"TSC" (space) message & send to 7575

ماضی ’’مرمت‘‘ کرنے کی مہم

میڈیا میں سرعت کے ساتھ ماضی کو مرمت یا دوسرے الفاظ میں ماضی میں خورد برد کرنے کی واردات کی جا رہی ہے۔ اگر کوئی مائی کا لعل مورخ یہ لکھے کہ ایوب خان سیاستدانوں کی ناکامیوں کی وجہ سے اقتدار میں پدھارے تھے تو میں اسے تجویز کروں گا کہ وہ فیلڈ مارشل کی آٹو بائیوگرافی ''فرینڈز! ناٹ ماسٹرز‘‘ پڑھ لے‘ جس میں انہوں نے خود فرمایا ہے کہ پاکستانیوں کی تقدیر سنوارنے کے لئے ''انقلاب‘‘ (مارشل لا) نافذ کرنے کی منصوبہ بندی امریکہ کے ایک سیون سٹار ہوٹل میں قیام کے دوران کی تھی۔ 1965ء میں جنرل ایوب خان نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ یہ وہ انتخابات تھے جن میں وطن عزیز میں پہلی مرتبہ ''پنکچر‘‘ لگانے کی تکنیک متعارف کرائی گئی تھی۔ ان دنوں پنکچر لگانے کی کاریگری کو دھاندلی کہا جاتا تھا۔ 50 سال گزر جانے کے بعد بھی ہم اتنے اہل نہیں ہو سکے کہ اپنے ہاں صاف شفاف انتخابات کرا سکیں۔ ہمارے ہاں ہر الیکشن میں ووٹ کے تقدس کو مجروح کیا گیا اور پھر یہ رواج بھی متعارف ہوا کہ عوام نے جس لیڈر کو اپنا مسیحا سمجھ کر ووٹ دیا‘ اسے پھانسی دی گئی یا سر عام قتل کر دیا گیا۔ 
ایک درجہ دوم مورخ رقم طراز ہوئے کہ ماضی میں جرنیل اقتدار پر اس لیے قابض ہوتے رہے کہ سیاستدان سیاست کو بند گلی میں لے جاتے رہے۔ چٹے دن اندھیر ڈالتی اس تاریخی ڈکیتی پر مجھے یونانی وقائع نگار یاد آ گئے جن میں جسٹن (Justin)‘ پلوٹارک (Plutarch)‘ ڈیوڈوروس (Diodoros)‘ کرٹیس (Curtius) اور ایریان (Arrian) شامل ہیں۔ متذکرہ تمام مورخین الیگزینڈر کی میڈیا رجمنٹ میں شامل تھے۔ وہی وقائع نگار جنہوں نے تاریخ کے صفحات میں ایک بہادر اور غیرت مند حریف کو شکست خوردہ (پورس) ثابت کر دیا جبکہ ایک زخمی اور ہارے ہوئے حریف کو سکندرِ اعظم بنا کر پیش کیا۔ سکندر اعظم کا ''میڈیا‘‘ ہی تھا‘ جس نے یہ چمتکار کر دکھایا تھا۔ بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن نے اپنی تصنیف ''سندھ ساگر‘‘ میں پورس کا مقدمہ لڑتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ گجرات کے علاقہ منڈی بہائوالدین اور پھالیہ کے مقام پر ہونے والی جنگ میں راجہ پورس نے سکندر اعظم کو شکست سے دوچار کیا تھا‘ لیکن سکندر اپنے درباری مورخین کی پیشہ ورانہ مہارت کے باعث تاریخ میں فاتح کہلایا۔ آج کے ''ایریان‘‘ نے لکھا ہے کہ ایوب خان، بھٹو کو سیاست میں لائے، وزیر خارجہ کے طور پر انہوں نے شہرت پائی۔ 77ء میں بھٹو صاحب کی طرف سے کرائے گئے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے‘ جس پر نام نہاد سیاستدانوں نے ان کے خلاف تحریک چلائی اور پھر یہ تحریک اس حد تک شدت اختیار کر گئی کہ جنرل ضیاء الحق کو اقتدار سنبھالنا پڑا۔ مراد یہ کہ سیاستدانوں نے معاملات بگاڑے تو آمریت آ گئی۔
ہمارے ہاں ''مورخ‘‘ اسی نوع کے کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں۔ کبھی بھٹو جیسے محب وطن لیڈر پر ''ادھر تم اِدھر ہم‘‘ کا بہتان لگا دیا اور کبھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بھٹو‘ ایوب خان جیسے آمر کی پیداوار تھے۔ مورخین کو یہ بھی یاد ہونا چاہیے کہ تاریخ میں جہاں فرعون ہوتا ہے وہیں کوئی موسیٰ بھی پیدا ہوتا ہے۔ کیا تاریخ بیان نہیںکرتی کہ حضرت موسیٰ ؑ‘ فرعون کے دربار میں پلے بڑھے اور ان کی کفالت فرعون کی ملکہ حضرت آسیہ نے کی تھی۔ کیا نومولود موسیٰ ؑ نے اپنے دائیں اور بائیں لگائے آگ کے انگاروں اور ہیرے جواہرات کے ڈھیر سے انگارہ اٹھا کر منہ میں نہیں ڈالا تھا؟ جھوٹی خدائی کے دعویدار فرعون کو دریائے نیل میں غرق کرنے کا مرحلہ بعد میں آتا ہے۔ یہ سب کرنے کے لئے پروردگار نومولود موسیٰ ؑ کو فرعون کے دربار میں لے جاتا ہے۔ فرعون اور موسیٰ ؑ کا قصہ ماضی کو مرمت کرنے والے مورخین کی یادآوری کے لئے سنا دیا ورنہ یہاں معاملہ اس قدر سنجیدہ نہیں ہے۔ 
ماضی کو مرمت کرنے کے ساتھ ساتھ حال کی رفوگیری بھی جاری ہے اور یہ کاری گری اس ڈھٹائی سے دکھائی جا رہی ہے کہ آنکھوں میں دھول جھونکنا جیسے محاورے اندھے ہو کر اُوندھے منہ دم توڑ رہے ہیں۔ سیاست کے خلاف پولیو سے بھی زیادہ منظم مہم چلائی جا رہی ہے کہ اس سے وابستہ سیاستدانوں نے ملک و قوم کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ تاحیات وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات ہر شب کسی نہ کسی ٹاک شو میں بیان فرماتے ہیںکہ اس ملک کی 95 فیصد سیاسی لیڈرشپ کی پرورش و پرداخت عسکری نرسریوں میں کی گئی۔ شہرِ پنڈی سے تعلق رکھنے والے یہ ''فرزندِ پاکستان‘‘ غلط تو نہیں کہتے کہ پاکستان کی سیاسی مارکیٹ میں دستیاب لیڈرشپ قومی سلامتی کی ٹکسال پر ہی ڈھالی گئی تھی۔ اب اگر مال میں سے کوئی نقص نکل آیا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اس ملک کے مسکین اور یتیم عوام کو یہ کہہ کر لوٹا دیا جائے گا کہ خریدا ہوا مال واپس نہیں ہو گا؟
ہمارے ہاں دس، دس اور گیارہ، گیارہ سال تک آمریتوں کی طویل ٹیسٹ سیریز کھیلی گئیں جبکہ جمہوریت کو ٹی ٹوئنٹی کی طرح ٹریٹ کیا گیا۔ 1988ء کے انتخابات صاف شفاف ہوتے تو بے نظیر بھٹو دوتہائی اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہوتیں‘ لیکن اسٹیبشلمنٹ نے اپنے نمائندہ خصوصی غلام اسحاق خان کو صدر منتخب کرایا جو اٹھاون ٹو بی کے ہتھیار سے مسلح تھے۔ یہی نہیں ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں میاں نواز شریف کو وزیر اعلیٰ لایا گیا۔ یہی وہ ''مقامِ فیض‘‘ ہے جہاں سے ہمارے ہاں صوبے اور وفاق میںدھینگا مشتی کا آغاز ہوا۔ گزشتہ دور میں خادم اعلیٰ نے یہ کارنامہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف سرانجام دیا اور دور حاضر میں یہ معرکہ کے پی کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سر کر رہے ہیں۔
جدید جمہوریت اور اس کے تابع نظام دنیا میں کہیں بھی انسانوں کے لئے مکمل آسودگی کی ضمانت نہیں دیتا‘ لیکن دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اسی نظام سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں تو بجلی سے لے کر پینے کے صاف پانی تک کو ہی جوئے شیر سمجھ لیا گیا ہے۔ ہم ایٹمی طاقت تو ہیں لیکن دیہات سمیت ہمارے کاسموپولیٹن شہروں میں بھی لوڈشیڈنگ کا راج رہتا ہے۔ بھارت اور پاکستان جڑواں ملک ہیں لیکن ہم انہیں اپنا ہمسایہ ہونے کا اعزاز نہیں بخش رہے۔ بھارت نے اپنا پہلا خلائی راکٹ (منگل یان) مریخ کے مدار میں داخل کر دیا ہے۔ دوسری طرف ہمارے ہاں اسلام آباد ریڈ زون سے انقلابی 
42 دن گزر جانے کے بعد بھی باہر نہیں نکل رہے۔ ریڈ زون سے انقلابی تو باہر نہیں نکل رہے لیکن قادری صاحب اپنے آہنی کنٹینر سے باہر نکل آئے ہیں۔ جمعرات کی سہ پہر قادری صاحب اپنے کنٹینر سے باہر آئے۔ قبلہ نے اپنے جانثار مریدین‘ جن میں عورتیں، مرد بچے اور بوڑھے شامل تھے‘ کے سروں پر دست شفقت رکھتے ہوئے نصیحت کی کہ وہ غیر معینہ مدت کے لئے شاہراہ دستور پر لنگر انداز رہیں۔ قادری صاحب نے اس موقعہ پر اپنے منہ اور ناک کو خوشبودار ٹشوز سے ڈھانپ رکھا تھا‘ جسے بعض اینکر پرسنز نے وی آئی پی کلچر سے تعبیر کیا۔ قادری صاحب نے اسی شام اس فاسق خیال کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ گزشتہ 42 دنوں سے کنٹینر کے اندر رہنے کے باعث نزلہ اور زکام سے متاثر ہوئے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جراثیم کسی دوسرے کو منتقل ہوتے‘ لہٰذا انہوں نے چہرے کو ٹشوز سے ڈھانپ کر مریدین کو زیارت کرائی۔ ویسے یہ احیتاطی تدبیر علامہ صاحب کی طرف سے ہی اختیار کی گئی ہے‘ ورنہ ان کے مریدین متذکرہ مبارک جراثیموں سے پھوٹتی نعمتوں جیسی بیماریوں سے فیض یاب ہونے کے لئے دست بستہ دستیاب تھے۔ 
آصف زرداری صاحب نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر میاں صاحب ان سے اپنی حکومت کے لئے پانچ سال گزارنے کا فارمولا پوچھتے تو میں انہیں بتاتا‘ برداشت، برداشت اور برداشت۔ وزیر اعظم نواز شریف اس وقت امریکہ میں ہیں‘ جہاں انہیں جنرل اسمبلی سے خطاب کرنا ہے۔ اگر انہوں نے اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر کا ذکر اس انداز سے نہ کیا‘ جس کی توقع ایک سویلین وزیر اعظم سے کی جاتی ہے تو سمجھ لیں مورخین ان کی تاریخی اور سیاسی باکس آفس پوزیشن کو یک جنبش قلم صفر کرنے میں دیر نہ کریں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں