"FBC" (space) message & send to 7575

تبدیلی کا تعفن

'' لاش کا احترام ہے‘ ورنہ دو منٹ میں تمہیں سیدھا کردیں ‘‘اسلام آباد پولیس یہ دھمکی اس مفلوک حال شخص کو دے رہی تھی ‘جو بیچ چوراہے اپنی بیٹی کا تابوت لیے انصاف کا طلبگار تھا۔ جب 15مئی کو اس کی دس سالہ بیٹی فرشتہ محلے میں افطاری تقسیم کرتے ہوئے اغواء ہوئی تو وہ اس امید کے ساتھ شہزاد ٹائون تھانے پہنچا کہ اس کے محافظ بیٹی کی بازیابی کیلئے اس کی مددکرینگے۔تھانے کے ایس ایچ او غلام عباس نے تھانے کو پکنک پوائنٹ بنایا ہوا تھا اوردوران ڈیوٹی تھانے میں اپنے بچوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے میں مصروف تھا‘ جبکہ دیگر پولیس اہلکار بھی صاحب کے بچوں کا دل بہلاکر اپنے ''فرائض منصبی‘‘ انجام دے رہے تھے۔ ایسے میں فرشتہ کے باپ کی آمد اور اپنی بیٹی کے اغواء کی ایف آئی آر کٹوانے کی کوشش نے ایس ایچ او غلام عباس کا موڈ خوشگوار موڈ خراب کردیا۔ ایس ایچ او نے فرشتہ کے باپ سے کہا کہ اس کی دس سالہ بیٹی کسی کے ساتھ اپنی مرضی سے چلی گئی ہوگی۔کسی بھی بیٹی کے باپ کیلئے یہ طعنہ کند چھری سے ذبح کردینے کے برابر ہے ‘ مگر کیا کہا جائے کہ قانون کے رکھوالوں کو جب اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی پڑ جائیں‘ تو وہ ایسے ہی حیلوں کے پیچھے پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ ایس ایچ او نے فرشتہ کی تلاش میں مدد دینے کے بدلے باپ بیٹے سے تھانے کی صفائی کروانی شروع کردی‘مگرتلاش میں مدد نہ کی؛ حتیٰ کہ ننھی پری کی مسخ شدہ لاش پانچ دن بعد جنگل سے مل گئی‘ جسے زیادتی کے بعد قتل کرکے جنگل میں پھینکا گیاتھا‘ جہاںجانور بھی مردہ جسم کو ادھیڑتے رہے تھے۔باپ نے اپنی بچی کی یہ حالت دیکھی تو بیٹی کا تابوت لے کر اسلام آباد چوک پر دھرنا دے دیا۔ننھی فرشتہ تو اپنے رب کی جنت میں پہنچ چکی تھی‘ مگر اس کی مسخ شدہ لاش کے تابوت پر بار بار خوشبودار اسپرے کرنے کی ضرورت پیش آرہی تھی اور باپ یہ فریضہ انجام دے رہا تھا۔ دھرنے سے حکمرانوں کی آمدورفت میں خلل پڑاتو پولیس سمیت تمام محکمے جاگ اٹھے۔ اچانک ہی امن و امان کو انصاف مانگنے والے ان درجن بھر لوگوں سے سخت خطرات لاحق ہوگئے۔ چوک پر رکھا تابوت ''غدار‘‘ نظر آیا جو لوگوں کو باغی بنا رہا تھا اور ریاست کے خلاف اکسا کر انصاف مانگنے جیسے ''باغیانہ عمل‘‘ پر تیار کررہا تھا۔ سو ایسے ''باغیوں اور غداروں‘‘ سے نمٹنے کیلئے اسلام آباد پولیس میدان میں اترچکی تھی ‘مگر پولیس کو سخت عمل سے صرف اس لیے باز رہنا پڑا کہ ننھی فرشتہ کی لاش سیاسی ہوچکی تھی۔فرشتہ کے باپ کو مختلف الزام دیے جارہے تھے یہ سوچے بغیر کہ جس باپ کی کم سن بیٹی اغواء ہوجائے اور وہ ایک ہفتہ تک ایف آئی آر بھی نہ درج کراسکے؛ حتیٰ کہ اس کی بیٹی کی مسخ شدہ لاش ملے۔ ایسے باپ کو پھر کہاں ہوش رہتا ہے کہ وہ جن کے کہنے پر چل رہا ہے وہ غدار ہیں یا وفادار۔ اپنی سیاست گرم رکھنے کیلئے ہمیشہ کسی لاش کے منتظر رہنے والوں نے جیسے ہی فرشتہ کا تابوت دیکھا تو اس کے گرد منڈلانا شروع ہوگئے۔ ارباب ِاختیار نے مصلحت کے تحت فرشتہ کے باپ کو انصاف دلوانے کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ غفلت برتنے والے قانون کے رکھوالوں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کراکے دھرنا ختم کرادیا۔ کارروائی تو خیر کیا ہونا تھی‘آج مجرمانہ غفلت برتنے والے فرشتہ کی مسخ شدہ لاش پر آزاد فضائوں میں اپنے بچوں کے ساتھ جشن منا رہے ہیں۔ مجرمانہ غفلت برتنے والوں کو ان کے پیٹی بند بھائیوں نے کمزور دفعات کی ایف آئی آر کے زریعے یہاں تو بچا لیا ‘مگر کیا وہ روز قیامت رب کے سامنے بھی انھیں بچاسکیں گے؟۔
رب نے اس آیت میں پورا نظام واضح کردیاہے'' ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ہمراہ ہم نے کتاب اور ترازو (عدل) بھی بھیجی ‘تاکہ لوگ انصاف کو قائم رکھیں اور ہم نے لوہا بھی اتارا‘ جس میں بڑی طاقت ہے‘‘(سورۃ الحدید آیت 25)۔ کتاب استعارہ ہے علم کا ‘ میزان عدل کا اور لوہا مدافعت و قوت کا۔ رسولوں کو دنیا میں علم کے ذریعے عدل کے نفاذ کیلئے بھیجا گیا اور لوہے کا حوالہ بھی اسی لیے دیا گیا ہے کہ عدل وانصاف کے قیام میں صرف وعظ و نصیحت ہی کام نہیں آتی‘ بلکہ جہاں ظلم طاقتور ہوچکا ہو‘ وہاں اسے پوری قوت سے کچل دینا چاہیے۔ 
مگر آج صورتحال یکسر مختلف ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت میں انصاف بانجھ ہوچکا ہے۔ 9ماہ کے دور حکومت میں 24معصوم بچے جنسی زیادتی کے بعد قتل کیے جاچکے ہیں ۔ شہر کی قید ہے‘ نہ صوبے کی‘ قوم کی تفریق ہے ‘نہ قبیلے کی ۔ مظلوم انصاف کی دہائی دیتے در در کی ٹھوکریں کھا رہیں ہیں۔شہید نقیب اللہ محسود کے والد رائو انوار کے ساتھیوں کی دھمکیوں کی وجہ سے اپنے بیٹے کے قتل کے کیس کی پیروی نہیں کرسکتے۔ سانحہ ساہیوال کے متاثرہ بچے ہاتھ جوڑ کر انصاف کی بھیک مانگتے پنجاب اسمبلی کے سامنے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ سندھ کی بیس سالہ بیٹی اُم رباب چانڈیوجاگیرداروں کے خلاف اپنے باپ دادا اور چچا کے قتل کے کیس میں انصاف کے لیے ننگے پائوں عدالت جاتی نظر آتی ہے‘پھر شہر اقتدار کے تھانہ گولڑہ کی ایک ماںتسلیمہ بی بی عدالت میں دہائی دیتی نظر آتی ہے کہ پولیس نے اس کے نابالغ آٹھ سالہ اور دس سالہ بیٹوں کو اغواء کرلیا اور جب معاملہ عدالت پہنچا تو پولیس بچوں کی موجودگی سے انکاری ہوگئی ہے۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو بچوں کے ساتھ عدالت پیش ہونے کا حکم دیا ہے اور بچوں کی غیر موجودگی میں ان کے اغواء کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔
ہر جاانصاف کی دُہائی ہے‘ مگر حکمران سننے کو تیار نہیں۔درج بالا تمام کیسز میں قانون کے رکھوالوں نے ایف آئی آر اس وقت تک درج نہیں کی جب تک معاملہ سوشل میڈیا پر نہیں آگیا۔جب ایف آئی آر جیسے بنیادی حق کیلئے عوام کو سوشل میڈیا اور احتجاج کا سہارا لینا پڑجائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ بار حکومت درست کاندھوں پہ نہیں ہے۔ حضرت علی ؓ کے دور حکومت میں مخالفین کی سازشیں جاری تھیں‘ مگر آپ نے کبھی عدل کا راستہ نہ چھوڑا‘ یہاں تک کہا کہ جو حاکم رعایا کو انصاف فراہم کیے بغیر خراج (ٹیکس) وصول کرتا ہے‘ اس کی حکومت کا عرصہ طویل نہیں ہوتا۔
تاریخ میں زندہ صرف عادل ہی رہے ہیں۔ عدل کے میزان کو کسوٹی بنانے والوں نے زمین پر بھی راج کیا اور تاریخ پر بھی۔جو عدل نہ کرسکے انہیں اپنی واہ واہ کروانے کیلئے ڈھولچی و خوشامدی رکھنے پڑے ۔ خوشامدی دربار میں اور ڈھولچی شہر بھر میں ڈھول پیٹ کر بادشاہ کا ہر قدم درست و بہترین ہونے کا واویلا کرکے شاہی انا کو تسکین پہنچانے کا سامان کرتے کہ یہی ان کی روٹی روزی تھا۔ زمانہ ترقی کرگیا ہے‘ اس لیے آج ڈھولچیوں نے ڈھول چھوڑ کر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سنبھال لیے ہیں اور درباریوں نے ٹاک شوز۔ زورو شور سے اپنے بادشاہ کے ہر قدم کو درست قرار دینے پر تلے ہیں۔ بس ایک فرق رہ جاتا ہے کہ پہلے وقتوں کے ڈھولچیوں و درباریوں کا شجرہ نسب تو ہوتا ہی تھا ۔ آج تو بس خود رو جھاڑیاں ہی ہیں ‘جو جانے کیسے اور کہاں سے وجود میں آگئیں ہیں؛ اگر حاکمِ وقت ان پر بھروسہ کرتا رہا اور میزان عدل کو نہ تھاما‘ توتاریخ انہیں بھی بھلا دے گی‘ پھر جلد یا بدیریہ تبدیلی کا تابوت لیے اسلام آباد کے چوراہے پر بیٹھے ہوں گے‘ مگر تبدیلی کے تابوت سے اٹھنے والا تعفن کسی ''خوشبودار سپرے‘‘ سے ختم نہیں ہوسکے گا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں