"TSC" (space) message & send to 7575

میاں اینڈ مودی لوسٹوری

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو نامزد وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت آنے کی دعوت دی ہے۔ مودی صاحب نے میاں صاحب کو یہ دعوت اپنی وزارت عظمیٰ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے دی ہے۔ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی فینٹسی میں مبتلا احباب‘ جنہیں ان دنوں بعض ہاف بوائلڈ دانشوروں اور اینکر پرسنز کی جانب سے ''غدار‘‘ بھی قرار دیا جا رہا ہے، اس دعوت نامے کو امن، خوشحالی اور خیر سگالی کی منزل کی جانب پہلا قدم قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو اسے گولڈن چانس سمجھتے ہوئے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو دونوں ملکوں کے لئے بہت اہم اور حساس مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ جب بھی دونوں ملکوں کے عوامی نمائندے ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں کوئی نہ کوئی رخنہ پڑ جاتا ہے، کبھی سمجھوتہ ایکسپریس کی واردات ہوتی ہے اور کبھی ممبئی حملوں کا ایڈونچر نمودار ہو جاتا ہے۔
میاں محمد نواز شریف نے 2013ء کے عام انتخابات سے چند روز قبل واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ اگر عوام نے انہیں مینڈیٹ دیا تو وہ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی پالیسی اپنائیں گے۔ انتخابات میں نون لیگ کی کامیابی سے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ لوگ بھارت کے ساتھ جنگ کے بجائے اپنے ان گنت مسائل سے جنگ چاہتے ہیں۔ میاں صاحب اور ان کی جماعت کامیاب ہوئی لہٰذا اب انہیں اپنے وژن پر عمل درآمد ضرور کرنا چاہیے۔ دوسری طرف مودی صاحب کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے میاں صاحب کو بھارت آنے کی دعوت دینے کے لئے کسی ظاہری اور پوشیدہ طاقت سے اجازت نہیں لی، یہاں تک کہ اپنی پارٹی اور وزارت خارجہ سے بھی مشورہ نہیں کیا۔ اِدھر ہمارے ہاں سیاسی، غیرسیاسی حتّیٰ کہ تیل مالش اور چمپی کرنے والے بھی وزیر اعظم کو احتیاط سے کام لینے کے مشورے دے رہے ہیں۔
کلاسیکی موسیقی سے وابستہ استاد بدرالزمان نے بھارت کی طرف سے ہمارے وزیر اعظم کو دعوت دینے کے عمل کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ استاد جی نے لتا منگیشکر کی گائی ہوئی استھائی مجھے ٹیلی فون پر سنائی۔ راجہ مہدی علی خاں کی لکھی اور موسیقار مدن موہن کی موزوں کی ہوئی استھائی پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور بھارت کے نامزد وزیر اعظم نرنیدر مودی کو یوں نذر کی ہے ؎
لگ جا گلے سے کہ پھر یہ حسیں رات ہو‘ نا ہو
شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو، نا ہو
ایک طرف وہ ہیں جو میاں صاحب کو لتا منگیشکر کی گائی اور گلے سے لگ جانے والی استھائیاں سنا رہے ہیں، دوسری طرف وہ بھی ہیں جو انہیں ملکہ ترنم نور جہاں کی گائی ہوئی یہ نیم کلاسیکی استھائی الاپنے کا مشور ہ دے رہے ہیں ؎ 
جا، جا میں تو سے ناہی بولوں
جا، جا میں تو سے ناہی بولوں
یہ طعنہ باز اساتذہ وہ ہیں جو میاں صاحب کی طرف سے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کو ان کا دیا ہوا دعوت نامہ یاد دلا رہے ہیں۔ سردار جی، میاں صاحب کی بطور وزیر اعظم حلف برداری کی تقریب میں نہیں آ سکے تھے۔ لیکن من موہن سنگھ اور نریندر مودی میں فرق ہے؛ سردار جی کا تعلق کانگریس سے تھا جبکہ مودی صاحب بی جے پی کے لیڈر ہیں۔ ماضی میں بھی صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ہی پاکستان آئے تھے۔ واجپائی نہ صرف پاکستان آئے بلکہ انہوں نے لاہور میں مینار پاکستان پر ماتھا بھی ٹیکا تھا۔ اس طرح بھارت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظریاتی اور سیاسی وجود کو تسلیم کیا تھا مگر اس گریٹ ڈپلومیسی کے کچھ عرصہ بعد کارگل برپا ہو گیا۔ یہ معرکہ جنرل پرویز مشرف نے سر کیا جس میں پاکستان کو سفارتی محاذ پر ہزیمت اٹھانا پڑی۔ من موہن سنگھ اور کانگریس نے بھارتی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیا ہے، کسی نے یہ نہیںکہا کہ ''مودی نے انتخابات کو پنکچر لگائے ہیں‘‘۔ اِدھر ہمارے 'من موہنے‘ یہ کہہ رہے ہیں کہ ریلیوں اور دھرنوں سے جمہوریت کو نہیں حکومت کو خطرہ ہے۔ دوسری طرف حلقۂِ شیخ رشیدیہ یہ عندیہ دے رہا ہے کہ جون جولائی میں حکومت کی بساط لپیٹی جا سکتی ہے۔ انتخابات کے نتائج نہ ماننے والوں اور انتخابات کے بغیر ڈیموکریسی کے خلاف ٹیکنوکریسی کرانے کے خواہشمند 'من موہنوں‘ کو آئینہ دکھاتی یہ استھائی پیش خدمت ہے:
من موہنا بڑے جھوٹے، ہار کے بھی ہار نہ مانے 
ہمارے ہاں انتخابات کو پنکچر لگانے اور آئی جے آئی بنانے کا رواج ہے، اس لئے یہاں انتخابی دھاندلی کو دھاندلا بھی کہا جاتا ہے۔2013ء کے انتخابات کے نتائج کو پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، قاف لیگ، جمعیت علمائے اسلام 
(ف) اور عوامی نیشنل پارٹی سبھی نے غیر شفاف قرار دیا تھا۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے 2013ء کے الیکشن کو آر اوز (ریٹرننگ آفیسرز) کا الیکشن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریٹرننگ افسروں کی مدد سے انہیں ہرایا گیا؛ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ جمہوری سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے اور انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے نون لیگ کی حکومت سے تعاون کریں گے۔ بعدازاں دوسری سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف نے بھی اسی عزم کو دہرایا، لیکن عمران خان کے جمہوری صبر کا پیمانہ ایک سال کے اندر ہی لبریز ہو گیا۔ یہ کیا کہانی ہے؟ یہ بھی ایک سوال ہے کہ جب انتخابات آزاد الیکشن کمیشن نے اعلیٰ عدلیہ اور فوج کی نگرانی میں کرائے تھے تو پھر ان میں دھاندلی کرانا کیسے ممکن ہوا؟ کیا غیر شفاف انتخابات کی شکل میں جمہوریت کی بنیادوں میں کوئی ٹائم ڈیوائس نصب کر دیا گیا تھا‘ جسے وقت آنے پر بلاسٹ کیا جا سکے؟ پاکستانی سیاست کے اس تشویشی اور تفتیشی موڑ پر مجھے طفیل نیازی سے منسوب وہ گریٹ فوک یاد آگیا جس میں ہیر کہہ رہی ہے کہ وہ کھیڑوں کی ڈولی میں نہیں بیٹھے گی کیونکہ اس کے دل میں رانجھے کا خیال ہے:
دل وچ رانجھے دا خیال 
میں نئیں جانا کھیڑیاں دے نال
اگرچہ دونوں ملکوں کے عوامی نمائندوں کے قریب آنے میں مشکلات حائل ہیں لیکن سہانے خواب دیکھنے کے لئے ملٹی پلیکس جانا پڑتا ہے اور نہ ہی کوئی مہنگا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ چشم تصور میں دیکھیے نریندر مودی صاحب ہمارے محبوب لیڈر میاں نواز شریف کی آمد کے منتظر بھارت کی دھرتی کو پھولوں سے سجا رہے ہیں۔ اسی کیفیت کے ساتھ بیک گرائونڈ میں ملکہ ترنم نور جہاں کا گایا اور انجمن کا چوکڑیاں بھرتا یہ گیت ملاحظہ کیجئے:
ماہی آوے گا، میں پھُلاں نال دھرتی سجاواں گی
اوہنوں دل والے رنگلے پلنگ تے بٹھاواں گی 
جھلاں گی پکھیاں بڑا کجھ کہن گیاں اکھیاں
بالی وڈ سرکٹ کے لئے درج بالا پنجابی استھائی کا اردو ہندی ورژن یوں ڈب کیا جا سکتا ہے کہ ماہی کے آنے پر دھرتی کو پھولوں سے سجائوں گی، اسے دل کے رنگین پلنگ پر بٹھا کر پنکھا جھلائوں گی اور میری آنکھیں اس سے بہت سے باتیں کریں گی۔ آنے اور جانے کی اس سچوایشن پر میوزک ڈائریکٹر او پی نیّر اور آشا بھوسلے کا ایک سدا بہار گیت بھی سن لیجیے جس میں محبوب سے کہا گیا کہ بے شک چلے جائو لیکن میری آواز تمہارا پیچھا کرے گی:
جائیے آپ کہاں جائیںگے یہ نظر لوٹ کے پھر آئے گی
دور تک آپ کے پیچھے، پیچھے میری آواز چلی آئے گی
پاکستان کے دفتر خارجہ نے وزیر اعظم کو بھارت جانے کا مشورہ دیا ہے۔ دوسری طرف بی جے پی کے نئے وزیر اعظم کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ مودی، واجپائی کے نقش قدم پر چلیںگے، یعنی نریندر مودی، میاں نواز شریف اور پاکستان کی طرف امن، بھائی چارے اور دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے۔ میاں نواز شریف کو بھی اپنے وژن پر عمل کرتے ہوئے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ ماضی میں میاں نواز شریف اور واجپائی کی پریم کہانی فلاپ ہو گئی تھی، اس بار امیدکی جا رہی ہے کہ میاں اینڈ مودی لو سٹوری کامیاب ہو گی۔ دونوں ملکوں کے رہنمائوں کو چاہیے کہ وہ خطے میں پائیدار امن کے لئے ''ہم تم اک کمرے میں بند ہوں اور چابی کھو جائے‘‘ جیسی کسی ٹریک تھری میوزیکل ڈپلومیسی پر عمل کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں