"FBC" (space) message & send to 7575

کورونا کے تابوت میں معیشت کی تدفین

گزشتہ ہفتے محکمہ صحت کے دفتر جانا ہواتو یہ روح فرسا منظر دیکھنے کو ملا کہ وہاں موجود افراد اپنے جاننے والوں سے بڑے دھڑلے سے گلے ملتے تھے اور ہاتھ ملارہے تھے۔جن صاحب سے مجھے ملنا تھا انہوں نے بھی بڑی گرمجوشی سے جھپی ڈالی ۔ جب انہیں یاد دلایا کہ ملک میں کورونا کی وجہ سے ہنگامی صورتحال ہے اوراس نازک صورتحال سے نمٹنے کی منصوبہ بندی بھی آپ ہی کا ادارہ کررہا ہے تو مجھے جواب ملا کہ کورونا ورونا کچھ نہیں ‘بس ہمارے ایمان کی کمزوری ہے ۔ تب مجھے پتا چلا کہ کورونا دراصل کوئی وبا نہیں بلکہ ایمان کی مضبوطی جانچنے کا پیمانہ ہے اور ہمارا محکمہ صحت کورونا کے پھیلائو کو روکنے کے اقدامات کے بجائے ایمان کی مضبوطی و کمزوری کی اسناد تقسیم کررہا ہے۔ 
خیر اپنے ایمان کے کمزور ہونے کی سند لینے کے بعد جب واپس آئے تو رہی سہی کسر کورونا کا ٹیسٹ کرنے والی ایک ٹیم نے پوری کردی ۔ یہ ٹیمیں محکمہ صحت کی جانب سے تشکیل دی گئیں ہیں ‘جن میں ڈینگی کے خلاف کام کرنے والے ملازمین کو اب کورونا کے محاذ پر تعینات کیا گیا ہے‘ جبکہ ان کی مدد کے لیے سرکاری لیبارٹریز کے لیب اٹینڈنٹ بھی موجود ہوتے ہیں۔ جس ٹیم سے میرا ٹاکرا ہوا وہ بیرون ملک سے آنے والی ایک پرواز کے مسافروں کے ٹیسٹ کرنے میں مصروف تھی۔ ٹیم کے اراکین میں سے صرف ایک نے حفاظتی لباس پہناہوا تھا اور دیگر صرف سرجیکل ماسک پر گزاراکررہے تھے۔ استفسار پر ٹیم سربراہ جو شاید پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا پھٹ پڑا اور کہنے لگا کہ آپ حفاظتی لباس کی بات کرتے ہیں ہم میں سے بیشتر کے تو اپنے ٹیسٹ ابھی تک نہیں ہوئے۔ ایس او پیز کے مطابق زیادہ سے زیادہ 200ٹیسٹ کرنے کے بعد ہمیں آئسولیشن میں جانا چاہیے اورپھر اپنے ٹیسٹ کرانے چاہئیں تاکہ اگر کسی مریض سے یہ وائرس ہمیں منتقل ہوگیا ہو تو ہماری وجہ سے دیگر لوگوں کو نہ ہو‘ مگر گزشتہ دو ماہ کے دوران ہمارے ٹیم اراکین فی کس آٹھ ہزار سے زائد ٹیسٹ کرچکے ہیں ‘مگر کسی کا بھی نا تو ٹیسٹ کروایا گیا ہے اور نہ ہی اسے آئسولیشن میں بھیجا گیاہے‘ ہم نے جن کے ٹیسٹ کیے ہیں ان میں سے سینکڑوں مثبت آئے ہیں‘ اب ذرا سوچیں کہ کیا مثبت ٹیسٹ کرنے کے بعد ہم کورونا سے متاثر نہیں ہوئے ہونگے؟ محکمہ صحت کے اس نمائندے کی بات سن کر میں لاشعوری طور پر اس سے چند قدم دور ہوگیاکہ کہیں یہ خدانخواستہ کورونا پھیلانے کا سبب نہ بن رہا ہو۔ محکمہ صحت کے اس نوجوان ملازم کے ایک انکشاف نے میرے تجسس میں اضافہ کیا اور پتا چلا کہ جن افراد پر محکمہ صحت کے ملازمین کو ''ترس‘‘ آجائے ان کا ٹیسٹ کرنے کے دوران حلق سے لعاب حاصل کرنے کے طریقہ پر عمل کرنے کے بجائے صرف زبان کی نوک سے لعاب لے لیا جاتا ہے جس سے ٹیسٹ منفی آجاتا ہے۔ یہاں تک تو بات ہوئی محکمہ صحت کی ‘ اب ذرادیکھیں کہ ہمارے سرکاری و نجی ہسپتالوں میں کورونا کو کس درجہ سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیوکا تذکرہ کافی ہوگا ‘جس میں ہسپتال کا عملہ ایک خاتون مریضہ کا انتقال ہونے کے بعد اس کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں موت کی وجہ کورونا درج کرتا ہے مگر جب لواحقین کی جانب سے سخت ردعمل آتا ہے تو ان سے رپورٹ واپس مانگتے ہیں تاکہ موت کی وجہ کورونا کے بجائے کوئی اور درج کردی جائے۔ ایسے درجنوں واقعات ہیں جنہیں دیکھ کر‘جان کراور سن کر کورونا وائرس کے حوالے سے عوام میں وہ شعور پیدا نہ ہوسکا جو کہ ہونا چاہیے تھا۔
جب کورونا دنیا میں ایک وبا کی صورت سامنے آیا تو جس ملک کوبھی کورونا نے متاثر کیا وہاں اس سے نمٹنے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کیے گئے۔مگر یہاں معاملہ یکسر مختلف رہا‘ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں عالمی سطح پر کیے جانے والے اقدامات کے برعکس کورونا کو بھی حکومت کی جانب سے اپنی نااہلی چھپانے‘ سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔بجائے اس کے کہ حکومت‘ اپوزیشن ‘ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام‘ سوسائٹی کے اہم طبقات اور فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر کورونا کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت عملی سامنے لاتی‘ کورونا کو مختلف سانچوںمیں ڈھال دیا گیا۔ کبھی کورونا یوتھیا ٹھہرا تو کبھی جیالا‘کبھی پٹواری قرار پایا تو کبھی سرخا۔ حکومت کی جانب سے مساجد جیسی صاف جگہوں پر کورونا کے پھیلائوکی روک تھام کے نام پرشوروغوغاکیا گیا مگر سبزی منڈیوں اور بازاروں میں کچرے کے ڈھیروں سے آنکھیں پھیر لی گئیں‘ جہاں لاک ڈائون ختم کرنے کی افواہ پھیلتے ہی عوام کا رش عام دنوں سے دوگنا ہو گیا ہے۔ایک جانب تو غریبوں کو پکڑ پکڑ کر قرنطینہ بھیجا جانے لگا اور دوسری جانب ''امیر درزی‘‘ جیسی شخصیات کو مشتبہ اور کورونا پھیلائو کا ذمہ دار ہونے کے باوجود باعزت طور پرگھر لا کر چھوڑا گیا۔پھرجہاں کورونا سے فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹروں کو حفاظتی لباس تک میسر نہیں تھا اور وہ سرجیکل ماسک پر گزارا کررہے ہیں وہیں حکومتی وزراء اور ان کے اہل خانہ مہنگے ترین ماسک پہن کر گھومتے نظر آرہے تھے اور تو اور باہر سے آنے والی امداد بھی مختلف مقامات پر فروخت ہونے کی افواہ نما خبریں گردش کر رہی تھیں۔ایسے موقع پر جب سب کی نظریں وزیراعظم کی جانب تھیں تو وزیر اعظم صاحب بھی کبھی لاک ڈائون کو انتہائی خطرناک قرار دیتے نظر آئے تو کبھی لاک ڈائون کا کریڈٹ لیتے ۔لاک ڈائون‘سمارٹ لاک ڈائون‘ نرم و سخت لاک ڈائون‘ غرض یہ کہ لاک ڈائون کی مختلف اقسام متعارف کرانے کا سہرا بھی ہماری حکومت کو ہی جاتا ہے۔ 
غرض کورونا مذاق بن کر رہ گیا‘اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام نے بھی کورونا کوسنجیدہ نہیں لیا‘ اس کا ایک منظر نام نہاد لاک ڈائون کے خاتمے پر بازاروں میں رش کی صورت دیکھا جاسکتا ہے‘ جس کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ لاک ڈائون کھلنے کے بعد کراچی اور لاہور میں صرف ایک دن میں 10ارب روپے سے زائد کی سیل ہوئی ہے۔اس سب کے بعد اب حکومت نے یہ کہا ہے کہ ملکی معیشت کورونا کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔اس بیان سے ایسا لگتا ہے کہ ہسپتالوں نے دیگر امراض میں جان گنوانے والے مریضوں کو کورونا کے کفن میں لپیٹا ہو یا نہ ہو مگر‘ حکومت نے ملکی معیشت کو کورونا کے تابوت میں رکھ کر دفن کردیا ہے ‘ اب اس پر کوئی سوال کرنے کی بھی ہمت نہیں کرسکتااور معیشت کی تجہیزو تدفین کے بعداب حکومت اپنی پوری قوت پیپلز پارٹی کوسندھ میں ناکام ثابت کرنے پر لگارہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں