور سیاسی لیڈروں کے ساتھ مری میں ملاقاتیں کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا اس کا مقصد بھی شملہ جانے سے پہلے یہ تاثر پیدا کرنا تھاکہ جنگی قیدیوں کو فوری رہائی نہ ملنے کی صورت میں بھٹو حکومت کا جلد ہی دھڑن تختہ ہوجائے گا۔ شملہ میں اندراگاندھی اوربھٹو صاحب میں مذاکرات کا وقت آیا۔ اندرا گاندھی بھٹو صاحب کی پھیلائے ہوئے جال میں آچکی تھیں۔ اندرا گاندھی چونکہ پاکستانی حکومت کو ریلیف نہیں دینا چاہتی تھیں‘ اس لیے انہوں نے اپنے تئیںپاکستان کو درپیش’’ مسئلہ نمبر دو‘‘کی بات کی۔اندرا گاندھی نے پاکستان کے مقبوضہ علاقے خالی کرنے کی پیشکش کی۔بھٹو صاحب بھی یہی چاہتے تھے مگر انہوں نے اندراگاندھی کو یہ تاثر دیاکہ وہ اس آپشن کو بادل نخواستہ اورآخری چارہ کار کے طور پر قبول کررہے ہیں۔بھارت نے مقبوضہ علاقے تو اپنی مرضی سے خالی کردئیے تاہم اسے جنگی قیدی بھی غیر معمولی دبائو کے تحت جلد ہی چھوڑنے پڑے۔اس عمل کے دوران اندرا گاندھی‘ جو کہ بھارت کی ذہین وفطین اورعظیم رہنما تھیں‘ تاوانِ جنگ‘ جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلانے اوردیگر مطالبات کا ہوش ہی نہیں رہا جن کا وہ پہلے اکثر ذکر کرتی رہتی تھیں…‘‘ چوہدری سردار نے اپنی مذکورہ کتاب میں کئی ایک مقامات پر لکھا ہے کہ بھٹو ایک محب وطن اورانتہائی ذہین لیڈر تھے۔بھٹو صاحب 5جنوری 1928ء کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔آپ چھوٹی عمرمیں پاکستان کی سیاست میں شامل ہوئے اوراپنی بے پناہ ذہانت اور شبانہ روز جدوجہد سے سیاسی افق پر چھاگئے۔ بھٹو صاحب پاکستان کے نویں وزیر اعظم تھے۔ آپ نے انتہائی مشکل وقت میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنے صرف ساڑھے چار سالہ دور میں ملک کے لئے اتنا کام کیا کہ یوں لگا جیسے وہ کئی صدیاں جئے ہوں۔4اپریل 1979ء کو بھٹو صاحب کو ایک جھوٹے مقدمہ قتل میں مجرم قرار دے کر پھانسی کی سزا دے دی گئی۔بھٹو صاحب پاکستان کے ایک محب وطن لیڈر تھے ٗ لیکن ہماری یہ بدنصیبی رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ’’قلمی مجاہدین‘‘ ان پر طرح، طرح کے الزامات عائد کرتے رہے۔ یہ سچ بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ بھٹو صاحب کو اس ملک کے عوام نے ہمیشہ ہی ایک سچا اور محب وطن لیڈر ہونے کی سند فراہم کی‘ لیکن انتخابی نتائج اورعوامی مینڈیٹ کو’’اڑن چھو ‘‘ کرنے والے سامری جادوگروں نے عوام کے فیصلے کی تذلیل کی ۔یہ جادو گر 1970ء کے شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے نتائج سے ڈرے ہوئے ہیںجن کے انعقاد سے دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی تو ہواتھا لیکن ساتھ ہی ساتھ مشرقی پاکستان‘ بنگلہ دیش بھی بن گیاتھا۔یہ جادوگر شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کو ریاست کے وجود اوراتحاد کے لئے خطرہ سمجھتے ہیںحالانکہ سچ تو یہ ہے کہ صوبوں اوروفاق کے مابین حق اورحقوق کی منصفانہ تقسیم ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے کا پہلااورآخری فارمولا ہے۔لیکن یہ کم ذہین لوگ شفاف اورغیر جانبدار انتخابات کو ریاست کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ عمران خان نے کہہ دیا ہے کہ پاکستان ایک اور الیکشن کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا‘ اس لیے ہم نے الیکشن مان لئے لیکن دھاندلی تسلیم نہیںکی تھی۔دھاندلی کے خلاف آخری حد تک جائیں گے۔ ہماری چار سو سے زائد پٹیشن الیکشن ٹربیونل میںموجود ہیں۔ہمیں انصاف نہ ملااورحکومت نے اپنا قبلہ درست نہ کیاتو عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے ۔عمران نے کہاہے کہ تحریک بھی چلے گی اورلانگ مارچ بھی ہوگا اوراس بار عوام اتنی تعداد میں نکلیں گے کہ پھر کچھ بھی سنبھالا نہیںجائے گا۔ راولپنڈی اوراسلام آباد کے اہم لوگوں سے رابطہ رکھے ہوئے ایک باخبر صحافی اورتجزیہ کار نے مجھ سے کچھ حقائق شیئرز کیے جو میرے لئے انکشاف تھے ۔ محترم نے بتایاکہ پاکستانی ریاست کے ایک ادارے کے سرکردہ عہدیدار نے بتایاکہ مئی 2013ء کے انتخابات میں ریاست کے روایتی ادارے کا کوئی کردار نہیںتھا۔ یہ مہربان سٹیک ہولڈرز بھی پرانے ہیں‘ مگر حالیہ سالوں میں ان کی ’’طاقت اورقوت‘‘ میں بے پناہ اضافہ ہو ا ہے ۔میڈیا نے ان سٹیک ہولڈرز کی قوت کو گلیمرائز بھی کیاہے۔ ہماری جنگ یہ نہیںکہ مختلف ریاستی اداروں میں کون طاقت ور ہے کون کمزور؟ ہمارا مسئلہ یہ رہاکہ ریاستی اداروں نے عوامی جمہوری سیٹ اپ اورمنتخب نمائندوں کی آئینی حیثیت کو صدق دل سے تسلیم نہیںکیا‘ ہمیشہ عوام کو اپنا غلام سمجھا ۔عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے جمہوری نمائندوں کا انتخاب کرے اورریاستی اداروں کا فرض ہے کہ وہ عوامی جمہوری نمائندوں کے پیچھے آئین اورقانون کے مطابق نیت باندھ کر صدق دل سے ’’لبیک ‘‘ کہیں۔ چاہے اگلی صف میں بھٹو، نواز شریف یا عمران خان کھڑے ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں