"TSC" (space) message & send to 7575

ٹیکنالوجی اور فنون لطیفہ میں باہمی رشتہ

زیرنظر کالم ''پارٹ ٹو‘‘ یعنی گزشتہ سے پیوستہ ہے۔ بزرگوارم عطا الحق قاسمی صاحب کے حوالے سے ڈاکٹر یونس بٹ نے ''بٹ تمیزی‘‘ کی ہے کہ ان (قاسمی صاحب) کے لئے خواتین اب بھی رشتے بھیج رہی ہیں۔ ہمارے خیال میں اب یہ افواہ ہی ہے کیونکہ نیٹو سپلائی تو کپتان خان اور ان کے حواریوں نے بند کر رکھی ہے رشتے کہاں سے آئیں گے۔ ویسے بھی قاسمی صاحب اب عمر کے اس حصے میں ہیں جس میں رشتہ کارڈیالوجی یا پھر یورالوجی ہسپتال سے ہی آ سکتا ہے۔ پروردگار قاسمی صاحب کو صحت دے! ان کی عمر کی اشیائے ضرورت تو متروکہ وقفِ املاک نے قبضے میں لے لی ہیں‘ شکر ہے وہ الحمرا کے احاطے، جاتی عمرہ اور دیگر صحت افزا مقامات پر گھوم پھر رہے ہیں۔ عالمی ادبی و ثقافتی کانفرنس 2013ء میں سب کچھ ہوا لیکن فخر زمان کا کہنا ہے کہ پنجابی سیشن نہیں ہوا حالانکہ سٹیج کے نیچے اور الحمر ا کے احاطہ میں بہت سی ادبی سلیبرٹیز پنجابی میں ہی گپیں ہانک رہی تھیں۔ 
انشائیہ لکھنا میرا کام نہیں‘ میں انشائیہ لکھنے کے وقت اکثر عشائیہ میں ہوتا ہوں‘ اس لئے اس عادت سے دور رہا‘ لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ انشااللہ انشائیہ اور انشا پردازی دونوں اکٹھے ہی شروع کروں اور انشائیہ لکھنے کا کام محدود پیمانے پر نہ ہو بلکہ یہ کرتے ہوئے انشراح کا دامن تھام کر اس دھندے کے بحر بیکراں میں اتر جائوں۔ بالکل اسی طرح کہ میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا‘ لیکن یہ بھی سوچتا ہوں کہ کہیں میرے مزاح نگاری کے سمندر میں اترنے کے بعد اس کی قدیمی مخلوقات‘ جن میں شارک، وہیل، مگر مچھ، کچھوے اور کیکڑے سمیت کیچوے بھی شامل ہیں‘ مجھے گُھس بیٹھیا نہ سمجھ بیٹھیں۔ کچھ بھی ہو ایک بات طے ہے کہ جب بھی انشائیہ لکھنا شروع کروں گا سب سے پہلے قاسمی صاحب پہ لکھوں گا اور اسمٰعیل میرٹھی کی طرح رب کا شکر بھی ادا کروں گا کہ ؎
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
اردو میں نظم معریٰ کے بانیوں میں شامل اسمٰعیل میرٹھی اور عطاالحق قاسمی کی ادبی خدمات پر مشرمیل (فیوژن) پیش خدمت ہے کہ ؎
قاسمی صاحب کا شکر کر بھائی
جس نے ادبی کانفرنس کرائی
اب آتے ہیں موضوع کی طرف کہ ''ٹیکنالوجی اور فنون لطیفہ کا باہمی رشتہ‘‘۔ ہمارے ہاں جہاں ٹیکنالوجی امپورٹ کی گئی وہاں فنون لطیفہ کے میدان میں بھی خودانحصاری کے بجائے ''امدای پیکج‘‘ پر ہی انحصار کیا گیا۔ کبھی ہم نے اپنی بیساکھی اور بھنگڑے کو عاق کیا اور کبھی بسنت کو ہندوانہ تہوار قرار دیا‘ حالانکہ بھنگڑا سیالکوٹ میں اختراع ہوا‘ بیساکھی گجرانوالہ ایمن آباد میں پلی بڑھی اور بسنت پنجاب کا تہوار ہے لیکن اسے ایک عرصہ سے کافر... کافر... کافر قرار دینے کا مشن جاری ہے۔ بسنت منانے کے خونی طریقہ کار پر پابندی لگنی چاہیے‘ بسنت پر نہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد فنون لطیفہ پر بھی 'آل انڈیا اور سب سے پہلے پاکستان‘ کے لیبل چسپاں کئے گئے۔ اس نوع کی زیادہ تر کوششیں بارڈر کے اندر سے ہوئیں‘ ٹھمری کو ہندو اورغزل کو مسلمان صنف موسیقی قرار دینے کی تحریکیں چلائی گئیں۔ خیال گائیکی کے متعدد راگوں کو غیرمسلم قرار دے دیا گیا‘ جن کے نام سنسکرت یا ہندی میں تھے۔ ایسی استھائیوں پر بھی پابندی لگا دی گئی جن میں ہندی کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے حصے تین ریڈیو سٹیشن آئے یعنی پشاور، لاہور اور ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن۔ پاکستان میں ریڈیو کے بعد ٹی وی کے متعارف ہونے میں ایک طویل عرصہ لگا جبکہ فلم سازی کا سلسلہ پہلے سے جاری تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے لاہور کو برصغیر کی فلم انڈسٹری میں امتیازی مقام حاصل تھا لیکن حرکت تیز تر والی مملکت خدا داد میں یہ بھی آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہو گئی۔ اگرچہ موضوع تو ٹیکنالوجی اور فنون لطیفہ کا باہمی رشتہ ہے لیکن یوں لگ رہا ہے کہ دونوں کے زوال کے اسباب بیان کر رہا ہوں۔ صورت حال یہ ہے کہ قومی فلم ٹریڈ سے وابستہ چند احباب بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کو غیرقانونی قرار دلوا کر ان پر پابندی لگوانے کی عدالتی جدوجہد میں مصروف ہیں جبکہ ٹی وی کی نیشنل انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو بھارت اور ترکی کے بولڈ سوفٹ ویئر کے مقابلے کا سامنا ہے‘ جس میں بھارت اور برادر ملک ترکی ہم سے کہیں آگے ہے۔ قومی پرائیویٹ تفریحی چینل اگرچہ اب ایک عرصہ سے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو ''صنعت آذر‘‘ اور ''بت گری‘‘ نہیں سمجھ رہے‘ اس کے باوجود وہ ثقافتی حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ لگتا ہے اب صنعت آذری کے ماہر ین بھی اب ہمارے ثقافتی قلعوں پر اتنی مرتبہ حملہ آور ہوں گے جتنی بار ہم سومنات پر ہوئے تھے۔ اور یوں بھی لگتا ہے کہ جتنی بار سومنات سے ہیرے جواہرات اٹھائے گئے تھے اب اس سے دگنا چوگنا ''ریونیو‘‘ ہم سے وصول کیا جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان سے تعلق رکھنے والے کارپوریٹس اور نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کے 60 سے 70 فیصد اشتہارات بھارتی مشتہرین سے بنوا رہی ہیں۔ خدشہ ہے حب الوطنی کے ملی نغمے بھی کہیں بھارتی کمپوزرز اور سنگرز سے نہ گوائے جائیں۔ جہاں تک قومی فلم کی حالت زار کا مسئلہ ہے تو روایتی فلم انڈسٹری کے آثار بھی ختم ہو رہے ہیں۔
سوہنی دھرتی پر نیوز انڈسٹری ہی فلم انڈسٹری کی خدمات بھی سرانجام دے رہی ہے۔ پاکستان میں نیوز انڈسٹری پھل پھول رہی ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شمشیروسناں اول طائوس و ربا ب آخرکے معیار پر پوری اترتی ہے۔ ویسے تو تصویر سے لے کر براہ راست ٹرانسمشن تک کچھ بھی ہمارا اپنا نہیں لیکن وطن عزیز میں خودکش حملوں اور دھماکوں کی ذمہ داری طالبان کے ترجمان اسی غیرشرعی میڈیم کی وساطت سے قبول کرتے ہیں۔ علمائے دین اب نیوز چینل کو غیراسلامی قرار نہیں دیتے بلکہ شفقت کامظاہرہ کرتے ہوئے مختلف ٹاک شوز کے لئے براہ راست Beeper (آڈیو اور ویڈیو انٹرویو) دینے میں عار نہیں سمجھتے۔ نرم دل علمائے کرام تو بہ نفس نفیس ان ٹاک شوز میں جلوہ گر بھی ہوتے رہتے ہیں۔ پیارے وطن میں ٹاک شوز کی بہار آئی ہوئی ہے‘ میٹنی شو سے لے کر لیٹ نائٹ ٹاک شو تک سب ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ جذباتی ٹاک شو، جاسوسی ٹاک شو، تفتیشی ٹاک شو، فرمائشی ٹاک شو اور تعمیراتی ٹاک شو کے علاوہ بھی بہت کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں جب سے سوشل میڈیا کی آمد ہوئی ہے تیز رفتار دنیا اور بھی تیز ہو گئی ہے۔ کل تک کی دنیا جسے لامحدود سمجھا جاتا تھا‘ آج 
موبائل فون میں سمٹ چکی ہے۔ آج ٹیکنالوجی اور فنون لطیفہ دونوں ہی ہاتھ میں تھامے موبائل میں سمٹ گئے ہیں لیکن ہم کبھی کبھی ان دونوں کو ''صنعت آذری‘‘ سمجھ کر یُوٹیوب پر پابندی لگا دیتے ہیں لیکن اہالیان وطن چونکہ قانون توڑنے کے عادی ہیں اس لیے پابندی کے نصف گھنٹے بعد ہی یہ ریڈ سگنل توڑ کر یُوٹیوب تک رسائی حاصل کرنے کا طریقہ کار ڈاون لوڈ کر چکے ہیں۔
میرزا غالب نے کہا تھا کہ... مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی... حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی کے باعث فنون لطیفہ کی بے حد تعمیروترویج تو ہوئی مگر مشین کی اس معاونت سے فنون سے جمالیاتی حسن اور فنکارانہ اپچ جاتی رہی۔ دنیا میں جب ریکارڈنگ کی سہولیات آج جیسی نہ تھیں تو مشرقی موسیقی کو استاد بڑے غلام علی خاں، لتا اور مہدی حسن جیسی آوازیں میسر آئیں لیکن ان کے بعد خاموشی ہے۔ 
ٹیکنالوجی نے دنیا کے نادر نمونوں کو ہماری ایک انگلی کے نیچے لاکھڑا کیا مگر قلوپطرہ اور مونالیزا جیسی تخلیقات کی جوت اور عشق کو کہیں کھو دیا ہے۔ سہولت اور آسانی نے تخلیق کے جنون کو شاید خوابیدہ کر دیا ہے۔ آج ہم سستے اور مہنگے ٹیلی فون کیمروں سے لیس ہے‘ ہم سکول اورکالج کے سٹوڈنٹس کے ہاتھ میں سائبرشاٹ کیمرہ تو تھما سکتے ہیں لیکن انہیں پکاسو اور صادقین نہیں بنا سکتے۔ ٹیکنالوجی‘ فنکار اور اس کے فن کے فروغ کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن شاہکار نہیں بنا سکتی۔ تخلیق کار‘ جو پہلے آنکھ کے قطرے میں دجلہ دیکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا‘ کو مشاہدے اور مجاہدے کا وظیفہ کرتے رہنا ہو گا۔ طالب ِفن کے مجاہدے کا کوئی نروان نہیں۔ اس کا فن ایک دائمی کوشش ہے اور مستقل کاوش۔ نئے میلنیم کے فنکار کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی نعمت بھی میسر ہے وہ فنون اور سائنس کے ملاپ سے نئے اہرام اور نئے تاج محل تعمیر کر سکتا ہے۔ (ختم) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں