"TSC" (space) message & send to 7575

5جولائی کا گناہ

5جولائی 1977ء کے دن جنرل ضیاالحق نے ملک پر تیسرا مارشل لانافذ کردیا۔ اسے Operation Fair Playکا نام دیاگیاتھا۔ آپریشن جسے فیئرپلے کا نام دیاگیا دراصل بالکل بھی فیئر نہیں تھا۔ اس سے قبل جنرل ایوب خان کے طویل مارشل لااور پھر جنرل یحییٰ کے''رنگین مارشل لا‘‘ کے باعث پاکستان دوٹکڑے ہواتھا۔آمروں کے ایسے گناہ بائے کبائرکے باعث چاہیے تو یہ تھاکہ آنے والے زمانوں میں ایسے تجربات کو شجرِممنوعہ سمجھاجاتا لیکن منتخب وزیر اعظم اورعوام کے محبوب ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد انہیں پھانسی پر بھی چڑھا دیاگیا۔ بھٹو صاحب کا عدالتی قتل کرنے کے لئے جنرل ضیاالحق نے جسٹس مولوی مشتاق حسین کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مقررکیاتھا۔ کئی لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ وہ (مولوی مشتاق) دوران سماعت ہی لاہور ہائی کورٹ کے بجائے ماڈل ٹاون میں واقع اپنی کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں کئی بار بھٹو صاحب کو پھانسی پر لٹکا چکے تھے ۔ مولوی مشتاق بھٹو صاحب کے شدید مخالف تھے اور غالباً اس وقت یہی ان کے چیف جسٹس بنائے جانے کا میرٹ بھی بنا تھا۔ 90دن کے لئے مارشل لا نافذ کرنے اورنئے انتخابات کرانے کا وعدہ کرنے والے جنرل محمد ضیاالحق نے انتخابا ت کرانے کے بجائے4اپریل 1979ء کو منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکایا اورپھر مزید 9سال تک عوام کے مقدر میں اندھیرے بھرے۔دہشت گردی سمیت ہمارے دکھوں اور سانحات کا ''بانی‘‘ سابق صدر جنرل محمد ضیاالحق ہی کو سمجھا جاتا ہے۔ 
5جولائی کا مارشل لا‘ جسے ابتدا میں ''عارضی انتظام برائے انتخابات‘‘ کانام دیا تھا‘ ایک دکھاوا تھا۔ دراصل یہ سرد جنگ کے زمانہ میںامریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ لڑنے کا ایک شاخسانہ تھا جس کیلئے میدان افغانستان میں لگایاجانے والاتھا۔ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس فروری 1974ء میں کرائی گئی جس میں دنیا کے 38اہم اسلامی ممالک کے سربراہان لاہور آئے۔کانفرنس کے اختتام پر بھٹو صاحب اسلامی ممالک پر مشتمل اس عالمی تنظیم کے چیئرمین بنا دیے گئے۔ بھٹوصاحب نے اسلامی ممالک پر مشتمل بلاک بنا کر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں اورسٹیک ہولڈرز کو اپنا جانی دشمن بنالیاتھا۔امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے لیے پاکستان جیسے ملک کا ایٹمی طاقت بننا بھی قابل برداشت نہ تھا۔ بھٹو صاحب کے منصوبوں میں ایٹمی قوت بننے کے ساتھ عالمی اسلامی بنک بنانے کا منصوبہ بھی شامل تھامگر انہیں ''عبرت کا نشان ‘‘ بنا دیاگیا۔
سابق چیف آف اسٹاف ڈائریکٹریٹ جنرل آئی ایس آئی سید احمد ارشاد ترمذی اپنی کتاب ''حساس ادارے ‘‘ کے باب ''ذوالفقار علی بھٹو کا قتل ‘‘ میں لکھتے ہیں: ''9اگست 1976ء کو امریکہ کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے لاہور میں ذوالفقار علی بھٹو سے ایک خصوصی ملاقات کی تاکہ پاکستان کو ایٹمی تکنیک کے حصول اورفرانس سے ایٹمی ریپروسسنگ پلانٹ کے سودے سے روکاجاسکے‘ حالانکہ اس وقت تک پاکستان فرانس سے ایٹمی پلانٹ کے حصول کے لئے باقاعدہ معاہدہ کرچکا تھا اورعالمی ایٹمی توانائی اتھارٹی کو اس ضمن میں تمام تحفظات کی ضمانت بھی دے چکاتھا۔اس ملاقات کے دوران کسنجر کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیاکہ بھٹو کا فیصلہ اٹل ہے اوروہ ہر حال میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا چاہتے ہیں۔ مسٹر کسنجر نے جہاز پر سوار ہونے سے پہلے بھٹو صاحب سے کہا: ''مسٹر بھٹو ہم تمہیں ایک عبرت ناک مثال بنادیںگے‘‘ اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر کسنجر نے کہا: ''مسٹر بھٹو! جب سامنے سے ریل گاڑی آتی دکھائی دے توعقل مند پٹڑی سے ہٹ جاتاہے‘‘۔ (صفحہ 44-43) 
بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کو سابق جنرل محمد ضیاالحق کے ساتھ ذاتی عناد یا دشمنی کانتیجہ قراردیناتاریخ کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔یہ ایک عالمی سازش تھی جس کے لئے کرائے کے قاتل اوروقوعہ مقامی ڈھونڈا گیاتھا۔
بریگیڈیئر (ر) سید احمد ارشاد ترمذی مذکورہ کتاب کے باب ''پاکستان کا ایٹمی پروگرام اورامریکہ ‘‘ میں لکھتے ہیں: ''19اکتوبر کو بھٹو نے شاہ خالد کو باور کرایا کہ امریکی آپ کے تیل پر قابض ہونا چاہتے ہیں‘ ہم اورآپ (یعنی پاکستان اورسعودی عرب ) مل کر امریکی ارادے خاک میںملاسکتے ہیں۔حکومت کے ایوانوں سے یہ بھی پتہ چلا کہ مسٹر بھٹو نے شاہ خالد سے انڈس سپر ہائی وے اورایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے امداد مانگی ۔ساتھ ہی مسٹر بھٹو نے مشورہ دیا کہ آپ (سعودی عرب) روس کو تسلیم کرلیں اورمیں اس کے لئے راہ ہموار کرسکتا ہوں۔ یہ خبر فوراً امریکہ تک پہنچ گئی اورامریکہ نے شاہ خالدکو نہ تور وس کو تسلیم کرنے دیا اورنہ ہی انڈس سپر ہائی وے یا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لئے پاکستان کو امداد کی اجازت دی‘ البتہ مسٹر بھٹو کی پھانسی پکی ہوگئی‘‘۔ (صفحہ 54) 
باقاعدہ منصوبے کے تحت مختلف ٹیمیں بھٹو صاحب کے خلاف مختلف نوعیت کے جرائم کے مقدمات بنانے پر مامور رہیںمگر ان کہنہ مشقوں کے ہاتھ کچھ نہ لگا ۔بالآخر اقدام قتل کی ایک بوسیدہ ایف آئی آر کو باقاعدہ ''لانچ‘‘ کیا گیا۔ ایف آئی آر اس قدر کمزور تھی کہ اس کی بنیاد پر بھٹو صاحب کو دنیا کی کسی عدالت میں مجرم ثابت نہیں کیاجاسکتا تھامگر ماضی میں گٹھ جوڑ نے یہ ''معجزہ ‘‘ بھی کردکھایا۔ بھٹو صاحب کو قاتل قرار دینے کے لئے سعید احمد خان ،سردار عبدالوکیل خان سابق ڈی آئی جی لاہو راور اصغر خان ایس ایسی پی لاہور سلطانی گواہ بنائے گئے۔اس'' آپریشن فیئرپلے‘‘ کی نگرانی براہ راست سابق جنرل محمد ضیاالحق اور ان کے ماتحت کرتے رہے۔ 
ہم بحیثیت قوم اورمہذب انسانی معاشرے کے طور پر کس درجے پر فائز ہیں؟ دوعدد مقدمات کا موازنہ کر کے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک کمزور مقدمے میں منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکادیاگیا۔پھانسی پر لٹکانے سے پہلے دو سال سے زائد عرصہ تک منتخب وزیر اعظم کو جیل میں قید بھی رکھاگیا۔ دوسری جانب متعدد سنگین مقدمات میں نامزد ملزم جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو ایک لمحے کے لئے بھی تھانہ اورجیل کے چاردیواری میں نہیںلے جایاجاسکا۔ بھٹو حکومت کی طرف سے مارچ 1977ء میں کرائے گئے انتخابات میں دھاندلی کاالزام لگا کر اس ملک میں جو کھیل کھیلاگیااس نے ہماری ثقافتی، معاشرتی، سیاسی، معاشی، روحانی اورمذہبی قدروں پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ہیروئن، کلاشنکوف، فرقہ پرستی ، لسانیت ، برادری ازم اور دہشت گردی سمیت ان گنت بدصورتیاں ضیاالحق دور میں وضع ہوئیں۔
بھٹوصاحب کی پھانسی کے بعد نام نہاد جمہوریت پسند امریکہ نے دنیا کو دکھانے کے لئے پاکستان کی فوجی اورمعاشی امداد بند کردی تو ضیاالحق نے ڈالروں کے بجائے درہم حاصل کرنے کی جستجو میں سعودی عرب کو خوش کرنے کی ٹھانی ۔اس مقصد کے لئے قوانین کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو نیا رنگ ڈھنگ دینے کیلئے جو''فلم ‘‘چلائی گئی اس نے شدت پسندی کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت کو فروغ دیا۔ ان کی غلط پالیسیوں کے باعث معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ۔ فروعی تنازعات کے تحت ایک دوسرے کو واجب القتل قرار دیاجانے لگا۔برصغیر پاک وہند میں سعودی عرب یادیگر اسلامی ممالک کی طرح کثیر آبادی کا تعلق کسی خاص فرقے سے نہیں ہے ۔ اس لیے یہاں قوانین کو مذہبی رنگ دینا آسان نہ تھا لیکن ضیاالحق نے امداد لینے کی غرض سے عجلت میں یہ تجربہ بھی کرڈالا۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ کچھ عرصہ سے وطن عزیز میں50سے زائد دہشت گرد تنظیمیںہماری ریاست ،حکومت اوربے گناہ اورنہتے عوام کو برباد کررہی ہیں۔ افواج پاکستان ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب جاری رکھے ہوئے ہے۔ پروردگار سے دعا ہے کہ ہمیں ان سفاک قاتلوں پر فتح عطا کر جو ‘ 5جولائی کے گناہ کبیرہ کی سز ا کے طور پر ہم پر مسلط ہوگئے تھے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں